عالمی تناظر میں بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام کی اہمیت و افادیت

2017 میں، چینی صدر شی جن پنگ نے چین کی کمیونسٹ پارٹی (CPC) کی 19ویں قومی کانگریس کے اجلاس میں بنی نوع انسان کے لیے مشترکہ مستقبل کے حوالے سے ایک کمیونٹی کی تعمیر کے لیے اپنے وژن کی تجویز پیش کی۔ اس امر نے چین کے تمام بین الاقوامی اقدامات بشمول بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کو عالمی تناظر میں بھر پور انداز میں اجاگر کیا ہے۔
آج، ساڑھے چار سال بعد اور سی پی سی کی 20 ویں قومی کانگریس سے چند ماہ قبل، حاصل کردہ تجربات اور بنی نوع انسان کے مشترکہ مستقبل کے وژن۔ اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو، دونوں کے حصول کے لیے مزید اقدامات پر بات کرنا ایک ناگزیر حقیقت بن چکا ہے –
اس ضرورت کو مناسب بنانے کی دو بنیادی وجوہات ہیں: پہلی سطح پر سرد جنگ کے بعد کے دور کی یک قطبی دنیا کا دور ناقابل واپسی طور پر ختم ہو چکا ہے۔ کشیدگی اور ہنگامہ آرائی کے درمیان ایک نئی کثیر قطبی دنیا ابھر رہی ہے۔ اس کے علاوہ، مستقبل کے عالمی نظام کا ایک تصوراتی فریم ورک، "مشترکہ مستقبل کی دنیا” ایک انتہائی ضروری اور ناگزیر امر بن چکا ہے۔
دوسری سطح پر بین الاقوامی تعاون کے موجودہ نمونوں پر بغور جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آسکتی ہے کہ درکار بلڈنگ بلاکس، جن پر مشترکہ مستقبل کا تصور منحصر ہے پہلے سے موجود ہیں۔ اس پیرائے میں دیکھا جائے تو بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام اس ممکنہ اور مجوزہ بلڈنگ بلاکس میں سے ایک ہے۔
اس پس منظر میں پہلے عالمی نظام پر ایک نظر ڈالی جائے تو یوکرین کے بحران نے عالمی نظام کی کمزوری اور اہمیت دونوں کو آشکار کر دیا ہے۔ یوکرین کا مسئلہ 2014 سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر تھا۔ 2015 میں کونسل نے دوسرے منسک معاہدے کی توثیق کی جس نے مشرقی یوکرین کی صورت حال کے پرامن حل کے لیے ایک فریم ورک فراہم کیا۔ تاہم سلامتی کونسل اس معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے میں ناکام رہی۔ اس کے بجائے، ایک ایڈہاک علاقائی میکانزم – "نارمنڈی فارمیٹ” جس میں علاقائی طاقتوں اور یوکرین شامل تھے، اس فریم ورک کو مذاکرات کے لیے بنیادی فریم ورک کے طور پر قبول کر لیا گیا۔ تاہم، یہ طریقہ کار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی زیادہ فعال مصروفیت میں بھی رکاوٹ تھا۔ اس طرح سے جہاں ایک طرف "نارمنڈی فارمیٹ” ناکام ہوا ہے وہیں اسکی ناکامی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھی ناکام بنا دیا ہے۔
اس تجربے سے جو سبق سیکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ امن و سلامتی کے مسائل سے نمٹنے میں اقوام متحدہ کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ ایک اہم سبق ہے جسے بہت سے، لیکن تمام بین الاقوامی عناصر نے نظر انداز نہیں کیا ہے۔ اس سال اپریل میں بواؤ فورم برائے ایشیا میں چینی صدر شی جنپنگ کی طرف سے اعلان کردہ اور چین کے تجویز کردہ اقدام گلوبل سیکیورٹی انڈیکس GSI نے واضح طور پر ظاہر کیا کہ سلامتی کے مسائل کو عالمی سطح پر قبول شدہ اصولوں کے دائرہ کار کے اندر ہی حل کیا جانا چاہیے، جیسے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت۔
یہ اقدامات اقوام متحدہ کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، جو حقیقی معنوں میں واحد عالمی اور عالمگیر ادارہ ہے۔ اقوام متحدہ کے بانی اصول، اس کی رکنیت کی آفاقیت، اس کے پروگرام، فنڈز اور ایجنسیز اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کی منفرد عالمی اجتماعی طاقت، ناگزیر ہیں۔ ہمارے دور کے مسائل کو مؤثر طریقے سے حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ پر موثر انداز میں زور دیا جانا چاہیے۔ آج دنیا کی موجودہ حالات کو دیکھا جائے تو عالمی تعاون کے لیے اشد ضروریات اور مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ کرونا وائرس کی وبا پر قابو پانا سب کے لیے ایک ترجیح ہے۔ اسی وقت دنیا کو گلوبل وارمنگ، زوال پذیر حیاتیاتی تنوع اور آلودگی کے ٹرپل پلینٹری بحران کا سامنا ہے۔ یہ مسائل عالمی سطح پر متفقہ اور متحد ایکشن سے ہی حل ہو سکتے ہیں اور اقوام متحدہ ایسے اقدام کے لیے ناگزیر فورم ہے۔بنی نوع انسان کے مشترکہ مستقبل کے چین کے وژن کے بارے میں بین الاقوامی ڈیبیٹ کی دوسری وجہ بین الاقوامی تعاون کے موجودہ کامیاب ماڈلز اور ان کے فراہم کردہ نئے مواقع میں دیکھی جا سکتی ہے۔
بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو ایک اہم مثال ہے۔ اس کی اب تک کی پیشرفت پہلے سے ہی اہم تجربات کے ساتھ ساتھ مستقبل کے مواقع بھی پیش کرتی ہے۔ اب تک، اس کے نفاذ سے بڑھتی مقبولیت اور فعالیت پر مبنی منصوبوں اور بنیادی ڈھانچے کی بہتری کی اہمیت کو ظاہر کیا گیا ہے جو مضبوط تجارتی بہاؤ کو یقینی اور موثر بناتا ہے۔
اس کے علاوہ، اس نے ظاہر کیا ہے کہ BRI کا مستقبل دیگر شعبوں جیسے کہ صحت،گرین انرجی اور ڈیجیٹل سلک روڈز تک انفراسٹرکچر کو وسعت دے سکتا ہے۔
اگر ہم افریقہ میں اس کی ترقی کی مثال لیں تو جدید عوامل اور جدید ترین ترقی کے لیے بہت زیادہ گنجائش اور جگہیں ہیں۔ تقریباً تمام افریقی ممالک، اب تک 50 سے زیادہ، بی آر آئی تعاون میں مصروف ہیں۔ تعاون میں اقتصادی سرگرمیوں کی ایک پوری رینج شامل ہے، جیسے بنیادی ڈھانچے کی ترقی، نئی ٹیلی کمیونیکیشن، اضافی مینوفیکچرنگ انڈسٹریز اور بینکنگ۔ مستقبل میں اقتصادی تعاون کے تمام شعبوں میں بہت زیادہ امکانات ہیں۔
افریقی ممالک کی ترقی کی ترجیحات فیصلہ کن ہوں گی۔ یہ حوصلہ افزا ہے کہ افریقی ممالک افریقی یونین اور افریقی کانٹینینٹل فری ٹریڈ ایریا (AfCFTA) جیسے نئے انتظامات کے ذریعے اپنے باہمی تعاون کو مزید موثر اور مضبوط کر رہے ہیں۔
مزید برآں، افریقی ممالک پہلے ہی متعدد شراکت داروں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ یورپی یونین، جو روایتی طور پر افریقہ کا ایک بڑا شراکت دار ہے، کے افریقہ کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ تعاون کی نئی شکلیں مستقبل میں تیزی سے متعلقہ عوامل کیساتھ فروغ پائیں گی۔ افریقی ممالک کی ترجیحات اور ترقی کی ضروریات کی بنیاد پر چینی اور یورپی نقطہ نظر کا آپس میں ملنا فطری ہوگا۔
بین الاقوامی تعاون کی ابھرتی ہوئی حقیقتیں – دونوں عالمی اور خطے کے لحاظ سے – دنیا کے مشترکہ مستقبل کے وژن کے حصول کی موثر اور فعال وضاحت کریں گی۔ کوئی بھی ملک یکطرفہ طور پر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ یکطرفہ پسندی بہت مختصر ہوتی ہے۔ تعاون اور شراکت داری کے متبادل پہلے سے موجود ہیں، اور ان کا عملی طور پر تجربہ کیا جا رہا ہے جو مسلسل نئے مواقع کھول رہے ہیں۔ بنی نوع انسان کے لیے مشترکہ مستقبل کا چین کا وژن مضبوط ترغیبات کے ساتھ ساتھ قابل قدر عملی تجربہ اور یکساں فواید سب کو فراہم کرتا ہے۔ اور ان کا استعمال سب کے فائدے کے لیے یکساں ہونا چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے