پرامن معاشرے کی تشکیل میں مذہبی قائدین اور کمیونٹی لیڈرز کا کردار

[pullquote]معاشرہ کی تعریف:[/pullquote]

معاشرہ ان مخلوقات کا ایک گروہ ہے جو ایک منظم انداز میں رہتے ہیں ۔ یہ لفظ لاطینی معاشروں سے آیا ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ "دوسروں کے ساتھ دوستانہ وابستگی”۔

معاشرے کا تصور ایک منظم یا منظم انداز میں افراد کی بقائے باہمی اور مشترکہ سرگرمی کو مانتاہے اور اس سے مواصلت اور تعاون کی ایک خاص حد دریافت ہوتی ہے۔

[pullquote]معاشرے کی اہمیت:[/pullquote]

انسان ایک سماجی جاندار ہے۔ اسے دوسروں کے ساتھ منسلک زندگی گزارنے کی فطری خواہش ہے۔ انسان کو اپنی بقا کے لیے معاشرے کی ضرورت ہے۔بچےاپنی بقا اور نشوونما کے لیے اپنے والدین پر انحصار کرتے ہیں ۔معاشرے کا حتمی مقصد اپنے افراد کے لیے اچھی اور خوشگوار زندگی کو فروغ دینا ہے۔ یہ انفرادی شخصیت کی ہمہ گیر ترقی کے لیے حالات اور مواقع پیدا کرتا ہے۔ معاشرہ تنازعات اور تناؤ کے باوجود افراد کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون کو یقینی بناتا ہے۔

[pullquote]امن و امان کی اہمیت:[/pullquote]

کسی بھی معاشرے کی حیثیت اس وقت اہمیت اختیار کرجاتی جب وہ معاشرہ پر امن ہو اور امن عامہ معاشرہ کی بنیادی ضرورت اور ترقی کا ضامن کہلاتا ہے،معاشرہ انتشار اور افتراق کا شکار ہوجائے تو سب سے پہلے ترقی کا پہیہ رک جاتا ہے۔اور فساد کا ابھرنا لازمی ہوجاتا ہے۔ جس معاشرہ میں امن کی صورتحال خراب رہتی ہے اس کی پہلی ضرب انسانی جان پر پڑتی ہے۔ اور ایسے معاشروں میں انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی .

[pullquote]مذہبی قائدین کا معاشرتی کردار :[/pullquote]

مذہبی رہنما اور مذہبی کمیونٹیز دنیا کے بڑے اور بہترین منظم سول ادارے ہیں، جو نسل، طبقے اور قومیت کی تقسیم کو ختم کر سکتےہیں۔ مذہبی رہنما اکثر اپنی برادریوں میں سب سے زیادہ قابل احترام شخصیات ہوتے ہیں۔ راہب ،امام،مفتی ، پادری، پجاری، اور دیگر مذہبی کمیونٹیز کے رہنما، رویوں، آراء اور طرز عمل کی تشکیل میں ایک طاقتور کردار ادا کرتے ہیں ۔ کمیونٹی کے اراکین اور سیاسی رہنما مذہبی رہنماؤں کی بات سنتے ہیں۔ مذہبی رہنماؤں کے پاس شعور بیدار کرنے ،رویوں اور طرز عمل پر اثر انداز ہونے کی طاقت ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ ہمارے نمائندے، سفارت کار اور دیگر مذاہب کے لیے خیر سگالی کے سفیر ہیں۔

ایسے میں مذہبی قائدین کا معاشرے کی فلاح و بہبود کیلئے ان کی ذمہ داری دگنی ہوجاتی ہے ۔ تمام مذاہب و مسالک کے مذہبی قائدین کا فرض بنتا ہے کہ وہ غریبوں اور پسماندہ لوگوں کی مدد ، غربت کا خاتمہ، نوجوانوں میں جرائم اور منشیات کی روک تھام، خاندان کے ادارے کو مضبوط بنانا، گھریلو تشدد کا خاتمہ، ماحول کو آلودگی سے بچانا، جیسی بنیادی ذمہ داریوں کے فروغ میں اپنا کردار ادا کریں۔

[pullquote] عبادت گا ہیں بحیثیت کمیونٹی سینٹر:[/pullquote]

عبادت گاہیں جنہیں عبادت تک محدود کردیا گیا ہے اس کا معاشرے میں بحیثیت کمیونٹی سینٹر اہم کردارہے اور یہی وجہ ہے کہ 632 سے 661 ہجری میں عبادت گاہیں صرف عبادت کیلئے ہی مخصوص نہیں تھیں بلکہ یہ سیاسی، معاشرتی تعلیمی اور تربیتی مراکز بھی ہوا کرتی تھیں۔

علاوہ ازیں رائے عامہ معلوم کرنے کا مرکز،عوام کو حکومت و سیاست، دین و عبادت اور نظام معاشرت کے طور طریقے اور نشیب و فراز سے آگاہ کرنا ، جذبہ محبت و اخوت کو فروغ دینا اور درس و تدریس کے نظام کو مضبوط بنانے کا کردار بھی عبادت گاہوں کےحصے میں آتی تھیں۔ آج بھی ضروری ہے کہ عبادت گاہوں کو فرقہ واریت اور اختلافات کا مرکز بنانے کی بجائے ان کا بنیادی کردار قائم کریں اور انہیں امن و امان کے فروغ کے لئیے بھی استعمال کریں۔

[pullquote]مذہبی قائدین بحیثیت سماجی رہنما ،امن عامہ میں ان کا کردار:[/pullquote]

پرامن معاشرے کی تشکیل میں اہم ترین کردار مذہبی قائدین کا ہوتا ہے۔ اختلاف رائے ہماری روایات کاقابل فخر حصہ ہے۔ اختلاف رائے سے ہی بات آگے بڑھتی ہے اور ہمارے ہاں مذہبی قائدین کے اختلاف کو ہمیشہ سے اہمیت دی گئی ہے۔ ایک المیہ یہ بھی ہےکہ مذہبی قائدین اپنی تحریر وتقریر کے ذریعے اپنے پیرو کاروں کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دیتے ہیں کہ و ہی سچے ہیں،باقی سب جھوٹے ہیں اور ا مذہب یا مسلک سے باہر ہیں،اس طرزِ عمل سے معاشرے میں نفرت جنم لیتی ہے۔

اگر امن ہے تو خوشحالی ہے۔ لہذا مذہبی قائدین کا امن کیلئے کردار ادا کرنا نہ صرف ان کی اخلاقی ذمہ داری ہے بلکہ مذہبی ذمہ داری بھی ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ مذہبی قائدین معاشرے میں نسلی، لسانی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات، امتیازات اور تنازعات کے خلاف مل کر آواز اٹھائیں ۔ تاکہ ایک دوسرے کیلئے برداشت کا جذبہ پیدا ہو اور معاشرے میں جومذاہب و مسالک کی تقسیم کی وجہ سے بدامنی کی فضا پیدا ہوتی ہے اس کا سدباب کیا جاسکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے