سیاسی قلابازیاں

قارئین گزشتہ دنوں ایک چلتی پھرتی حکومت کو گھر بھجواکر ہم نے ایک مرتبہ پھر ثابت کردیا کہ جمہوریت کا راگ دکھانے کا اور ہےاور لاگو کرنے کیلئے کچھ اور۔72 سال سے ہم اپنی روایات پر بھرپور شدومد کے ساتھ قائم ودائم ہیں کہ کسی بھی جمہوری حکومت کو مدت مکمل نہیں کرنے دینی۔ اس کیلئے پھر خواہ کسی بھی قانون، شخصیت یا طرز عمل کی نفی یا دھجیاں بکھیرنی پڑیں ہم وہ چاروناچار کر ہی لیتے ہیں، بلکہ یوں کہیئے کہ کبھی ہم کرلیتے ہیں کبھی ہم سے کروالیاجاتا ہے۔حال ہی میں کچھ اسی قسم کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی چلی گئیں اور بالآخر ہمارے اپنے خان صاحب بھی حکومتی داغ مفارقت دے ہی گئے۔

3 اپریل سے 11اپریل تک عوام نے سیاسی مداریوں کی بھرپور ڈرامائی قلابازیاں ملاحظہ کیں۔ آدھی آدھی رات کو قوانین پر عملدرآمد کی کوششیں دیکھیں اور اسی بھاگم دوڑ میں مختلف کرداروں کے سانس بھی پھولتے پائے گئے۔خیر جو ہونا تھا وہ ہی گیا۔ حکومت ِ وقت گھر چلی گئی اور نئی حکومت کی صبح ببانگ دہل نعروں اور دعوں میں طلوع ہوئی۔جناب شہباز شریف صاحب نے تو وزیراعظم بنتے ہی امیدوں کے ایسے پل باندھے کہ غریب بےچارہ تو خوشی سے ویسے ہی بھوک بھول گیا ہوگا۔ تنخواہ بڑھا دی گئی، پنشن بڑھا دی گئی، طلباء کو لیپ ٹاپ دینے کی ایک اور امید بھی جگا دی گئی۔اللہ اللہ کر کے ان قسموں وعدوں میں حلف برداری بھی ہوگئی اور پاکستان کو 23واں وزیراعظم مل ہی گیا۔

حکومتِ نو نے اتنے بڑے بڑے دعوے تو کردیئے مگر ان کی پلاننگ اور فزیبلٹی کا تو شاید اندازہ ہی نہ کیا۔ چنانچہ 2 دن بعد جناب ایک حکومتی عہدیدار فرمانے لگے کہ نہ تنخواہ بڑے گی نہ پنشن۔ جو ہوگا اب بجٹ کے بعد ہی ہوگا۔ اس طرح غربت میں پسے غریب کو ملنے والی جھوٹی خوشی بھی پامال سی ہوگئی۔ مگر یہیں پر بس نہ ہوئی۔ ابھی امیدوں کا جنازہ صحن میں ہی تھا کہ پٹرول بم کی افواہ گردش میں آگئی۔ گزشتہ حکومت نے جون تک پٹرول کی قیمت نہ بڑھانے کا فیصلہ صادر کیا تھا جس پر حکومت وقت کے ایک صاحب نے فتوی صادر فرمایا کہ یہ فیصلہ ہی غلط تھا اور پٹرول کی قیمت بڑھالینی چاہئیے تھی۔

کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ کیونکہ موجودہ حکومت کو الیکشن کے بعد دوبارہ آنے کا امکان دور دور تک نظر نہیں آرہا اس لئے اپنے آخری ایام میں حکومتی خزانے کو سبسڈی کے نام پر از بس خالی کرنے کا اعادہ کیا ہوا ہے۔ اسی لئے ہر اس پراجیکٹ کی خبر گردش میں ہے جس میں حکومتی پیسہ بطور سبسڈی شامل ہوسکے گا۔تا کہ خالی خزانہ بھی آئیندہ آنے والی حکومت کے سردردی ہی بنے ۔

الغرض ایک سیاسی الجھن کا شکار ہیں ہر دو گروہ۔خدا کرے کہ یہ الجھنیں سلجھنون میں بدل جاویں اور سیاسی انتشار کی جگہ امن کا دور دورہ ہو۔سنا ہے امریکہ والوں کو بھی پتہ لگ گیا ہے کہ نو مور سے ڈو مور کا زمانہ پھر سے لوٹ آیا ہے۔ آج ہندوستان اور امریکہ نے مل کر پاکستان سے ایک مطالبہ بھی کرڈالا کہ پٹھان کوٹ واقعہ کی تحقیقات کروائی جائیں۔اور پاکستان اپنی زمین استعمال نہ ہونے دے۔ یہ سب کچھ اچانک سے منظر عام پر آنا کیا محض اتفاق ہے یا واقعة َ کسی سکرپٹ رائٹر کی کہانی پر عمل ہورہا ہے۔یہ تو وقت ہی بتلائے گا۔ مگر المیہ یہ ہے کہ وقت ہمیں ہمیشہ بتلاتا ہی ہے سکھاتا کچھ نہیں۔ ہندوستان کے نمائندہ سے جب روسی تیل سے متعلق بات کی گئی تو اس نے واشگاف کہا کہ یورپ سب سے بڑا ڈیلر ہے پہلے اس کے پر تولو بعد میں ادھر آنا۔ کیا یہ بیانیہ ہم یا ہمارے بزرگان کبھی کہہ سکتے ہیں؟ کیا جانے والے خان صاحب کے نقش قدم پر چلنا بہتر رہے گا یا آنے والے میاں صاحب اپنے نئے قدموں کے نشان پیوست کرنا پسند کریں گے۔یہ بھی وقت ہی بتلائے گا۔مگر اے کاش کہ اس وقت وقت کی دوڑ میں کہیں ہم فیصلوں میں دیر نہ کردیں اور پھر بھاری قیمتیں چکانی پڑیں۔ انگریزی بھی کیاخوب محاورے دے گئی ہے۔ کہتے ہیں A Stitch in time , saves nine/خدا کرے اس ایک بروقت ٹانکے سے باقی کپڑہ ادھڑنے سے بچ جاوے اور یہ ایک ٹانکہ جلد ہی لگ بھی جاوے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے