کچھ روز پہلے ہماری تجزیہ کار دوست اور سوشل ایکٹوسٹ نازش بروہی نے ٹویٹر پر ایک اسٹوری شئیر کی۔اسے پڑھ کے پہلے تو گمان ہوا کہ یہ کوئی نصف صدی پہلے کا قصہ ہے جسے علامتی انداز میں بشکلِ کہانی پیش کر کے کوئی تازہ نتیجہ نکالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مگر پھر دھیان لگایا تب احساس ہوا کہ یہ تو آج کل کی حقیقی کہانی ہے۔آپ بھی یہ قصہ سن لیجیے۔
’’ ایک دن جب میں ( نازش ) گھر پہنچی تو کیا دیکھتی ہوں کہ لاؤنج میں ایک بڑا سا گملا رکھا ہوا ہے اور اس میں ایک درخت ہے۔معلوم ہوا کہ علی خرید کے لایا ہے۔علی کا تعارف یہ ہے کہ وہ ہمارے گھر میں کام کرتا ہے۔تعلق رحیم یار خان کے ایک گاؤں سے ہے۔وہ ایک عرصے سے انجیر کا ایک درخت خریدنے کے لیے پیسے جمع کر رہا تھا۔
( انجیر کے بارے میں روایت ہے کہ یہ جنت کا درخت ہے۔اس کا پھل اور سایہ دونوں متبرک ہیں۔اور جہاں یہ لگا ہو وہاں خوش بختی کا سایہ رہتا ہے۔ )
علی یہ درخت اس لیے خریدنا چاہتا تھا تاکہ اسے گاؤں کی مسجد کے باہر لگا سکے۔اس نے یہ درخت بارہ ہزار روپے میں خریدا تھا۔ علی اس جنتی درخت کو بالاخر حاصل کرنے اور بے پناہ ثواب کمانے کے خیال سے بہت خوش تھا۔ہم نے اپنی تین بلیوں کو ایک کمرے تک محدود کر دیا تاکہ وہ انجیر کے درخت کے قریب نہ پھٹکیں اور گملے کی مٹی کو کریدنے یا درخت کو نقصان پہنچانے سے باز رہیں۔
اگلے دن علی اور انجیر کا درخت رحیم یار خان روانہ ہو گئے۔اس درخت کو بس میں ایک بہتر جگہ رکھنے کا اہتمام کیا گیا تاکہ دورانِ سفر کسی بھی طرح کے نقصان یا ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ رہے۔گاؤں کی مسجد انتظامیہ کو پہلے ہی اس بارے میں مطلع کردیا گیا تھا اور وہاں سب بے چینی سے بہشتی درخت کی آمد کے منتظر تھے۔ سب نے علی کو پرجوش انداز میں خوش آمدید کیا۔ درخت کو گاؤں کی مٹی میں لگایا گیا۔اس موقعے پر بطور شکرانہ بادام والا دودھ تقسیم کیا گیا۔ایک دوسرے کو مبارک بادیں دی گئیں کہ ان کا گاؤں بالاخر بہشتی درخت کی چھاؤں میں آ گیا۔علی مجھے اس موقع کی وڈیوز بھیجنا نہیں بھولا۔
اور پھر کہانی میں ایک ڈرامائی موڑ آتا ہے۔
لگ بھگ ایک ہفتے بعد درخت اپنی جگہ سے اچانک غائب ہوجاتا ہے۔پتہ یہ چلا کہ وڈیرے نے نصف شب کے لگ بھگ اپنے آدمی بھیجے اور درخت کو اکھڑوا کر اپنے حجرے کے احاطے میں منتقل کر دیا تاکہ اس جنتی درخت کی چھاؤں سے صرف وہ اور اس کے اہلِ خانہ فیض یاب ہوں۔گاؤں میں بے چینی پھیل گئی۔مسجد کمیٹی نے بھی اس حرکت پر دبے لفظوں میں احتجاج کیا۔اس بحران کو حل کرنے کے لیے گاؤں کی کچھ معتبر شخصیات نے وڈیرے سے ملاقات کی۔
وڈیرے کی دلیل تھی کہ چونکہ مسجد اس کی زمین پر بنی ہوئی ہے لہٰذا بطور مالک اس زمین پر اس کا حق سب سے زیادہ ہے۔دلیل مضبوط تھی اور کوئی بھی وڈیرے سے بہت زیادہ الجھنا نہیں چاہتا تھا۔
بالخصوص علی یا اس کے اہلِ خانہ تو بالکل بھی وڈیرے کو ناراض نہیں کر سکتے تھے۔کیونکہ کچھ عرصے پہلے علی کے گھروالوں کی ایک بھینس مخالف قبیلے والے کھول کے لے گئے تھے۔اور اسے پیسے لے کر واپس کیا۔یہ پیسے علی اور اس کے گھر والوں نے دیے۔یعنی علی کی تنخواہ کے توسط سے ہم بھی یہ تاوان دینے میں شریک تھے۔اور یہ ڈیل وڈیرے کے توسط سے ہوئی۔ پولیس کو بیچ میں ڈالنا اس لیے فضول تھا کہ اس کے بعد خدشہ تھا کہ بھینس زندہ ہی نہ رہے۔
مگر اب انجیر کے درخت کے سبب گاؤں کا ماحول کچھ کچھا کچھا سا تھا۔وڈیرے نے گاؤں والوں کی تشفی کے لیے جرگہ بلا کر فیصلہ کیے جانے سے اتفاق کیا۔جرگے نے فیصلہ کیا کہ اگرچہ مسجد وڈیرے کی زمین پر بنی ہوئی ہے۔مگر مسجد کی زمین جنت کا حصہ ہے۔لہٰذا اس کے اندر اور اردگرد کی اشیا پر بھی مسجد کا حق اولین ہے۔چنانچہ انجیر کے درخت کو دوبارہ وہیں لگایا جائے جہاں سے یہ اکھاڑا گیا تھا۔البتہ اس درخت کا پھل اگلے پانچ برس تک وڈیرہ لے جائے گا۔مگر درخت ، اس کے پتے اور چھاؤں مسجد کی ملکیت ہوں گے۔کیونکہ مسجد کا احاطہ بھی جنت کا حصہ ہے۔
سب نے اس فیصلے سے اتفاق کیا۔اور کشیدگی بظاہر ختم ہو گئی۔مگر جب انجیر کے درخت میں پھل آنا شروع ہوا تو ایک اور قضیہ کھڑا ہو گیا۔کچھ انجیر چوہوں نے کتر دیے۔وڈیرے نے اس واقعہ کو مسجد انتظامیہ کی غفلت قرار دیتے ہوئے وعدہ خلافی بتایا۔وڈیرے نے رات کو اس درخت کی حفاظت کے لیے اپنے کچھ آدمی مقرر کر دیے۔اس درخت کو کیڑے مکوڑوں سے بچانے کے لیے اسپرے بھی کروایا گیا۔
مگر یہ خطرہ اپنی جگہ ہے کہ چوہوں کا کیا کیا جائے۔وہ تو فصلوں میں چھپے رہتے ہیں اور کسی بھی وقت موقع پا کر انجیر کتر سکتے ہیں۔علی نے بتایا کہ وہ بھی اب گاؤں کی پنچائتی کمیٹی کا رکن بن گیا ہے۔انجیر کا درخت، اس کا پھل، اس کی چھاؤں اپنی جگہ موجود ہیں۔ مگر بے یقینی کا خوف بھی سایہ فگن ہے۔
یہ کہانی بس اتنی ہی ہے۔لیکن کیا حرج ہے کہ اگر اس چھوٹی سی داستان کو اس گاؤں سے نکال کے ڈھانچے اور فیصلہ سازی کے عمل اور روایت تک پھیلا دیا جائے۔
اس ملک پر بھی جنتی درخت کا سایہ بتایا جاتا ہے۔ مگر پھل کوئی اور لے جاتا ہے اور گاؤں والوں کے حصے میں بس جنتی پتوں کا سایہ رہ جاتا ہے۔ چوہے پھل کی تاک میں رہتے ہیں اور چوہوں سے حفاظت ایک مستقل اور مہنگا دردِ سر ہے۔ حفاظت ہو بھی جائے تب بھی پھل وڈیرے کے ہاں ہی پہنچتا ہے۔گاؤں والے پھر کیوں پریشان اور بے چین رہتے ہیں۔یہ شاید گاؤں والے بھی اچھے سے نہیں جانتے۔