پرامن بیانیئے کے فروغ میں لکھاریوں کا کردار

ان دنوں ہمارے ملک میں افراتفری انتہائی عروج پر پہنچ چکا ہے اور معاشرہ بھی لوگوں کی ذہنی اور فکری تضادات کا مجموعہ بنا ہواہے جس کی وجہ سے ملک میں امن و امان کی صورت حال بھی ابتر ہے۔ اپنے وطن میں پائے جانے والے یہ تضادات وقتاَ فوقتاَ مختلف مقامات پرتصادم اور فسادات کی صورت میں ابھرکرسامنے بھی آجاتے ہیں، اس صورتحال میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ان تضادات کا ذمہ دار کون ہے؟ اور ان تضادات کو دور کرنے کی کوشش کیوں نہیں ہوئی؟ معاشرے میں پائی جانے والی ان متضاد رویوں کے مابین ہم آہنگی کون پیدا کرے گا؟

ان تینوں سوالوں کا جواب ایک ہی ہے، ان خرابیوں کا ذمہ دار غیر پیشہ ورانہ صحافت اور بہت حد تک سوشل میڈیا کو ٹھہرایا جاسکتا ہے، معاشرتی خرابیوں کو صحافیوں، دانشوروں، خطیبوں، علمائے کرام نے نظراندازکرنے کا رویہ اختیار کیا، معاشرے میں پائی جانے والی متضاد رویوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی ذمہ داری بھی انہی پر عائد ہوتی ہے۔

آج کے معاشرے میں لوگوں کے مابین ذہنی تضادات پیدا کرنے اور انہیں ہوا دینے کے ذمہ داروں کو تلاش کیا جائے تو غیر ذمہ دار افراد کا غیر منظم گروہ سوشل میڈیا پر فعال نظر آئے گا، آج کے دور میں سوشل میڈیا ایک غیر ذمہ دار پلیٹ فارم کی شکل میں ابھر کر سامنے آچکاہے جس پر غیر مستند باتیں سنی اورسنائی جاتی ہیں اور ڈرامہ کی صورت میں دکھائی بھی جاتی ہیں، سوشل میڈیا پر عام لوگ بظاہر مثبت مگر اپنے منفی خیالات پر مبنی مواد معاشرے پر اس کے مضر اثرات کو جانے بوجھے بغیر ذوق شوق سے خود کو نمایاں رکھنے کے لیے مسلسل ڈالتے رہتے ہیں جو سینہ بہ سینہ ایک سے دوسرے اور تیسرے تک پہنچتا رہتا ہے اور مسلسل طویل عرصے تک سوشل میڈیا پر گردش بھی کرتا رہتا ہے سوشل میڈیا پر ایکٹیویسٹ اس مکالمے میں روکنے والے کی مثبت گفتگو کو منفی پیرائے میں پیش کرکے معاشرتی بگاڑ پیداکرنے کی کوشش کرتے ہوئے فعال دکھائی دیتے ہیں، اس وقت دنیا بھر میں سوشل میڈیا کا یہی حال ہے، ان دنوں سوشل میڈیا اخبارات، رسائل جرائد اور الیکٹرانک میڈیا کے متبادل کے طور ر ایک مضبوط میڈیاکے طور پوری قوت کے ساتھ سامنے آچکا ہے، سوشل میڈیا پر جہاں اچھے خیالات، نظریات اور سبق آموز واقعات سامنے آتے ہیں وہاں ایسے خیالات بھی دیکھنے سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں جو مدلل بھی ہوتے ہیں مگر معاشرے پر بھر پور طریقے سے دور رس منفی اثر ات مرتب کرتے ہیں اورامن و امان کی صورت حال کو بھی خراب کرتے ہیں، کئی ملکوں میں سوشل میڈیا سیاسی انقلاب اور حکومت کی تبدیلی کا ذریعہ بھی بنا ہے، سوشل میڈیاکے توسط سے ہمیں روزانہ سینکڑوں مختصر پیغامات آڈیوز، یڈیوزیا تحریر کی شکل میں موصول ہوتے ہیں ان میں سے بیشتر مواد جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں جسے ہم سچ مان لیتے ہیں، یہ مواد چاہے تحریر کی شکل میں ہو ںیا ویڈیو کلپس ہو ں اکثر اقات اخبارات اور ٹی وی چینلز کی زینت بھی بن جاتے ہیں اور میٹھے زہر کی مانند معاشرتی بگاڑ کاسبب بنتے رہتے ہیں۔

ایسے میں یہ سوال بھی اُٹھتا ہے کہ معاشرے میں پائی جانے والی بگاڑ کو دور کرنے اور امن و امان کو فروغ دینے کا فریضہ کون انجام دے گا،؟ایسے میں اخبارات اور ٹی وی چینلز کی ضرورت اور اہمیت بھی بڑھ گئی ہے جہا ں مستند اور تربیت یافتہ صحافیوں، دانشوروں، مذہبی رہنماوں، اینکرپرسنز ا کی ٹیم موجود ہوتی ہے اور خبروں، اداریوں، مضامین، مکالمے اور ٹاک شوز کے ذریعے معاشرے میں بگاڑ کو روکنے کی کوششوں میں مصروف عمل رہتے ہیں، سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور ویب سائیٹس سے منسلک صحافیوں، دانشوروں، اینکر پرسنز، بلاگرز، مذہبی رہنماوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دینے کے لیے ایک ٹیم یا انجمن کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔

اگر آپ صحافی ہیں اور اخبارات سے منسلک ہیں، اینکر ہیں اور کسی چینلز سے وابستہ ہوکر رائے عامہ کو ہموار کرنے میں مصروف عمل ہیں بلاگر ہیں اور سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کی جلوہ آرائی کررہے ہیں یا ، علمائے دین ہیں ا ور اپنے اپنے دین کے فروغ اور تحفظ کے لیے برسرپیکار ہیں تو سب کو مل کر ملک کی سلامتی و بقاءکے لیے، معاشرے میں امن و امان کے لیے آنے والی نسلوں کی خوشحالی کے لیے مل جل کر کردار اداکرنا ہوگا اور آپس میں بین المذاہب اور بین المسالک ہم آہنگی کو فروغ دیتے ہوئے اپنے وطن میں پرامن اور خوشحال معاشرہ کو تشکیل دینے کی ذمہ داری قبول کرنا ہوگی اور اپنے اپنے پلیٹ فارم سے بین المذاہب اور بین المسالک ہم آہنگی کے اصول کو اپناتے ہوئے اپنا کردار دا کرناہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے