25دسمبر کی سہ پہر کابل سے دلّی کی طرف پرواز کرتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم کا سرکاری طیارہ ’’اچانک‘‘ لاہور کے ہوائی اڈے پر اُتر گیا۔ مودی اور اس کے گیارہ کے قریب معاون ایئرپورٹ سے پاکستانی وزیر اعظم سے ملاقات کے لئے جاتی عمرہ چلے گئے۔ اس طیارے کے باقی مسافر لاہور ایئرپورٹ پر ہی رُکے رہے۔ مقامی انتظامیہ نے ان کی خاطر تواضع کے لئے چائے پانی کا بندوبست کردیا۔
نظر بظاہر یہ خلاف معمول واقعہ نہ تھا۔ ہوا بازی کے عالمی قوانین اور مسلمہ اصولوں کے مطابق بھارت کا عام مسافر برادر طیارہ بھی کسی ہنگامی صورت حال کی وجہ سے اپنی منزل تک پرواز جاری نہ رکھ سکے تو پاکستانی فضائی حدود کے اندر ہوتے ہوئے ہمارے کسی ایئرپورٹ پر اُترنا اس کا حق بنتا ہے۔ ہمارے حکام اسے بحفاظت لینڈ کروانے کی ہر سہولت فراہم کریں گے اور یہاں قیام کے دوران اس کے مسافروں کی دیکھ بھال بھی ہماری اخلاقی ذمہ داری قرار پائے گی۔
پاکستان کا میڈیا مگر بہت ہی آزاد اور چوکس ہے ۔ اس کے چیتا رپورٹر کیمرے اور مائیک لے کر ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں۔ نواز شریف کے ذاتی گھر تک انہیں اس دن مگر رسائی میسر نہیں تھی اور لاہور ایئرپورٹ پر ٹھہرے ہوئے کوئی بڑی خبر ڈھونڈنا کافی مشکل نظر آرہا تھا۔
ایسے میں ایک مقامی چینل کے ایک بہت ہی ذہین رپورٹر نے بڑی مستعدی سے دریافت کرلیا کہ بھارتی وزیر اعظم اور ان کے ہم سفر بغیر کسی ویزے کے لاہور میں گھس آئے ہیں۔توبہ-توبہ کا ورد کرتے ہوئے اس ہونہار رپورٹر نے بھارتی شہریوں کی ایک کثیر تعداد میں بغیر ویزے کے لاہور میں موجودگی کے حوالے سے قومی سلامتی کو ممکنہ خدشات کے بارے میں دہائی مچادی۔ انٹرنیٹ پر رونق لگ گئی اور کافی سنجیدہ اور خارجہ امور کے بارے میں معتبر ٹھہرے کئی افراد ویزے کے موضوع پر ٹی وی سکرینوں کے ذریعے ہم عامیوں کی رہ نمائی پر مجبور ہوگئے۔
[pullquote]کسی زمانے میں کل وقتی رپورٹر ہوتے ہوئے اس خاکسار نے دو سے زیادہ دہائیاں خارجہ امور سے متعلقہ معاملات کے بارے میں خبریں ڈھونڈنے میں صرف کی ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم کی ’’اچانک‘‘ لاہور آمد کے بعد جو کچھ ٹی وی سکرینوں پر دیکھا اور سنا اس کے بعد شدید احساس کمتری میں مبتلا ہوگیا ہوں۔ یوں گماں ہوتا ہے کہ خارجہ امور کے بارے میں رپورٹنگ کے وہ سارے برس میں نے گھاس کاٹنے میں گزارے تھے۔ خدا نے وہ آنکھ اور ذہن ہی عنایت نہیں کئے تھے جو عالم ِاسلام کی واحد ایٹمی قوت کو ممکنہ خطرات دیکھ پاتے اور پھر بیان کا وہ ہنر بھی جو قومی سلامتی کے بارے میں غفلت برتنے والوں کی بھرپور مذمت کرپائے۔ اپنی کوتاہیوں پرشرمسار ہوگیا ہوں۔
[/pullquote]
وقت آگیا ہے کہ ہمارا مستعد میڈیا کھل کر لوگوں کو اب بتاہی دے کہ اس سے متعلقہ لوگوں کی اکثریت پاکستان کے تیسری بار منتخب ہونے والے وزیر اعظم کو ’’بھارت نواز‘‘ گردانتی ہے۔ انہیں ہمیشہ یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ لاہور کے ایک کاروباری خاندان سے تعلق رکھنے والے نواز شریف قومی حمیت اور غیرت کے تقاضوں کو قطعی نظرانداز کرتے ہوئے پاکستان کے ازدلی دشمن کے آگے پیچھے چلے جارہے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم کے سرکاری طیارے کی لاہور میں ’’اچانک‘‘ لینڈنگ نے موصوف کے اسی رویے کو بے نقاب کرڈالا۔ لاہور ایئرپورٹ سے Live Beeperدینے والے ہونہار رپورٹر کی توبہ-توبہ والی دہائی اس تناظر میں لہذا ضروری تھی۔ اس کی جرأت اور ہمت کو سلام۔
ہمارے ہونہار رپورٹر کے مقابلے میں بھارت کی ایک سٹاررپورٹر بھی ہے۔ نام ہے اس کا برکھادت۔ وہ بھارت کے NDTVکے بانیوں میں سے ایک ہے۔ کارگل کے دنوں میں CNNکی کرسٹینا امان پور(Christiane Amanpour) کی طرح میدانِ جنگ سے رپورٹنگ کے ذریعے اس نے ایک جی دار خاتون صحافی ہونے کی شہرت کمائی تھی۔
چند ہفتے قبل برکھادت نے ایک کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں دعویٰ کیا گیا کہ بھارت کا ایک مشہور کاروباری شخص ہے سجن جندال۔ نواز شریف کے خاندان کی طرح تعلق اس کا بھی لوہے کے دھندے سے ہے۔ وہ شخص افغانستان میں موجود لوہے کے بے پناہ ذخائر کوپاکستان کے زمینی راستوں کے ذریعے بھارت میں موجود اپنے کارخانوں تک لانا چاہ رہا ہے۔مودی کے بہت قریب ہے اور نواز شریف کا بھی دوست۔ اس شخص کی ایماء پر پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم اپنے خارجہ اور قومی سلامتی سے متعلقہ اداروں سے بالا بالا اپنے ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر کرنا چاہ رہے ہیں۔
سجن جندال کی کوششوں سے بقول برکھادت نوازشریف نے کھٹمنڈو کے ایک ہوٹل میں نریندرمودی کے ساتھ ایک خفیہ ملاقات بھی کی تھی۔ یہ ملاقات اس لئے بھی حیران کن تھی کہ ان دنوں نیپال میں ہوئی سارک کانفرنس کے دوران نوازشریف اور نریندرمودی ٹی وی کیمروں کے سامنے ایک دوسرے کے ساتھ رعونت بھری بے اعتنائی والا رویہ اپناتے نظر آئے تھے۔
بھارت اور پاکستان کے سرکاری حلقوں نے برکھادت کی بتائی ملاقات کی سختی سے تردید کردی تھی۔ وہ مگر اپنی خبر پر اب بھی ڈٹی ہوئی ہے۔ کسی زمانے میں ایک کل وقتی رپورٹر ہوئے البتہ میں یہ بات آج تک نہیں سمجھ سکا کہ ایک جیّد رپورٹر ہوتے ہوئے برکھادت نے کھٹمنڈو میں شریف اور مودی کے درمیان ہوئی مبینہ ملاقات کا انکشاف کرنے کے لئے ایک سے زیادہ برس تک انتظار کیوں کیا۔ رپورٹر کا اصل فرض خبر دینا ہوتا ہے۔ یہ خبر بہت ہی ’’حساس‘‘ اور دھماکہ خیز ہو توبھی کسی نہ کسی طرح وہ اس کا فوری ذکر کرنے کے لئے جبلی طورپر مجبور ہوتا ہے۔
کھٹمنڈو ویسے بھی نسبتاََ ایک چھوٹا شہر ہے۔ وہاں سارک کانفرنس منعقد ہورہی ہو تو سات ممالک کے سربراہان کی حفاظت پر تعین عملہ ہر سو پھیلا اور متحرک نظر آتا ہے۔ ایسی کانفرنس کے بھرپور انعقاد کے دوران نریندر مودی اور نواز شریف کے درمیان کوئی خلاف معمول ملاقات کا پوشیدہ رہنا ممکن ہی نہیں تھا۔
ہمارے حب الوطنی کے اپنے تئیں ٹھیکے دار بنے چندخواتین وحضرات مگر ان دنوں برکھادت کی بتائی کہانی پر اندھا اعتماد کئے بیٹھے ہیں۔ مودی کی ’’اچانک‘‘ لاہور آمد کا تعلق سجن جندال اور اس کے کاروبار سے جوڑدیا گیا ہے۔ برکھادت اس بارے میں بہت شاداں ہے۔ نام لے لے کر اپنے ٹویٹر پیغامات کے ذریعے ان پاکستانی صحافیوں اور مفکرین کا شکریہ ادا کررہی ہے جنہوں نے مودی کی ’’اچانک‘‘ لاہور آمد کو برکھادت کی بتائی کہانی کے تناظر میں رکھ کر بیان کیا ہے۔
[pullquote]سجن جندال کا ذکر کرتے ہوئے برکھادت اوراس کے پاکستانی ہم نوا مگر یاد نہیں کرپارہے کہ اس ’’کاروباری شخص‘‘ کی کم از کم دو طویل ملاقاتیں ایک زمانے میں جنرل مشرف کے ساتھ بھی ہوئی تھیں۔ سجن جندال کے علاوہ بھارت ہی کا ایک بہت بڑا کاروباری گروپ ’’امبانی‘‘ بھی ہوا کرتا ہے۔ اس خاندان نے پاک-بھارت معاملات پر نگاہ رکھنے کے لئے ایک تھنک ٹینک بھی بنارکھا ہے۔ واجپائی کا کئی برس تک مشیر برائے قومی سلامتی رہنے والا برجیش مشرا اس ادارے کا حتمی سرپرست رہا ہے۔
[/pullquote]
نواز شریف کے گزشتہ دورِ وزارتِ عظمیٰ میں واجپائی کی بذریعہ بس لاہور ا ٓمد کا کریڈٹ بھی مشرا اور امبانی گروپ کے تھنک ٹینک کو دے دیا گیا تھا۔ اس کے بعد اگرچہ کارگل ہوگیا اور جنرل مشرف ہمارے صدر بن گئے تو ان کے مشیر برائے قومی سلامتی -طارق عزیز- بھی اس مشراء کے ساتھ ملاقاتیں کرتے ہوئے کشمیر کا "Out of Box”حل ڈھونڈنے میں مصروف رہے تھے۔ ہمارا میڈیا مگر اُن دنوں اس ضمن میں اپنی روایتی جرأت دکھانے کی ہمت نہ کرپایا۔
پاکستان اور بھارت کے معاملات انتہائی پیچیدہ ہیں۔ سجن جندال اور امبانی وغیرہ کے ذریعے ہوئی ’’اچانک‘‘ ملاقاتیں ان کا مؤثر اور دیرپا حل فراہم نہیں کرسکتیں۔ انتہائی الجھے معاملات کو سلجھانے کے لئے ایک طویل اور صبرآزما Processدرکار ہے۔ یہ پراسس کسی نہ کسی طرح شروع ہوچکا ہے اور اسے جاری رکھنے پر مجبور بھارت یا پاکستان کے چند افراد یا ان کے کاروباری مفادات ہرگز نہیں کررہے۔ گیم بہت گہری ہے جس پر چند افراد نہیں بلکہ کئی عالمی طاقتیں پوری قوت کے ساتھ ملوث ہیں۔