Democracy is the best revenge

اپنے ملک پاکستان کی تمام صورتحال کو دیکھ کے سوچتا ہوں۔تو ہر طرف افسردگی سی چھا جاتی ہےکہ آخر ہم کیا چاہتے ہیں۔کس منزل کی جانب ہم سب رواں دواں ہیں۔اور بنیادی سوال تو یہ ہے کہ اس منزل تک پہنچ کے کیا ہم کامیاب ہوجائیں گئے؟کیا اس طرح وطن عزیز کو ہم سیاسی،معاشی اور اقصادی لحاظ سے مضبوط کر پائیں گئے۔لیکن یہ راستہ تو بظاہر اس منزل کی طرف جاتا نظر آتا ہے۔جس سے وطن عزیز سیاسی،معاشی اور اقتصادی طور پر کمزور ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ویسے تو جمہوریت کسی بھی ملک کا حسن سمجھا جاتا لیکن ہمارا ہاں ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔

اس وقت ہمارے سیاستدانوں نے وطن عزیز کا دنیا کے سامنےجو امیج بنا رکھا  ہے۔وہ کسی سے کوئی ڈھکا چھپا نہیں،کشکول جو ہمارا ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہا اور سود کی تو ایسے جیسے ہمیں لت سی لگ گئی ہے۔کچھ لوگ تو اس پر بضد ہے کہ ملک کو سود کے بغیر چلانا نہ ممکن ہے۔

عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد ملک میں ایک سیاسی بے یقینی سی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ جس طرح پی ٹی آئی نے بیرونی مداخلت کا ذکر کیا ہے۔تو پھرظاہر سی بات ہے اگر ملک کے اندرونی معمالات میں بیرونی مداخلت ہوگی،توحالات پھر اسی طرح کے ہی پیدا ہونگے۔جس کا سامنا اس وقت  پاکستان کررہا ہے۔

سابق وزیراعظم  عمران خان نے جب اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی کال دی۔تو حکومت کی طرف سے،کیسے گھروں کی چار دیواری اور عورتوں کی عزتوں کو پامال کیا گیا۔اس پاکستان کا خواب دیکھنے،اورملک کو آزاد کروانے میں اہم کردار ادا کرنے والے علامہ محمد اقبال کا گھر بھی ان لوگوں سے محفوظ نہ رہے پایا۔پورے ملک کو جام کیا گیا۔معصوم بچوں اور عورتوں پر آنسو گیس کے جس طرح شیل برسائے گئے،اور جس طرح انتقامی سیاست کا چہرہ کھل کر سامنے آیا،وہ کسی شرمندگی سے کم نہیں ہے۔

عدم اعتماد کے بعد گاوں،شہروں میں زیادہ تر لوگوں کا یہی خیال ہے کہ ان تمام اتحادی جماعتوں نے مل کر عمران خان کو اقتدار سے ہٹایا ہے۔جو عمران خان سے سراسر ذیاتی ہے۔اور دوسری طرف ایک طبقہ وہ بھی ہے۔ جو خوش ہے کہ عمران خان کو نکال دیا۔ان کا خیال ہے کہ ملک کے تمام مسائل اور آسمان کو چھونے والی مہنگائی کا ذمہ دار سابق وزیراعظم عمران خان تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کووڈ19 کی وجہ سے بھی تمام دنیا کی معشیت کا پہیہ ایک دم بیٹھ سا گیا تھاجس کی وجہ سے عالمی مہنگائی ہونے کی وجہ سے وطن عزیز کو بھی مہنگائی سمیت مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

اب آنے والی موجودہ حکومت سے بھی حالات کنٹرول سے باہر نظر آرہے ہیں۔مہنگائی کا جن کسی سے بھی قابو نہیں ہو پا رہا،پٹرول گزشتہ دنوں میں 60 روپے لیٹر مہنگا ہوکے210 روپے لیٹر تک جا پہنچا ہے۔ڈیزل کو بھی ایسے پر لگے ہیں کہ کسان بیچارہ پریشان دکھائی دیتا ہے۔کھاد کسان کو پیسوں سے بھی نہیں مل رہی،اگر ملتی ہے تو قیمت ہاتھ نہیں لگانے دے رہی۔گھی،چینی سمیت ضرورت کی ہر چیز غریب آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہے۔

اب اگر لوڈشیڈنگ کی بات کرے تو اس گرمی میں گھنٹوں کے حساب سے لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔اور اگر دیہات کی بات کریں،تو وہاں تو اکا ہی بجلی کو لوگ ترس ترس کے مر رہے ہیں۔گزشتہ دنوں سب دوست اکھٹے کھانا کھارہے تھے کہ لائٹ چلی گئی،ایک دوست کہنے لگا کہ اس سے بہتر یہی تھا کہ اس حکومت کو جن لوگوں نے ہم پر مسلط کیا ہے۔وہ خود ہی قابض ہوجاتے تو شاید ہم بھی کوئی سکھ کا سانس لے پاتے۔

اب بنیادی سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے سابق  حکومت کو اس لیے اقتدار سے ہٹایا،کہ غریب مررہا ہے۔اس وقت یہی نعرے لگائے گئے،اس کے علاوہ کراچی سے لاہور اور لاہور سے اسلام آباد تک،مہنگائی مکاو مارچ نکالے گئے۔اپوزیشن میں مفتاح اسماعیل سمیت کئی افلاطون معشیت کو ٹھیک کرنے اور پٹرول سو روپے کرنے کے مشورے دیتے تھے۔تو آج اپنی مجبوریاں پیش کرتے ہیں۔آج سب کہتے ہیں کہ حالات بہت ٹف ہیں۔سیدھی سی بات ہے کہ اگر آپ سب افلاطونوں کو سب پتا تھا تو اس کھوہ میں کودنے کی کیا ضرورت تھی۔

خاکسار نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی کہا تھا کہ جس طرح وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی پہلی تقریر میں وعدے کیے،پھر بعد میں ان میں ترمیم کرنا پڑی،شروع میں تو شہباز شریف نے اوگرا کی طرف سے بھجوائی جانے والی سمری مسترد کردی تھی۔لیکن بعد میں انھیں سمریوں پر دستخط کرکے غریب عوام سے روٹی کا نوالہ تک چھین لیا گیا ہے۔لیکن آخر پہ بس یہی کہنا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔

 

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے