خواتین کے بے حیا کپڑے اور سیلاب کی آفت

فجر کی اذان ہو رہی تھی۔ جب امی کو آخری دفعہ گھر سے ہسپتال لے کر جانے لگے ۔ تو امی کی نظر میں گیٹ پر پڑے کوڑے کے شاپروں پر پڑی ۔ کہنے لگیں کہ کوڑے کے یہ شاپر اٹھا کر پھینک آ ؤ کہ بہت سے مہمان آئیں گے اور سوچیں گے کہ یہ کیسا گھر ہے کہ کوڑا مین گیٹ کے ساتھ پڑا ہے۔ بس یہ ان کی آخری آخری گفتگو تھی۔

کوڑا کہاں پھینکا جائے۔ یہ امی جی کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ جب کبھی اسلام آباد آتیں تو دن میں دو چار مرتبہ گھر فون کر کے ضرور کہتیں کہ کوڑا پھکوا دینا۔ امی نے ایک مانگنے والے کو مختص کر رکھا تھا. جو روز آتا اور کوڑا لے جاتا۔ اور امی اس کو کچھ روپے دے دیتیں۔

جس محلے میں ہم بیس سال پہلے منتقل ہوئے ۔ وہاں نئی آبادی بن رہی تھی۔ جو پلاٹ خالی ہوتا وہیں لوگ کوڑا پھینکتے۔ جب سارے پلاٹوں پر گھر بن گئے۔ تو لوگوں نے قریب سے گزرنے والی پانی کی ایک گزرگاہ (نالے) میں کوڑا پھینکنا شروع کر دیا.سیوریج کی لائنیں بھی اسی میں ڈال دیں۔ اور آہستہ آہستہ صاف نالا گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا۔

کچھ لوگوں بشمول سیاسی جماعتوں کے قائدین کے اس نالے پر مارکیٹیں اور گھر بنانا شروع کر دیے۔ اب پچاس فٹ کا نالہ بمشکل پندرہ فٹ رہ گیا ہے۔ فی الحال شہر میں پانی کی کچھ گزرگائیں باقی ہیں۔مگر جس تیزی سے عمارات تعمیر ہو رہی ہیں۔ ان کو نہ روکا گیا تو مانسہرہ بھی دو چار سالوں میں اربن فلڈ کا شکار ہو جائے گا۔اسی طرح تسلسل سے درخت کاٹے جا رہےہیں۔پہاڑ مٹی میں تبدیل ہو رہے ہیں۔

مانسہرہ بالاکوٹ بائی پاس کی مشہور لغمانی ہل سے پہلے اور بعد پہاڑ کاٹ کر لب روڈ مارکیٹیں بن رہی ہیں۔ جب کہ قانون کے مطابق روڈ کے دائیں بائیں خاص فاصلے تک تعمیرات نہیں ہو سکتیں۔ فلیش فلڈ کے اس سال سے ذیادہ واقعات تاریخ قریب میں کبھی نہیں دیکھے گئے۔

یہ صرف میرے شہر کی کہانی نہیں ہے۔۔یہ ہر شہر کی کہانی یے۔ سکھر ،سوات ،خیر پور ،کوئٹہ ،ایبٹ آباد ، گجرات ،تونسہ،مظفر آباد جیسے بڑے بڑے شہر اسی مسئلہ سے دو آر ہیں۔ یہ سیلاب قانون فطرت کو ہاتھ میں لینے کی وجہ سے آتے ہیں۔

یہ جو احادیث مبارکہ میں آتا ہے کہ سیلاب ،زلزلے اور حادثات ہمارے اجتماعی گناہوں سے آتے ہیں۔ تو یہ بلکل درست بات ہے۔ اور اس پر بار بار توبہ کا کہا گیا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اب روایت بن گئی ہے کہ جب بھی کوئی انسانی سانحہ آتا ہے اس کا زمہ دار عورتوں کے کپڑوں ، ان کی بے پردگی اور بے حیائی کو ٹھہرایا جاتا ہے .مجھے یاد ہے کہ سال 2005 کے زلزلے کے بعد جب مولانا طارق جمیل مانسہرہ آئے تو تقریر میں ان ہی معاملات کو زلزلے کا سبب بتایا. اس لیے جب بھی گناہوں کا تذکرہ ہو تو ہمارے دماغ میں پہلا ممکنہ گناہ عورتوں کی بے حیا ئی، ان کے کپڑے ، ناچ گانا، موسیقی ، شراب پینا اور زنا وغیرہ وغیرہ آتے ہیں۔ کیونکہ مولوی نے بچپن سے ہمارے ذہنوں پر یہ نقش کر دیا ہے کہ گناہ صرف یہی ہوتے ہیں۔

ہمیں کبھی نہیں بتایا جاتا کہ درخت کاٹنا ، گندگی پھیلانا ، آبی گزرگاہوں پر قبضہ کر کے ان پر مارکیٹیں اور پلازے کھڑے کرنا ، صاف پانی میں سیوریج اور کوڑا کرکٹ پھینکنا ، ریاست کی طرف سے ویسٹ مینجمنٹ کا مناسب انتظام نہ کرنا، بھل صفائی نہ کرنا، پانی کے ذخیروں کو ضائع کرنا ، اور اس سارے نظام فطرت کو کسی بھی طرح اپنے ذاتی فائدے کے لیے ڈسٹرب کرنا اجتماعی گناہ ہیں۔ اور ان اجتماعی گناہوں کے نتیجے میں یہ سیلاب آتے ہیں، پہاڑوں سے پتھر گرتے ہیں۔ فلیش فلڈ آ کر بستیاں مٹا دیتے ہیں۔ فصلیں تباہ ہوتی ہیں۔ اور ہم کروڑوں کے فائدے کے بدلے اربوں کھربوں کا نقصان اٹھاتے ہیں۔

ہمیں اجتماعی توبہ کرنی ہے
یعنی توبتہ النصوح کرنی ہے۔ اور وہ عملی توبہ ہے۔ اور وہ توبہ ان اجتماعی گناہوں سے ہے جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے۔
تو آئیں آج سے ارادہ کریں کہ ہم درخت نہیں کاٹیں گے۔ پانی کے راستوں پر پلازے اور مارکیٹیں نہیں بنائیں گے۔ حکومت کو مجبور کریں گے کہ وہ سیوریج اور کوڑا ٹھکانے لگانے کا انتظام کر کے دیں۔ پانی ضائع نہیں کریں گے۔ جنگل اور پانی کو قدرت کی امانت سمجھتے ہوئے اگلی نسل کو منتقل کریں گے۔

ورنہ میں یہی کہوں گا
کوئی شرم ہوتی ہے
کوئی حیا ہوتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے