ایس آئی ایف سی : ایک نیا کمپنی راج

اس وقت Special Investment Facilitation Council (SIFC) ایک نئے اور خوفناک کمپنی راج کی صورت میں ابھر رہا ہے۔ نہ صرف اس ادارے کو پارلیمنٹ میں بغیر کسی بحث کے تشکیل دیا گیا، بلکہ اس کی حیثیت کابینہ سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہے کیونکہ بیرونی سرمایہ کاری کی ذمہ داری اس کی ہوگی۔ یہ تعجب کی بات نہیں کہ اس کے اندر حاضر سروس جرنیل بھی شامل ہیں، جو ملکی دفاع کے ساتھ ساتھ معیشت کو "سنبھالنے” کی ذمہ داری بھی لے رہے ہیں۔ اس قسم کی آل راؤنڈر افواج بہت کم خوش نصیب ممالک کے پاس ہوتی ہیں۔

اس ادارے کے بارے میں ابھی بھی کم معلومات دستیاب ہیں۔ حال ہی میں بی بی سی اردو نے ایک شاندار رپورٹ کی ہے جس سے جنرل ضیا الحق کے دور کی یاد تازہ ہوگئی، جب لوگ پاکستان میں خبروں کو جاننے کے لیے بی بی سی سنا کرتے تھے۔ چند بنیادی نکات آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں تاکہ اندازہ ہوسکے کہ یہ کس قسم کی تباہی کا آغاز کیا جارہا ہے۔

پہلے تو Green Pakistan Initiative کے تحت ایک کمپنی بنائی جارہی ہے، جس میں اسٹیبلشمنٹ کے شیئر ہوں گے اور وہ کارپوریٹ فارمنگ کے لیے ایک بیرونی پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنی کے ساتھ معاہدہ کرے گی۔ بتایا جارہا ہے کہ خلیجی ریاستیں اس کمپنی کو کنٹرول کریں گی، جس کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ منافع تقسیم کرے گی۔ لیکن یہ کارپوریٹ فارمنگ کس کی زمین پر ہوگی؟ چولستان کے ساتھ ساتھ یہ پنجاب کے کسانوں اور مزارعین کو بے دخل کرکے ان کی زمین پر فارمنگ کی جائے گی۔ پنجاب کی چھ اہم تحصیلوں میں بہترین زرعی زمین کو اس پراجیکٹ میں شامل کیا گیا ہے، جس کی تعداد 45 ہزار ایکڑ بنتی ہے، جس میں 27 ہزار ایکڑ پر مزارعین کام کرتے ہیں۔ نومبر میں کئی جگہوں پر مزارعین کو بے دخل کرنے کی کوششیں کی گئیں، لیکن وہ ڈٹ گئے۔ آج ہمیں اطلاع دی گئی ہے کہ مزارعین پر حکومتی ادارے ٹیکس اور دیگر حربوں سے بوجھ بڑھا رہے ہیں تاکہ وہ زمین چھوڑنے پر مجبور ہوں۔ ایک ایسے وقت میں جب پنجاب کا کسان بدترین دور سے گزر رہا ہے، اس پر مزید پابندیاں لگا کر اس کی کمائی کے ذرائع ختم کیے جارہے ہیں تاکہ پرائیویٹ کمپنیاں اس کی زمین کو ہڑپ لیں۔

دوسرا معاملہ بنجر زمینوں کو چھ نہروں کے ذریعے آباد کرنے کا ہے، جن کو دریائے سندھ کے ذریعے پانی فراہم کیا جائے گا۔ اس پر پچھلی پوسٹ میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں کہ یہ کس طرح سندھ کی زراعت کے ساتھ ساتھ ماحولیات کے لیے تباہ کن عمل ہے، جس سے mangrove forests کے علاوہ لاکھوں ایکڑ زمین بنجر ہوجائے گی۔ آل راؤنڈرز کی پلاننگ دیکھیں: زرعی زمین پر ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن بنا رہے ہیں، دوسری جانب نہریں نکال کر زرعی زمین کو بنجر کر رہے ہیں، اور بنجر زمین کو زرخیز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس دوران لاکھوں لوگ بےروزگار ہوجائیں اور ماحول تباہ ہوجائے تو یہ قومی سلامتی کے لیے ایک چھوٹی سی قربانی تصور کی جائے گی۔

تیسرا کارنامہ گلگت بلتستان میں کرنے جارہے ہیں، جہاں گرین ٹورزم کے نام پر زمینوں پر قبضہ گیری شروع ہوگی۔ اس پورے عمل میں مقامی لوگوں سے مشاورت کیے بغیر پاکستان کی سیاحت کے گڑھ کو ایک کمپنی کے حوالے کیا جارہا ہے، جس کی پاداش میں وہ زمینوں کی ملکیت بھی اپنے نام کرلے گی۔ اگر کوئی جگہ اس خطے میں سیاحت کے لیے مشہور ہے تو وہ گلگت بلتستان ہے، اور وہاں کے لوگوں کو اس انڈسٹری کے ساتھ منسلک ہوئے دہائیاں بیت گئی ہیں۔ ریاست یہ بھی کرسکتی تھی کہ لوکل سرمایہ کاروں کو سپورٹ دینے کے لیے سڑکوں، بجلی اور انٹرنیٹ کے انفراسٹرکچر کو بہتر کرتی، ساتھ ہی مقامی لوگوں کے لیے آسان قرضے مہیا کرتی، جس سے وہاں کی انڈسٹری مزید مضبوط ہوتی اور مقامی لوگوں کو روزگار ملتا۔ لیکن آل راؤنڈرز کے اعتماد کا لیول دیکھیں کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم مقامی لوگوں کو سکھائیں گے کہ سیاحت کس کو کہتے ہیں!

خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں SIFC کے ذریعے معدنیات پر کام ہوگا۔ لیکن حقیقت میں ان دونوں جگہوں پر پیسے بٹورنے کا بنیادی طریقہ واردات بیرونی اور اندرونی جنگیں اور اس کے ساتھ اسمگلنگ کا کاروبار ہی رہے گا، جس کے ذریعے سالانہ اربوں روپے کمائے جاتے ہیں۔ یعنی اگر دیگر جگہوں پر ترقی کے نام پر عوام کو قربان کیا جارہا ہے تو خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں یہ کام سیدھا سیدھا منافع بخش ڈالری جنگوں کے ذریعے کیا جارہا ہے۔

یہ تمام واقعات ہمیں بتا رہے ہیں کہ پاکستان میں سرمایہ داری صنعتی ترقی سے ہٹ کر سیدھا سیدھا قبضہ گیری کی طرف بڑھ رہی ہے۔ کارل مارکس نے اسے Primitive Accumulation کا نام دیا تھا، یعنی وہ طریقہ کار جس کے تحت دوسروں کی محنت اور وسائل پر قبضہ کرکے اپنی دولت کو بڑھایا جائے۔ یعنی یہاں پر کوئی DeepMind یا Apple جیسی کمپنیاں نہیں بنیں گی، بس موجودہ وسائل کی ہی بندر بانٹ ہوگی، جس کے ذریعے وسائل نچلے طبقے سے اوپر والے طبقے کی طرف منتقل کیے جائیں گے۔ اس سارے عمل کو عالمی سطح پر پروفیسر Jodi Dean نے Neofeudalism کہا ہے، جس میں چند کمپنیاں قانون و آئین سے بالاتر ہوکر دنیا پر حکمرانی کریں گی۔ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ چند شہر دولت کا مرکز بن جائیں گے، جبکہ باقی دنیا تباہ حال ہوگی، اور ہماری آنے والی نسلیں اگر خوش قسمت ہوئیں تو ان کمپنیوں کے لیے غلامی کریں گی، اور بدقسمت ہوئیں تو بےروزگاری کی زندگی گزاریں گی۔

ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے، جہاں ہر "پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ” کے نام پر ایک ادارہ ملکی وسائل عالمی کمپنیوں کو بیچ رہا ہے، اور اس کے بدلے اپنے لیے ایک معاوضہ لے رہا ہے۔ وہ قانون و آئین سے بالاتر ہے اور لاہور، اسلام آباد، کراچی، اور کچھ حد تک پشاور اور کوئٹہ کو اپنی دولت کا مرکز بنا رہا ہے، جبکہ باقی ملک بے دخلیوں، محرومیوں اور مجبوریوں کے دلدل میں گرتا جارہا ہے۔ اور جب زراعت سے لے کر معدنیات، سیاحت سے لے کر تجارت، اور دریاؤں سے لے کر پہاڑ، سب ایک ہی کمپنی کے ہوں گے، تو پھر ہماری حیثیت اس کے غلام سے زیادہ کیا ہوگی؟ یعنی جمہوریت کے ساتھ ساتھ شہریت کے تصور کو بھی ختم کیا جارہا ہے۔

ان حالات کو پیدا کرنے میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا بنیادی ہاتھ ہے کیونکہ دونوں جماعتوں نے کمپنی راج کو نہ صرف تسلیم کیا ہے، بلکہ اس کے لیے باقاعدہ جگہ ہموار کی ہے۔ تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی۔ ملک بھر میں شہریوں کو اس کمپنی راج کے خلاف منظم ہونا ہوگا، کیونکہ یہ لڑائی اب ہمارے ملک کے عوام کے وجود کی لڑائی ہے، جسے بہت سستے داموں میں عالمی منڈی میں بیچا جارہا ہے۔ مزاحمت اور وسیع پیمانے پر تنظیم سازی ناگزیر ہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ آل راؤنڈرز کو معیشت اور سیاست کے کھیل سے باہر کیا جاسکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے