افغانستان : تحریک طالبان پاکستان کو منوانے کے لیےدیوبندی مکتب فکر کے علماء کا دورہ "ناکام”

پاکستان سے دیوبندی مکتبہ فکر کے نمائندہ علماء (جن کا تعلق پاکستان میں دیوبندی مدارس کے ایک بڑے دھڑے وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے ہے)کا آٹھ رکنی وفد افغانستان کے دورے پر ہے .وفد میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر مفتی محمد تقی عثمانی ، اشاعت التوحید والسنہ کے امیر مولانا طیب طاہری پنج پیر ی، وفاق المدارس کے جنرل سیکرٹری قاری محمد حنیف جالندھری ، دارالعلوم اکوڑہ خٹک کے شیخ الحدیث مولانا انوار الحق اور مفتی غلام الرحمان بھی شامل ہیں . اطلاعات کے مطابق یہ دورہ ایک ماہ پہلے ہونا تھا تاہم پاکستانی علماء کا مطالبہ تھا افغان طالبان انہیں اس دورے کی دعوت دیں ، دوسرا وفد میں مؤثر شخصیات کو شامل کیا جا سکے اس لیے دورہ تاخیر کا شکار ہوا.

تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات اور رابطوں میں سراج الدین حقانی اہم کردار ادا کر رہے ہیں . تحریک طالبان سے مذاکرات کا آغاز پاک فوج نے شروع کیا . پھر قبائلی علماء ، عمائدین اور سیاسی رہنماؤں کا ایک جرگہ بنایا گیا . اس وقت پاکستانی مدارس کی اہم شخصیات افغانستان میں تحریک طالبان سے مذاکرات میں مصروف ہیں .

افغان حکومت اور میڈیا کی جانب سے وفد کی افغان طالبان کے رہنماؤں سے ملاقاتوں کی تفصیلات جاری کی جارہی ہیں . ان کی کوریج بھی ہو رہی ہے تاہم جس مقصد کے لیےیہ وفد گیا ہے ، اس کے بارے میں کوئی بات چیت نہیں ہو رہی . افغان طالبان کے ایک اہم شخصیت سے جب اس بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ان ملاقاتوں کو بالکل اوپن نہیں کیا جارہا تاکہ مزاکرات کی قدر برقرار رہے .

وفد کی افغانستان میں افغان طالبان کی اہم شخصیات سے ملاقاتیں جاری ہیں تاہم اس وفد کا اصل ہدف تحریک طالبان پاکستان کو پاکستانی آئین کی عملداری اوراسکی اسلامی حیثیت تسلیم کروانا ہے .ٹی ٹی پی کی جانب سے مذاکرات کے لیے ماضی میں اپنے گرفتار رہنماؤں کی رہائی، قبائلی علاقوں سے فوج کی واپسی، آئین پاکستان پر اعتراضات اور فاٹا انضمام کا خاتمہ شامل تھا۔ تحریک طالبان پاکستان کا کہنا ہے کہ برطانوی دور میں بھی قبائلی علاقوں کی آزاد حیثیت تھی اور اس علاقے میں دین اور اسلام سے لوگوں کی وابستگی تھی. بانی پاکستان محمد علی جناح نے بھی قبائلی علاقوں کی آزاد حیثیت تسلیم کی تھی اور وعدہ کیا تھا کہ وہ اس حیثیت کو کبھی متنازعہ نہیں بنائیں گے ، طالبان کاکہنا ہے کہ چند برس پہلے قبائلی علاقوں کو برطانوی قانون کے ماتحت کر دیا گیا ہے جسے وہ تسلیم نہیں کرتے۔

مبینہ طور پر کابل کے ایک بڑے ہوٹل میں ان علماء کے تحریک طالبان پاکستان کے ذمہ داروں کے ساتھ اہم ملاقاتیں ہوئی ہیں تاہم پاکستانی علماء کا وفد انہیں طالبان کے تین بنیادی مطالبات پر انہیں مطمئن نہیں کر سکا . طالبان کہتے ہیں کہ فاٹا کا انضمام ختم کیا جائے .آئین کی بعض شقیں ختم کی جائیں اور ان میں ان کا اضافہ شامل کیا جائے اور طالبان کو اسلحے کے ساتھ آنے کی اجازت دی جائے . ذرائع کے مطابق مذکرات کے دو دور ہو چکے ہیں تاہم ابھی تک مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے.

اس سے قبل جون کے پہلے ہفتے میں بھی ایک جرگہ افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان کے رہنماؤں سے دو دن مسلسل مذاکرات کر کے ناکام واپس آگیا تھا . مذکراتی کمیٹی نے تحریک طالبان پاکستان کے امیر مفتی نور ولی محسود ، مولوی فقیر محمد سمیت تمام اہم رہنماوں پر مشتمل رہبر کمیٹی سے ملاقات کی . 53 رکنی مذاکراتی کمیٹی جنوبی وزیرستان سے سینٹ کے سابق رُکن اور جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا صالح شاہ کی سربراہی میں قائم کی گئی ہے، جس میں سابق گورنر انجینیئر شوکت اللہ، وفاقی وزیر ساجد طوری ، اخونزادہ چٹان ، بیرسٹر سیف سمیت سینٹ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین سمیت سابق اراکین پارلیمنٹ اور تمام قبائلی اضلاع کے اہم ترین عمائدین شامل تھے ۔ افغان طالبان کی جانب سے سراج الدین حقانی فریقین کے مابین ثالثی کا کردار ادا کر رہے تھے .

ریاست پاکستان اکثر اس طرح کی صورتحال میں پاکستان میں علما کی خدمات حاصل کرتی رہی ہے تاہم کامیابی کے امکانات کم ہی رہے ہیں . 2007 میں لال مسجد آپریشن کے وقت تقریبا انہی علماء نے حکومت پاکستان کی جانب سے لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز اور مولانا عبدالرشید غازی کے ساتھ مذاکرات کے کئی دور کیے تاہم وہ غازی برادران کو قائل نہ کر سکے . یاد رہے لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز دارلعلوم کراچی کے مہتمم مفتی تقی عثمانی کے براہ راست شاگرد بھی رہ چکے ہیں . مذاکرات کے دوران مفتی تقی عثمانی نے ایک بار سخت لہجہ بھی استعمال کیا تاہم وہ مولانا عبدالعزیز کو قائل نہ کر سکے اور علماء کا وفد مایوس ہو کر واپس ہالیڈے ان ہوٹل اسلام آباد آگیا تھا .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے