اوکاڑہ :مدرسے کے طالب علم نے 35 سالہ احمدی نوجوان کو تیز دھار آلے سے قتل کر دیا

پنجاب کے ضلع اوکاڑہ میں جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کو تیز دھار آلے کے وار کرکے قتل کر دیا گیا ہے ۔ مقتول کے ورثا نے الزام لگایا ہے کہ عبدالسلام کو مذہبی منافرت کی بنا پر قتل کیا گیا۔تھانہ چوچک پولیس نے مقامی دینی مدرسے سے ایک روز قبل فارغ التحصیل ہونے والے نوجوان علی رضا کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرلیا ہے ۔ایف آئی آر میں مدرسے کے انچارج کو بھی اعانت جرم کا ملزم قرار دیتے ہوئے کہا گیا گیا ہے کہ مہتمم محمد امین کی جنونی اور اشتعال انگیز تقاریر سے متاثر ہو کر ملزم نے احمدی نوجوان کو قتل کیا۔

[pullquote]واقعہ کس طرح پیش آیا؟[/pullquote]

پولیس کے مطابق منگل کی شام ساڑھے پانچ بجے زمیندار عبدالسلام اپنے کھیتوں سے واپس آ رہے تھے کہ ایک گلی میں مخالف سمت سے آنے والے نوجوان علی رضا نے ان پر چھرے سے وار کرنا شروع کر دیے۔حملہ اتنا شدید تھا کہ نوجوان کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا اور وہ موقع پر ہلاک ہو گیا اور حملہ آور فرار ہو گیا۔مقتول عبدالسلام ضلع اوکاڑہ کی تحصیل رینالہ خورد کے گاؤں ایل پلاٹ فوجیوں والا کے رہائشی تھے جہاں کی آبادی لگ بھگ آٹھ ہزار ہے۔مقتول کے ماموں ظفر اقبال کی مدعیت میں درج کرائے گئے مقدمے میں الزام لگایا گیا ہے کہ علی رضا عرف ملازم حسین مذہبی جنونی آدمی ہے جو مقامی مدرسے سے ایک روز قبل فارغ ہوا تھا۔ظفر اقبال کے بقول 12 ربیع الاول کو نکالے گئے جلوس کے دوران بھی احمدی برادری کے گھروں کے سامنے اشتعال انگیز نعرے بازی کی گئی جس کی وجہ سے احمدی کمیونٹی میں خوف و ہراس بڑھ گیا تھا۔

[pullquote]جماعتِ احمدیہ کا مؤقف[/pullquote]

جماعتِ احمدیہ پاکستان کے ترجمان سلیم الدین کا کہنا ہے کہ عبدالسلام کو مذہبی انتہا پسند شخص نے عقیدے کے اختلاف پر قتل کیا ہے ۔اُن کا کہنا تھا کہ مقتول عبدالسلام کی عمر 35 سال تھی ، وہ خدمت خلق کرنے والے ہمدرد انسان تھے۔ ان کی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں تھی۔مقتول کے پسماندگان میں والدین، اہلیہ، دو بیٹے اور ایک کم سن بیٹی شامل ہیں۔احمدی کمیونٹی کا یہ مؤقف رہا ہے کہ حکومت اُنہیں تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے.حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بسنے والی تمام اقلیتوں کو مساوی حقوق اور تحفظ حاصل ہیں۔ لہذٰا مذہب کے نام پر کسی کی جان لینے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔

[pullquote]اصل واقعہ کیسے پیش آیا ؟[/pullquote]

عبدالسلام کے تین بچے تھے جن میں چھوٹی بیٹی کی عمر ڈیڑھ سال ہے. 35 برس کے عبدالسلام نے اپنے گھر کے سامنے اپنے تین برس کے بیٹے کو اٹھایا ہوا تھا اور ان کا دوسرا پانچ سال کا بیٹا ان کی انگلی تھامے کھڑا تھا کہ اچانک ان پر حملہ ہوا۔ تیز دھار آلے کے پے درپے وار ہونے کے بعد عبدالسلام گود میں اٹھائے اپنے چھوٹے بیٹے سمیت زمین پر گر پڑے۔اسی حملے کے دوران ایک چھرے کا ایک وار اُن کے پانچ سال کے بیٹے کی پنڈلی پر بھی جا لگا جس سے وہ بھی زخمی ہو گیا۔یہ حملہ اس قدر شدید تھا کہ عبدالسلام کی آنتیں باہر نکل آئیں اور ان کے گردے بھی متاثر ہوئے جس سے موقع پر ہی ان کی موت واقع ہو گئی۔یہ تفصیلات گذشتہ روز کی شام پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر اوکاڑہ میں قتل ہونے والے عبدالسلام کے ماموں ظفر اقبال نے بی بی سی اردو کو بتائیں۔ظفر اقبال کے مطابق عبدالسلام زمیندار تھے اور اُن کی سات برس قبل شادی ہوئی تھی۔ ظفر اقبال کے مطابق عبدالسلام کے تین بچے ہیں اور ان کی سب سے چھوٹی بیٹی کی عمر فقط ڈیڑھ برس ہے جو ابھی اس حادثے کی سنگینی سے لاعلم ہے اور اپنے مقتول باپ کی میت کی موجودگی میں گھر کے صحن میں اپنے کھیل کود میں مصروف ہے۔ظفر اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ جس علاقے میں وہ رہ رہے ہیں یہاں پر ان کی کمیونٹی کے پانچ سے چھ گھر ہیں اور ان کے خلاف طویل عرصے سے مذہبی منافرت پھیلائی جا رہی تھی اور انھیں سنگین نتائج کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ظفر اقبال کے مطابق ملزم کا تعلق ایک مذہبی سیاسی جماعت سے ہے جس کے کارکنوں نے 12 ربیع الاول کو ان کے علاقے میں ایک بڑا جلوس نکالا تھا۔ ظفر نے بتایا جب یہ جلوس ان کے گھروں کے قریب پہنچا تو صورتحال اس وقت کشیدہ ہوگئی جب انھوں نے احمدی کمیونٹی کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔

[pullquote]مقتول عبدالسلام کے ماموں پر بھی قاتلانہ حملہ ہوا [/pullquote]

مقتول عبدالسلام کے ماموں نے بتایا کہ پولیس نے اس وقت صورتحال کو سنبھال لیا جس سے ان کے گھر بچ گئے۔ظفر اقبال کے مطابق خود ان پر بھی ایک جان لیوا حملہ ہو چکا ہے، جس میں وہ اگرچہ بچنے میں کامیاب ہوئے مگر اس کے بعد انھیں جیل بھی جانا پڑا۔ ان کے مطابق اب تو ایسا لگتا ہے کے ہم سے جینے کا بھی حق چھین لیا گیا ہے۔ ہم بے یارومددگا ہو گئے ہیں۔ظفر اقبال نے بتایا کہ ان کا مقتول بھانجا بہت اعلیٰ اخلاق کا مالک تھا۔ ان کے مطابق وہ ہر کسی کا ہمدرد اور دوست تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے قتل کا سُن کر بڑی تعداد میں لوگ ان کے گھر آئے اور ملزم سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ان کے مطابق اس آگ پر پانی بجھانے کا یہی اچھا طریقہ ہو سکتا تھا کہ مقامی لوگ جرم کی پشت پناہی نہ کریں اور قاتلوں کو قرار واقعی سزا مل سکے۔

[pullquote]ایف آئی آر میں کیا بتایا گیا؟[/pullquote]

اوکاڑہ پولیس نے عبدالسلام کے قتل کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ یہ مقدمہ مقتول کے ماموں ظفر اقبال کی مدعیت میں ہی درج کیا گیا ہے، جنھوں نے پولیس کو بتایا کہ ان کے بھانجے کو مذہبی منافرت کی بنیاد پر ایک جنونی ملزم نے قتل کیا۔
ایف آئی آر کے مطابق ظفر اقبال نے پولیس کو وجہ عناد بتاتے ہوئے کہا چونکہ ان کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہونے کی وجہ سے مقامی مدرسے سے ایک روز قبل فارغ التحصیل ہونے والے ملزم حافظ علی رضا نے چھروں کے وار کر کے عبدالسلام کو قتل کیا۔ظفر اقبال نے پولیس کو بتایا کہ مذہبی منافرت کی بنا پر ان کے بھانجے کا قتل ناحق کیا گیا ہے۔ درخواست گزار کے مطابق ملزم نے چھرے سے ان پر متعدد وار کیے، جس سے ان کی موت واقع ہو گئی۔ان کے مطابق ملزم موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ پولیس نے بعد میں عبدالسلام کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم کی گرفتاری کا بھی دعویٰ کیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے