گوئبل خان نیازی

جوزف گوئبل ٹھیک کہتا تھا کہ جھوٹ اتنا بولو کہ سچ لگنے لگے۔۔ اور ہمارے کپتان اس فارمولہ سے اتنے متاثر ہوئے کہ اسے اپنی واحد پالیسی بنا لیا۔ آج بھی کارکن ان کے جھوٹوں پہ اعتبار کر رہے ہیں۔۔ مدینہ کی ریاست کا نام لینا جیسے مذاق ہو گیا ہو۔۔ آسیہ مسیح کو کسی کیس کے بغیر بیرون ملک بھجوانے والا مدینہ کی ریاست کی بات کرتا ہے۔ پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ کرنے کا دعویٰ کرنے والے کے پونے چار سالہ دور اقتدار میں پاکستان نے ترقی ہی صرف کرپشن میں کی ہے۔ نہیں یقین آتا تو کرپشن پرسیپشن انڈیکس کو دیکھ لیں، عمران کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ہم نے اس میں چودہ درجہ مزید ترقی کی۔ آئی ایم ایف سے قرض لینے سے بہتر خود کشی سمجھنے والے نے تین سال میں اتنا قرض لیا جتنا مجموعی طور پہ دو سابق حکومتوں نے دس سال میں لیا، اس کے لیے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پہ آنکھیں بند کر کے دستخط کر دیئے گئے، بجلی، گیس کے بل چار گنا ہو گئے، یوٹیلٹی سٹورز پہ عوام کو ملنے والی سبسڈیز ختم ہو گئیں کہ سبسڈیز ملک پر بوجھ تھیں مگر چار درجن وزرا ہماری معیشت پہ بوجھ نہیں تھے، پھر بھی بندہ ایماندار ہے، امریکی سازش کا رونا رونے والے نے آئی ایم ایف کے ملازمین کو سٹیٹ بینک آف پاکستان جیسے حساس ادارہ کا گورنر اور ڈپٹی گورنر بنا دیا پھر بھی وہ محب وطن ہے۔

یہ شخص کہتا تھا کہ ڈالر کی قدر میں ایک روپے کا اضافہ ہو تو سمجھ لو کہ حکمران چور ہیں اور ان کی جیب میں اربوں روپے چلے گئے ہیں۔۔ جب عمران نے اقتدار سنبھالا تو ڈالر کی قدر تقریباً ایک سو بیس روپے تھی اور جس روز عمران نے اقتدار چھوڑا ڈالر ایک سو نوے روپے کی بلند ترین سطح کو چھو رہا تھا۔ شہباز شریف نے اقتدار سنبھالا تو اگلے روز ہی ڈالر 182 روپے کا ہو گیا۔ سابق حکومت کے دور میں شرح نمو جسے جی ڈی پی کہتے ہیں 5.8 تھی اسے منفی 0,5 تک پہنچا کے بمشکل پونے چار سال میں چار فیصد تک پہنچایا گیا وہ بھی صرف کاغذوں میں۔۔ ملک سے متوسط طبقے کو پیس کے رکھ دیا گیا، تنخواہیں بڑھی نہیں اور مہنگائی میں اضافہ تین گنا ہو گیا۔ ڈیڑھ سو روپے لیٹر کا کوکنگ آئل ساڑھے چار سو روپے لیٹر ہو گیا، آٹا 35 روپے سے 80 روپے کلو، ڈی اے پی کھاد کی بوری 3500 سے 7 ہزار روپے تک پہنچ گئی، غریب کی پہنچ سے ادویات بھی دور ہوتی گئیں، انسولین لگانے والے غریب شہری سے اس کا دکھ پوچھیں جو مشکل سے اب انسولین لے پاتا ہے۔ ادویات کے خام مال پر ڈیوٹی کے ساتھ جنرل سیلز ٹیکس بھی لگا دیا گیا جس پر ادویہ ساز کمپنیاں بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئیں کہ جناب عوام پر رحم کریں ، پہلے ہی آپ کی ناقص پالیسیوں کے باعث پیناڈول اور ڈسپرین جیسی سستی دوائی کے نرخ بھی دو گنا ہو چکے لیکن وہ کپتان جسے دعویٰ تھا کہ بائیس سال کی جدوجہد کے نتیجہ میں اس کے پاس دو سو ماہر معاشیات ہیں جو نوے روز میں ملکی معیشت کو پٹری پہ چڑھا دیں گے اس نے پونے چار سال میں چار وزرائے خزانہ آزمائے جنہیں سابق حکومتیں بھی آزماتی رہی ہیں۔ ان وزرائے خزانہ نے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے قومی خزانہ ہی آئی ایم ایف کے حوالہ کر دیا۔ سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات سے بھیک مانگ کر زر مبادلہ کے ذخائر بڑھانے والا خودداری کا نعرہ مستانہ لگاتا ہے اور اس کی اندھی تقلید کرنے والے اس کی باتیں سن کے اش اش کر اٹھتے ہیں۔

سیلانی کے لنگر خانوں اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پر احساس پروگرام کی تختی لگا کے داد وصول کرنے والا خوددار کپتان کیا یہ بتا سکتا ہے کہ فلاحی تنظیم اخوت فاﺅنڈیشن کیوں ملک چھوڑنے پہ مجبور ہو گئی تھی، ڈاکٹر امجد سے پوچھا جا سکتا ہے کہ وہ کون لوگ تھے جو اس تنظیم کے سکالر شپ پروگرام کو سیاسی رنگ دینا چاہتے تھے؟۔ عثمان بزدار کی صورت میں پنجاب پر گویا قیامت ٹوٹی رہی، ان پونے چار سال کے دوران کپتان کے ہر قریب اور دور کے جاننے والے نے اسے بتایا کہ عثمان بزدار اور خاتون اول کی قریبی دوست فرح بی بی نے عذاب برپا کر رکھا ہے، پوسٹنگ اور ٹرانسفرز کے کروڑوں روپے لیے جاتے رہے اور یہ سب کپتان کی ناک کے نیچے ہوتا رہا۔
جو بائیڈن کی کال نہ آنے پر اتنا ناراض ہوا کہ ایک ایسے موقع پر روس جا پہنچا جب روس یوکرین میں داخل ہو رہا تھا، وہاں یوکرینی شہریوں پر گولہ باری ہو رہی تھی اور پیوٹن نے خوددار اور سمارٹ کپتان سے ہاتھ ملا کر دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اس جنگ میں پاکستان بھی روس کا ہم نوا ہے، خاتون اول کے حوالہ سے کہا جاتا تھا کہ انہوں نے بتا رکھا ہے کہ اگر بزدار کو ہٹایا تو عمران کی حکومت بھی نہیں رہے گی، یہ بھی کہا جاتا رہا کہ وزیر اعظم ہاﺅس میں ہونے والے چلوں کے نتیجہ میں کسی اہم عہدہ پر تقرری ہوتی ہے مگر مجال ہے کہ طریق کار تبدیل ہوا ہو۔۔ وزرا کا انتخاب ہو یا پھر آزاد کشمیر حکومت کا قیام، ہر جگہ اسی علم کی بنیاد پر انتخاب کیا جاتا رہا۔ جیسے ہی حکومت کے خاتمہ کا وقت قریب آیا تو عثمان بزدار کی مبینہ فرنٹ لیڈی تمام مال لپیٹ کے دوبئی روانہ ہو گئی۔ بتایا جا رہا ہے کہ فرح بی بی نے جو گھر حاصل کیا ہے اس کے ساتھ والا گھر سابق خاتون اول پنکی بی بی کی بہن کا ہے، عقل والوں کے لیے اس میں اشارہ ہے۔ جس کو پھر بھی شک ہے وہ عبد العلیم خان سے پوچھ لے۔

سعودی حکومت کے کہنے پر ملائشیا میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت سے انکار کرنے والا، ڈاکٹر عبد القدیر خان کے جنازہ میں امریکہ کے ڈر سے شریک نہ ہونے والا کہتا ہے کہ ہم آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی متعارف کروا رہے ہیں، کیا خود مختاری اور آزادی کا مفہوم تبدیل ہو چکا ہے؟۔کیا کوئی کپتان سے پوچھ سکا کہ ترکی اور ملائشیا کے ساتھ مل کر اسلامی بلاک بنانے کی بات آپ نے کی، مشترکہ ٹی وی بنانے کی بات آپ نے کی مگر ملائشیا کانفرنس میں شرکت سے کسی اور ملک کے کہنے پر انکار کرنا آزاد اور خود مختاری کا ثبوت ہے؟۔ کیا کسی نے یہ جرات کی کہ پوچھے کہ جناب سفارتکار تو معمول کے مطابق میمو بھیجتے ہیں ان میموز کو دھمکی سے بھرا خط قرار دینا، خارجہ تعلقات کے حوالہ سے کس قدر نقصان دہ ہے کیا کپتان جانتا ہے؟۔ اس حرکت کے بعد پوری دنیا میں موجود آپ کے سفیر اب اس قدر پریشانی کا شکار ہیں کہ سوچ رہے ہیں کہ آئندہ دفتر خارجہ کے ساتھ ایسے میموز شیئر ہی نہ کیے جائیں، اس کے علاوہ دنیا بھر میں سوچا جانے لگا ہے کہ یہ کس قسم کی ایٹمی ریاست ہے جہاں وزیر اعظم اپنی حکومت کے خاتمہ کو قریب دیکھتے ہوئے ملکی مفادات کو بھی داﺅ پر لگانے سے نہیں جھجھکتا۔ قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے متعدد مرتبہ عمران خان کو دورہ کی دعوت دی مگر کپتان کو علم الاعداد کی روشنی میںبتایا گیا تھا کہ اپنے بچوں سے برطانیہ میں ملاقات سے اس کی حکومت کو خطرہ ہو سکتا ہے، ایسا ضعیف الاعتقاد شخص آزاد خارجہ پالیسی بنا سکتا ہے۔

اپنے ملک کے شہری احتجاج کریں اور اپنے پیاروں کے جنازے سڑک پہ رکھ کر احتجاج کریں تو ہزارہ برادری والوں کو کہا جاتا ہے کہ کپتان کسی سے بلیک میل نہیں ہوتا مگر جیسے ہی بات اپنی حکومت کے خاتمہ پر آتی ہے تو پرویز الہٰی کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے پر بلیک میل ہو جاتے ہیں، ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کو اہلیہ سمیت بلا کر وزیر اعظم ہاﺅس میں ملاقات کر لی جاتی ہے۔ جن منحرف ارکان اسمبلی کو گالیاں دیں ان سے ہی کہا جاتا ہے واپس آ جاﺅ کچھ نہیں کہا جائے گا، میں تمہارا باپ ہوں۔ مگر وہ اولاد اپنے باپ کو بد چلنی پر عاق کر کے چلی جاتی ہے تو اس کا غصہ اپنے ملک کے مقتدر اداروں پر نکالنا شروع کر دیا جاتا ہے۔ فوج کے سربراہ پر براہ راست اس بات پر تنقید کی جاتی ہے کہ انہوں نے سیاسی معاملات میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ سنا دیا؟۔ عدالتوں کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے کہ انہوں نے آئین اور قانون کی بالا دستی کے لیے فیصلہ کیوں دیا؟۔ سڑکوں پر آرمی چیف اور فوج کے اداروں کے خلاف نعرے لگانے والے کیا بتا سکتے ہیں کہ اگر عمران خان کی حکومت گرانے کی سازش امریکا نے رچائی تھی تو گالیاں فوج اور آرمی چیف کو کیوں دی جا رہی ہیں؟۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکومت گرتے ہی سوشل میڈیا پر پہلے راہول گاندھی کی جعلی ٹویٹ پوسٹ کی، پھر پاکستانی علاقوں میں ڈرون حملہ سے سات شہریوں کی ہلاکت کی جعلی خبر چلائی، یہ خبر چلوائی کہ تارکین وطن نے روشن پاکستان اکاﺅنٹ سے رقوم نکلوا لیں، اپنے احتجاج کی فوٹو شاپڈ تصاویر کی بنیاد پر بیرونی سازش کا کیس پیش کیا گیا مگر ان تمام جعلی خبروں کی تردید کے بعد بھی اگر پی ٹی آئی کے معصوم کارکن کپتان کے عزائم نہیں جان پائے تو پھر یقین مانیں کہ نازی پراپیگنڈا کا ماہر جوزف گوئبلز کامیاب ہو گیا اور عمران خان دراصل اسی نازی پراپیگنڈا کے ماہر بن چکے ہیں بلکہ یوں کہنا مناسب ہو گا کہ عمران نیازی اب جوزف گوئبلز نیازی بن چکا ہے۔ اللہ پاک ہمارے دیس پر، اس کے رکھوالوں پر اپنا خصوصی کرم فرمائے اور اس پراپیگنڈا کے شر سے محفوظ رکھے، آمین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے