’’کتنے بندے تھے؟ ‘‘والے سوال کا جواب ڈھونڈنے کو میں نے ہمیشہ وقت کا زیاں سمجھا ہے۔اس حقیقت سے لیکن کبھی انکار نہیں کیا کہ ہمارے معاشرے کا ایک مؤثر حصہ عمران خان صاحب کی عقیدت میں مبتلا ہے۔ان کے مداحین کی اکثریت کا تعلق شہری متوسط طبقے سے ہے۔ اس کے خوش حال ترین افراد عموماََ سیاست سے لاتعلق رہا کرتے تھے۔خان صاحب نے مگر انہیں اور خاص طورپر اس طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کو بھی سڑکوں پر آکر دھرنوں اور احتجاجی مظاہروں کے ذریعے اپنے جذبات جارحانہ انداز میں پیش کرنے کی راہ دکھائی۔
کرکٹ سے سیاست میں آئے عمران خان صاحب کو ان کے مداحین تقریباََ دیوتا تصور کرتے ہیں۔ایک بہادر اور ایمان دار شخص جو سیاست کے ذریعے اقتدار میں آئے ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑا ہوگیا۔مذکورہ مداحین لیکن محض اپنی قوت کے بل بوتے پر عمران خان صاحب کے انتخابی سیاست کے تمام مراحل سے گزرکر اقتدار میں لانے کے قابل نہیں تھے۔ 2011ء سے مگر ہماری ریاست کے چند طاقت ور افراد نے بھی قوم کو ’’سیدھی راہ‘‘ پر چلانے کی ٹھان لی۔ 2008ء سے ’’اقتدار میں باریاں‘‘ لینے والوں سے وہ ریاستی اختیارات پر اجارہ داری کے تناظر میں اُکتائے ہوئے تھے۔ماہرانہ خاموشی سے عمران خان صاحب کو سرپرستی فراہم کرنا شروع ہوگئے۔ مذکورہ سرپرستی ہی نے جولائی 2018ء کے انتخابات کو متنازعہ بنایا۔
اگست 2018ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد مگر عمران خان صاحب ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے میں ہر صورت ناکام رہے۔ ان کی ناکامی کا دوش لیکن ان کے جنونی مداحین نے اس ’’نظا م کہنہ‘‘ کے سررکھنا شروع کردیا جو کئی دہائیوں سے ہمارے پر مسلط ہے۔’’سسٹم‘‘ کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے وہ اس حقیقت کا احساس ہی نہ کر پائے کہ عمران خان صاحب نے اقتدار میں آنے کے لئے ’’انقلاب‘‘ برپا نہیں کیا تھا۔ان کی طاقت کا حقیقی سرچشمہ قومی اسمبلی تھی جہاں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اراکین اپنے تئیں اکثریت میں نہیں تھے۔ عمران خان صاحب کو اقتدار میں لانے کے لئے’’اتحادیوں‘‘ سے رجوع کرنا پڑا۔
ایک کائیاں سیاست دان خود کو ورثے میں ملے ’’نظام کہنہ‘‘ کی محدودات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہی عوام کے لئے کچھ ’’نیا‘‘ فراہم کرتا ہے۔ترکی کا اردوان اس ضمن میں اہم ترین مثال ہے۔بہت لگن اور احتیاط سے اس نے ترکی کو ’’نیا‘‘ بنایا ہے او رآج بھی ’’سلطان‘‘ کی طرح وہاں کا حکمران ہے۔اپنے اقتدار کے دوران تاہم عمران خان صاحب پارلیمانی سیاست کے تقاضوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے کچھ ’’نیا‘‘ کرنے کو ناکام رہے۔ اس کی وجہ سے ان کی جماعت میں ’’بغاوت‘‘ ہوگئی۔’’اتحادی‘‘ بھی دائیں بائیں ہونا شروع ہوگئے۔ اپوزیشن جماعتوں نے حکمران اتحاد میں تفریق کو مہارت سے بھانپ لیا۔عمران خان صاحب کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے کے لئے تحریک عدم اعتماد کا جال پھینک دیا ۔
اپنے خلاف آئی تحریک عدم اعتماد کا سیاسی حربوں سے مقابلہ کرنے کے بجائے عمران خان صاحب نے یہ داستان سنانا شروع کردی کہ ان کی اپنائی ’’آزادوخودمختار‘‘ پالیسی کی وجہ سے امریکہ ان کا دشمن ہوگیا ہے۔وہ انہیں اقتدار سے ویسے ہی فارغ کرنا چاہ رہا ہے جیسے ایران کے قوم پرست ڈاکٹر مصدق اور چلی کے عوام دوست صدر آلندے کو ’’غداروں‘‘ کی پشت پناہی سے معزول کیا گیا تھا۔ہمارے ہاں ذوالفقار علی بھٹو بھی اپنے خلاف1977ء میں چلی ’’نوستاروں والی‘‘ تحریک کو امریکی سازش ٹھہراتے رہے۔ ان کے مداحین آج بھی بضد ہیں کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے جنون اور مسلم اُمہ کو ایک طاقت ور بلاک کی صورت متحد کرنے کی کوششوں نے امریکہ کو بھٹو صاحب کا دشمن بنادیا تھا۔
عمران خان صاحب نے جب خود کو دورِ حاضر کا مصدق، آلندے اور ذوالفقار علی بھٹو ثابت کرنے کی کوشش کی تو ہماری اپوزیشن جماعتوں نے ان کے بیانیے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ’’بندے‘‘ پورے کرنے پر ہی توجہ مرکوز رکھی۔گزرے ہفتے کے روز بالآخر عمران خان صاحب کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹادیا۔
عمران خان صاحب کے دیرینہ اور جنونی مداحین یہ تسلیم کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہیں کہ عمران خان صاحب اقتدار سے پارلیمانی سیاست کی بنیادی حرکیات اور محدودات کی وجہ سے محروم ہوئے ہیں۔ وہ اس کا دوش فقط ’’امریکی سازش‘‘ کے کاندھے پر رکھ رہے ہیں۔ امریکہ کی مذمت کے لئے اتوار کی رات سے تحریک انصاف کے حامیوں نے پاکستان کے بڑے شہروں میں عوامی اجتماعات کے ذریعے ایک تحریک کاآغاز بھی کردیا ہے۔مذکورہ اجتماعات میں لگائے نعروں اور فضا میں لہرائے پلے کارڈز پر توجہ دیں تو عمران خان صاحب کے جنونی مداحین کے غصہ کا اصل نشانہ امریکہ کے بجائے پاکستان کے چند ادارے تھے۔ انہیں امریکہ کا ’’سہولت کار‘‘ بناکر پیش کیا جارہا ہے۔
عمران خان صاحب کے دیرینہ مداحین کے برعکس تحریک انصاف میں جمع ہوئے روایتی سیاستدان شاہ محمود قریشی کی طرح آج بھی ’’سسٹم‘‘ کا حصہ رہتے ہوئے ہی عمران خان صاحب کو دوبارہ اقتدار میں لانا چاہ رہے ہیں۔اتوار کا آغاز ہوتے ہی عمران خان صاحب نے اپنی کور کمیٹی کا اجلاس منعقد کیا۔ اس کے بعد فواد چودھری صاحب راولپنڈی کے بقراط عصر سمیت کیمروں کے روبرو آئے اور اعلان کردیا کہ شہباز شریف جیسے ’’مجرم‘‘ کے وزیر اعظم منتخب ہوجانے کے بعد تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی مستعفی ہونا شروع ہوجائیں گے۔ اتوار کی رات لال حویلی سے ابھرے بقراط عصر نے ’’جیل بھرو‘‘ تحریک کا اعلان بھی کردیا ہے حالانکہ وہ خود تحریک انصاف کے بنیادی رکن بھی نہیں ہیں۔ذاتی مسلم لیگ بنارکھی ہے۔فواد چودھری اور بقراط عصر کی بدولت تحریک انصاف کی جو حکمت عملی عیاں ہورہی ہے وہ تحریک انصاف میں شامل روایتی سیاست دانوں کو ہضم نہیں ہورہی۔ علی محمد خان اور شاہ محمود قریشی کے ذریعے اسے بے بنیاد ثابت کیا جارہا ہے۔عمران خان صاحب درحقیقت کیا چاہ رہے ہیں اس کے بارے میں ہم قطعاََ بے خبر ہیں۔ و ہ مگر زیادہ دنوں تک اس معاملے پر خاموشی اختیار کرنہیں سکتے۔ وہ اس ضمن میں ضرورت سے زیادہ خاموش رہے تو عوام کی اکثریت یہ سوچنے کو مجبور ہوجائے گی کہ اقتدار کھودینے کے بعد تحریک انصاف میں انتشار کا عمل شروع ہوگیا ہے۔عمران خان صاحب اس پر قابو پانے کے بعد کوئی واضح حکمت عملی تیار کرنے میں ناکام ہورہے ہیں۔
عمران خان صاحب نے ’’نظام کہنہ‘‘ کے خلاف واقعتا کوئی ’’عوامی تحریک‘‘ برپا کرنا ہے تو اس کی قیادت انہیں بذات خود سنبھالنا ہوگی۔ اپنی جماعت کے ’’اگلے قدم‘‘ کو اپنی زبان ہی سے بیان کرنا ہوگا۔وہ اس ضمن میں واضح رویہ اپنانے سے کتراتے رہے تو اتوار کی شام جنونی انداز میں ریاستی اداروں کے خلاف جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کارکن خود کو ’’یتیم‘‘ محسوس کریں گے۔اس کے بعد حکومت کو انہیں ’’سبق‘‘ سکھانے کے لئے ریاستی قوت کے بھرپور استعمال کا جواز بھی فراہم ہوجائے گا۔فیصلے کی اس گھڑی میں عمران خان صاحب کو جلد از جلد کوئی واضح پالیسی بیان کرنا ہوگی۔
بہتر یہی ہوگا کہ وہ ’’نظام کہنہ‘‘ کی محدودات کو نگاہ میں رکھتے ہوئے ہی کوئی حکمت عملی اپنائیں۔مسلسل خلفشار اور ابتری پاکستان کو ویسی خانہ جنگی ہی کی جانب دھکیلے گی جو شام میں کئی برسوں سے جاری ہے۔بشارالاسد مگر دس سال گزرجانے کے باوجود وہاں کا طاقتور ترین صدر بنا بیٹھا ہے۔اس کے تحفظ کو پوٹن کے روس نے فوجی دستے اور فضائی افواج بھی شام میں تعینات کررکھی ہیں۔امریکہ اور ترکی جیسے ممالک کے تاہم اس ملک میں اپنے حواری اور ’’محفوظ علاقے‘‘ بھی ہیں۔ان سب قوتوں کے برعکس داعش نامی تنظیم ہے جو وحشیانہ دہشت گردی سے شامیوں کی زندگی اجیرن بنائے ہوئے ہے۔