کیا ہم شرمندہ ہو سکتے ہیں؟!

کیا ہم شرمندہ ہو سکتے ہیں؟!

میری جب بھی کسی خاتون (خصوصاََ غیر بلوچ خاتون) سے دوستی یا سلام دعا ہوتی ہے، میں اکثر اولین تحفے میں دوپٹہ یا بلوچی ڈریس بھیجتا ہوں اور ساتھ ہی بلوچ فوک سے اپنی پسندیدہ وہ مشہور کہانی سناتا ہوں جس میں دوران سفر رات کو چار مسافروں کو وقفے وقفے سے جاگنا پڑتا ہے تو مجسمہ ساز ایک لڑکی کا مجسمہ بناتا ہے، بعد میں سنار اس کے لیے زیور بناتا ہے، درزی کپڑے پہناتا ہے اور دوریش کی دعا سے اس میں جان پڑ جاتی ہے، صبح مجسمے کی ملکیت پر چاروں میں جھگڑا ہو جاتا ہے۔ چاروں قاضی کے پاس حاضر ہوتے ہیں۔ قاضی سارا قصہ سن کر تفصیلی فیصلے میں کہتا ہے، مجسمہ ساز نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا، سنار چاہے تو اپنے زیور واپس لے سکتا ہے، درویش کی دعا کا معاملہ ایسے ہے کہ کوئی بیمار معالج کی دوا سے ٹھیک ہو تو وہ اس پر ملکیت کا دعویٰ لے بیٹھے… اور پھر وہ حتمی فیصلہ سناتے ہوئے تاریخی ایک فقرہ کہتا ہے کہ، "عورت اس کی ہوئی جس نے اسے کپڑے پہنائے…” ��

ہماری فوک اور کلچرل وزڈم کا نچوڑ ہے یہ ایک فقرہ۔

یہ قصہ سہیلیوں کو سنانے کا ایک مقصد جہاں انہیں اپنی فوک اور کلچرل وزڈم سے آگاہی دینا ہوتا ہے وہیں حفظ ماتقدم کے طور پر خود اپنے لیے ایک لکیر کھینچنا بھی ہوتا ہے، یوں مجھے ان سے متعلق کبھی کوئی اوچھا خیال سوجھے تو بلوچی چادر اور لباس میرے سامنے آ جاتے ہیں۔ مجھے ہمہ وقت یہ خیال دامن گیر رہتا ہے کہ اپنے غیربلوچ احباب کے سامنے میں محض ایک فرد نہیں، اپنے پورے وطن کا ایک تعارف ہوتا ہوں۔ میرا ایک گرا ہوا فقرہ، ایک بری نظر بھی میرے پورے وطن کے دامن پہ داغ لگا سکتی ہے۔ یوں یہ رویہ مجھے اپنے تئیں ہمہ وقت ذمے داری کے احساس تلے رکھتا ہے۔

ڈیرہ غازی خان کے دو نوجوانوں نے ایک امریکن ٹک ٹاکرز سے دوستی رچائی۔ وہ ان کے بھروسے پہ یہاں تک چلی آئی۔ یہ سرائیکی چادر اور بلوچی لباس پہنا کر اسے فروٹ منرو لے گئے اور وہاں ایک ریسٹ ہاؤس میں اس کے کپڑے تار تار کر دیے۔

یہ سن کر مجھ پر جانے کیوں ایک یاسیت ایک ندامت سی طاری ہے۔ اب تک کسی بلوچ تنظیم نے، نہ کسی سرائیکی پرست نے اس پر کسی ندامت کا اظہار کیا ہے، نہ اس واقعے کو اچھالا ہے۔ نوجوان گرفتار کر لیے گئے ہیں، کوئی سزا بھی شاید ہو ہی جائے مگر جو تعارف یہ لڑکی یہاں سے لے کر جائے گی، وہ کتنا تکلیف دہ ہو گا؟ آئندہ جب ہم کہیں گے ہم عورتوں کی عزت کرنے والی عظیم قوم ہیں، تو کیا دنیا ہم پر ہنسے گی نہیں؟ بلوچی دوچ اور سرائیکی اجرک وہ ہمارے منہ پر نہیں دے ماریں گے؟

میں سوچتا ہوں، کاش ایسا ہو کہ ڈیرہ غازی خان سے کوئی وفد ایک ہاتھ میں بلوچی دستار اور دوسرے میں سرائیکی اجرک لے کر نکلے اور اس خاتون کے قدموں میں جا کر رکھ دے کہ عفت مآب خاتون! ہم آپ سے شرمندہ ہیں، ہم اپنے قومی لباس کی بے حرمتی پر شرمندہ ہیں، ہم اپنی سرزمین کی بے توقیری پہ شرمندہ ہیں!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے