پاکستانی ڈراموں میں اقلیتوں کا بلیک آؤٹ

پاکستانی ڈرامے گھر گھر میں دیکھے جاتے ہیں۔ کچھ ڈرامے انتہائی مقبول ہو ر ہے ہیں۔ ان کے مشہور ہونے کا اندازہ یوٹیوب پر ان کے دیکھے جانے کی کُل تعداد سے بھی ہوتا ہے۔ مشہور ڈرامے گھنٹوں میں ملیَن کے ویُوز تک پہنچ جاتے ہیں اور سوشل میڈیا پر بھی ان پر بہت بات ہوتی ہے۔

لیکن جب ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ پاکستان میں مین سٹریم ٹی وی چینلز جیو اینٹرٹینمنٹ، اے آر وائی اور ہم ٹی وی میں کتنے ڈرامے ایسے ہیں جن میں آپ کو ایسے کردار نظر آتے ہیں جو کہ اقلیتی عقائد کے افراد کے گرد گھومتے ہیں تو گنتی کے کچھ ہی ڈرامے سامنے آتے ہیں۔

یہ ڈرامے کسی ایک شش ماہی میں نہیں پیش ہوئے۔ چند ایک ایسے ڈرامے ہوں بھی تو وہ کبھی کبھار سامنے آتے ہیں۔ موجودہ دنوں بھی مرکزی ٹی وی چینلز پر کوئی ایسا ڈرامہ نہیں چل رہا جس کا کوئی کردار مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھتا ہو۔

پاکستان کی ٹیلی ویژن براڈکاسٹ انڈسٹری، جسے عام زبان میں کیبل ٹی وی کہا جاتا ہے، اس میں عموماً تین ٹائم سلاٹس میں ڈرامے چلائے جاتے ہیں۔

ان ٹائم سلاٹس میں شام سات، آٹھ اور نو بجے کے ا وقات شامل ہیں۔ اگر ملک کے تین نجی شعبو ں کے تین بڑے چینلز کو دیکھا جائے تو ان تینوں پر ہر روز تقریباً نو ڈرامے چلتے ہیں۔ لیکن ان میں سے کسی میں بھی اقلیتوں کی نمائندگی نظر نہیں آتی۔

کچھ عرصہ پہلے والے ڈراموں پر نظر ڈالی جائے تو حال میں ہی اختتام پذیر ہوئے ڈرامے سنگِ ماہ میں ایک ایسا کرادر نظر آیا تھا جو کہ اقلیتی کمیونٹی سے لیا گیا تھا۔

سنگ ماہ میں اداکار عمیر رانا نے مستان سنگھ کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کردار کا تعلق پشتون سکھ کمیونٹی سے تھا۔

جب اس ڈرامے کا ٹریلر منظر پر آیا تو لگا کہ مستان سنگھ کا ڈرامے میں بہت اہم کردار ہے۔ لیکن ڈرامے کو دیکھ کر لگا کہ ان کے کردار میں اقلیتی مسائل پر اس طرح بات نہیں ہوئی کہ جسے زیادہ اہمیت دی جا سکے۔

ڈرامے کے ایک سین میں مستان سنگھ اپنی مذہبی علامت پگڑی سے جذباتی لگاؤ کی بات کرتا ہے، البتہ باقی ڈرامے میں وہ اس سٹوری کا کسی اور طرح حصہ رہا۔ مستان سنگھ اپنی محبوبہ کی عزت بچاتے ہوئے ایک بندے کو قتل کر دیتا ہے اور اس کا اعتراف کر کے اپنے حصے کی سزا کاٹتا ہے۔ اس سزا کے دوران اپنی مُنہ بولی بیٹی کی عزت کی حفاظت میں غیرت کھا کر ایک اور قتل کی کوشش بھی کرتا ہے۔ یہ ڈرامہ ریٹنگ میں اچھا رہا اور یو ٹیوب پر ٹرینڈ بھی کرتا رہا۔

ایک اور ڈرامہ جس نے حالیہ دنوں میں کافی مقبولیت حاصل کی وہ صنفِ آہن تھا۔جو کہ فوج میں جانے والی لڑکیوں پر تھا اور اس ڈرامے میں ایک لڑکی کا تعلق مسیحی برداری سے تھا۔ جب یہ ڈرامہ آن ایئر آیا تو اس پر عام لوگوں نے بھی یہ تنقید کی کہ اس ڈرامے میں مسیحی برداری سے تعلق رکھنے والی لڑکی کو اس لیے فوج میں شامل کیا گیا تاکہ فوج کا مَثبت امیج سامنے لایا جا سکے ورنہ اس کمیونٹی کو بنیاد بنا کر اس میں کسی خاص ایشو پر بات نہیں کی گئی۔ مطلب یہ کہ اس سے پبلک ریلیشن کا عمل تو سر انجام دے دیا گیا لیکن اقلیتی عقائد رکھنے والے کسی فرد کو ہمارے دفتروں یا معاشرے میں کیسے دیکھا جاتا ہے، اس کی کوئی جھلک بھی نہ دکھائی دی۔

سائرہ یوسف جو اس ڈرامے میں آرزو کا کردار ادا کر رہی تھیں، ان کو اس میں دکھایا گیا ہے کہ ان کا تعلق یوحنا آباد لاہور سے ہے۔ یوحنا آباد لاہور میں ایک علاقہ ہے جہاں مسیحی برداری رہتی ہے۔ اس ڈرامے کے ایک سین میں آرزو کو چرچ میں بھی دکھایا گیا ہے جہاں وہ اپنی عبادت کر رہی ہے۔ کچھ سینز کے علاوہ اس ڈرامے میں بہت زیادہ ایسا کچھ نہیں جس سے دیکھنے والے اندازہ لگا سکیں کہ آرزو کا تعلق مسیحی برداری سے ہے۔

سائرہ یوسف نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ جب ان کو اس ڈرامہ کی آفر ہوئی تو ان کو اندازہ تھا کہ ان کو اپنے چلنے اور بولنے میں کچھ خاص سٹائل رکھنا ہو گا۔

ایک اور ڈرامہ کچھ سال پہلے ہم ٹی وی پر آیا اور جس کے نام سے لگا کہ شاید یہ سِکّھوں کے بارے میں ہے۔ وہ تھا بلقیس کور۔

‎ان دنوں بھی وہ سکھ مذہب کا پسِ منظر رکھنے والی، مگر موجودہ دور کی مسلمان عورت کا، بلقیس کور کا کردار نبھارہی ہیں۔ ”کور“ سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والی عورتوں کے ناموں کا لازمی سا حصہ ہوتا ہے جب کہ بلقیس عام طور پر مسلمان خواتین کا نام ہے۔

لہٰذا بلقیس کور کے نام سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کسی ایسی ڈرامہ سیریل کا نام ہے جس میں بلقیس کور کا کردار ادا کرنے والی بشریٰ انصاری سکھ تھیں، لیکن بعد میں مسلمان ہو گئیں اور ان کا نام بلوَنت کور سے بلقیس کور ہو گیا۔

چُوں کہ بلقیس کور پہلے سکھ تھیں تو ایک سین میں وہ گردوارے جاتی ہیں جس کے بارے میں ان کے شوہر کہتے ہیں کہ وہ مسلمان ہو کر گردوارے کیوں جاتی ہیں؟ تو وہ جواب دیتی ہیں کہ وہ اپنے ماں باپ کی مغفرت کے لیے جاتی ہیں کیوں کہ وہ سکھ تھے۔

اوپر ہم نے ڈرامہ صنفِ آہن ، سنگِ ماہ اور بلقیس کور کا ذکر کیا۔ ہماری ان ڈراموں کی مثال دینے سے مراد اقلیتی عقائد کے کرداروں کی کسی بہت ہی سطحی اور ظاہری سطح پر بھی کم سے کم موجودگی کو واضح کرنا تھا۔

ان ڈراموں میں ان کرداروں کی عکاسی اور کہانی پر مختلف زاویوں سے بات ہو سکتی ہے۔ تاہم ہمارا اس وقت مقصد اقلیتی عقائد کے لوگوں کی ملک کے ثقافتی منظر نامے سے غیر موجودگی پر زیادہ بات کرنا ہے۔ یہ ڈرامے ملک کے شہری اور دیہاتی مڈل کلاس کے علاوہ لوئر مڈل کلاس اور غریب گھرانوں کی ٹی وی سکرینوں کا ایک اچھا خاصا وقت اپنے نام کرتے ہیں اور اس سے ان کی اثر ونفوذ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

اس سلسلے میں ہم نے براڈکاسٹ ٹیلی ویژن یا کیبل ٹی وی کے علاوہ ملک کے ریاستی ٹیلی ویژن کے ثقافتی منظر نامے کے تین اہم افراد سے مندرجہ ذیل سوالات پوچھے اور ان سوالوں کے درمیان کچھ ثانوی لیکن موضوع سے متعلق سوالات بھی دریافت کیے۔

اقلیتی عقیدے رکھنے والے افراد کی کردار نگاری اور عکاسی ٹی وی سکرین پر جیسی ہے کیا وہ فئیر (مناسب) ہے؟ اس معاملے پر آپ کا ذاتی خیال کیا ہے؟

اقلیتی عقائد رکھنے والے کرداروں کے متعلق پروڈیوسرز یا پروڈکشن کمپنی کی طرف سے کہانی لکھنے والے کے لیے، مَثبت یا منفی نوعیت کی کوئی ہدایات ہوتی ہیں؟ کیا کوئی غیر تحریر شدہ بزنس رولز ہوتے ہیں؟

ہماری کلچرل انڈسٹری کے اندر جو سٹیٹس کو کی فضا ہے، اس میں کسی بدلاؤ کی ضرورت ہے؟ آپ کا کیا خیال ہے، یا کوئی تجویز ہے؟

اقلیتی عقیدے کے افراد اور ٹیلی ویژن سکرین

آمنہ مفتی اردو کی معروف ناول نگار اور بی بی سی کی با قاعدہ کالم نگار ہونے کے علاوہ اہم سماجی معاملات پر ملک کے اہم ٹیلی ویژن چینلز کے لیے ڈرامے بھی لکھتی ہیں۔ آمنہ مفتی کہتی ہیں:

"اقلیتی افراد کی ہماری ٹیلی ویژن سکرینوں پر عکاسی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر بالفرض ایک سو ڈرامے بن رہے ہیں تو ان میں 0.01 فی صد بھی بہ مشکل ایسے ڈرامے نکلیں گے۔ اس قدر کم تعداد میں اقلیتوں کی عکاسی سے ہم کسی قسم کے نتیجے نکالنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔ وہ فیئرنس کے ساتھ عکاسی پا رہے ہیں یا نہیں، ایسا کہنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔”

‘مارکس سے خائف لوگ’ نام کی کتاب کے مصنف اور ٹیلی ویژن ڈراموں کے لکھاری عامر رضا نے بھی اس سوال جواب دیتے ہوئے کہا:

"اقلیتی عقائد کے افراد کا ہماری ٹی وی سکرینوں پر تقریباً مکمل بلیک آؤٹ ہے۔ جب اس قدر غیر حاضری کا سماں ہے تو ان کی عکاسی اور نمائندگی میں جائز یا نا جائز کا سوال ہی دَم توڑ جاتا ہے۔ اگر کبھی کبھار اقلیتوں کی ٹیلی ویژن پر شکل نظر آتی ہے تو ایسٹر کے موقعے پر یا 14 اگست اور25 دسمبر کو کرسمس کے موقعے پر نظر آتی ہے۔

ظفر عمران ملک کے مرکزی دھارے کے ٹیلی ویژن ڈراموں کے لکھاری ہونے کے علاوہ اُردو افسانوں کی ایک کتاب بھی لکھ چکے ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں ان کی ایک فیچر فلم بھی ریلیز ہوئی ہے۔ انھوں نے ہمارے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا:

"پی ٹی وی پر کرسمس وغیرہ کے موقعے پر مسیحی نظر آ جاتے ہیں، مگر کسی خاص طور پر ہمارے دیگر ٹی وی چینلز پر انھیں ڈھونڈنا مشکل کام ہے۔ ہندوؤں کو ہم لوگ ٹیلی ویژن پر بالکل نہیں دیکھ پاتے، شروع میں جیو اینٹرٹینمنٹ نے کچھ ڈرامے ہندوؤں پر بنائے تھے، مگر بعد میں یہ سلسلہ رک گیا۔ اس طرح احمدیوں کے معاملات، یا شیعہ لوگوں کے، یا اس طرح کسی خاص عقیدے کے افراد کے کردار اور ان کی عکاسی نا لکھے اصولوں کی روشنی میں پیش کرنے کا تو سوچ بھی نہیں سکتے۔”

اقلیتوں کے متعلق سکرینوں کا سٹیٹسکو اور بہتری کی امید

آمنہ مفتی، اور عامر رضا کہتے ہیں کہ اقلیتوں کی نمائندگی اور عدم نمائندگی کے متعلق پروڈکشن کمپنیوں سےکوئی ہدایات وغیرہ تو بالکل نہیں ہوتیں۔ بہر کیف، انھیں اقلیتوں کے متعلق کوئی مکالمہ لکھنا یا بلوانا ہو تو نا لکھے اصول ضرور ہیں۔ اِن اصولوں میں یہ بات ہے کہ انھیں لکھتے وقت ہمہ وقت یہ خیال رکھنا ہوتا ہے کہ کوئی منافرت آمیز جملہ یا مکالمہ نہ ادا ہو۔

ڈرامے کے لکھاریوں کی اس بات سے ہم ہلکا سا اندازہ کر سکتے ہیں کہ اقلیتوں کو معاشرے اور ثقافتی منظر نامے میں زندگی سے بھر پُور کردار کے فرد ہونے کے امکان کے سامنے آنے کو لکھاریوں کی ایک قسم کی سیلف سینسرشپ کے ہاتھوں قربانی دینا پڑتی ہے، وہ بھی تب جب کبھی کبھار وہ سکرینوں پر نظر آ ہی جائیں۔

مزید یہ کہ ان لکھاریوں کے دیے جوابوں سے ہم بالواسطہ یہ معنیٰ اخذ کر سکتے ہیں کہ پروڈیوسروں یا چینلز کے مالکان کی جانب سے با قاعدہ طور پر اقلیتوں کواعلیحدہ کرنے والے بزنس رُولز تو موجود نہیں، لیکن ظفر عمران کی ترکیب ‘نا لکھے اصول’ میں ان کی اپنے معاشرے کے ثقافتی صارفین کی قبولیت اور عدم قبولیت کی توقعات کے سامنے سوچی سمجھی خاموشیاں ضرور آڑے آتی ہیں۔

ان سوالوں کے جوابات میں آمنہ مفتی کے لکھے ڈرامے سیتا باگڑی میں بشریٰ انصاری کے نبھائے کردار کا حوالہ بار بار آیا ہے۔ آمنہ مفتی کہتی ہیں کہ باگڑی میں اقلیتی کمیونٹی کے فرد کی عکاسی میں ان کے لکھے سکرپٹ کو جوں کا توں ہی رہنے دیا گیا۔

اس کے علاوہ آمنہ مفتی اپنی رائٹر ہونے کی خود مختاری کا اظہار بھی ان الفاظ میں کرتی ہیں:

"مجھے کسی کردار کے متعلق ڈکٹیشن دینے کا عام طور پر کسی کو یارا نہیں ہوا۔”

عامررضا نے ہمارے موضوع کے سارے پہلووں کو سمیٹتے ہوئے کہا:

"لکھاری اسی معاشرے سے ہی آئے ہیں جہاں مسیحی اور ہندو ٹی وی سکرینوں پر مقام اور عکاسی حاصل نہیں کر پائے۔ اس لیے وہ سوچ ہی نہیں پائے کہ اقلیتی عقائد والوں کی زندگی بھی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ اس لیے لکھاریوں نے بھی لکھتے وقت اقلیتوں کو بھولی بسری حقیقت کے طور پر لے لیا ہے۔”

مگر عامر رضا کہتے ہیں، آس ختم نہیں ہونی چاہیے:
"ڈرامہ بنانے والے پروڈیوسرز اور لکھنے والوں کو بھی سماجی انصاف کے احساس کے تحت سماجی ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے اقلیتی عقائد کے افراد کے ٹی وی سکرینوں پر نظر آنے کی اپنی کوئی چیک لسٹ بنانے کی ضرورت ہے۔ لکھاریوں کو ٹریننگ کی ضرورت ہے تاکہ وہ ان چیزوں کے متعلق بھی سوچیں کہ یہ غیر موجودگی انتہائی غلط بات ہے۔ اس سلسلے میں میڈیا کے اپنے لیے مثبت قواعد و ضوابط بنانے کے علاوہ، ریاست کی جانب سے اس عکاسی کے لیے شمولیت آموز قوانین سامنے لانے سے بہتری ہو سکتی ہے۔”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے