محض چند تاریخی حقائق جِن کا جذباتیت سے کُچھ لینا دینا نہیں ہوتا ۔

برطانیہ کی بادشاہت کم و بیش ہزار سال سے زیادہ پُرانی ہے جبکہ انگلینڈ کی اِس سے بھی چند صدیاں مزید پُرانی ۔ برطانیہ یا برطانیہ عظمیٰ ، اُردو کا لفظ ہے جو گریٹ برٹین کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ یُوکے ، گریٹ برٹین ، انگلینڈ وغیرہ سب الگ الگ اصطلاحات ہیں ۔ یُوکے یعنی یُونائیٹیڈ کِنگڈم کا مطلب انگلینڈ ، ویلز ، سکاٹ لینڈ اور نادرن آئرلینڈ ہے جبکہ گریٹ برٹین کا مطلب انگلینڈ ، ویلز اور سکاٹ لینڈ ہے جبکہ انگلینڈ یا انگلستان محض انگلینڈ یعنی لندن ، برمنگھم ، مانچسٹر ، لیور پول وغیرہ پر مُشتمل ہے اور یُوکے کی کُل آبادی کا چوراسی اعشاریہ تین فیصد فیصد حِصہ یہیں انگلینڈ میں بستا ہے جبکہ سکاٹ لینڈ آٹھ اعشاریہ دو ، ویلز چار اعشاریہ سات اور ناردرن آئرلینڈ محض دو اعشاریہ آٹھ فیصد آبادی کا حامِل ہے ۔

انگلینڈ کے مقامی افراد کو انگلش یا انگریز کہا جاتا ہے ۔ سکاٹ لینڈ والے سکاٹش کہلاتے ہیں اور اُن کی اپنی مقامی زبان بھی ہے ، یہی حال ویلز کے ویلش لوگوں اور اُن کی زبان کا ہے جبکہ آئرلینڈ کے افراد آئرش کہلاتے ہیں ۔ ویلز کے ڈریگن والے جھنڈے کی شمولیت یُونین جیک میں نہیں ہے ۔ انگلینڈ کا سفید بیک گراؤنڈ کے ساتھ ریڈ کراس ، سکاٹ لینڈ کا بلیو بیک گراؤنڈ کے ساتھ وہائیٹ ڈائیگنل کراس جبکہ سفید بیک گراؤنڈ کے ساتھ ریڈ ڈائیگنل کراس مِل کر یُونین جیک یعنی گریٹ برٹین کا پرچم بناتے ہیں ۔ تاریخی طور پر یہ تمام ممالک الگ الگ ہیں اِسی لیے انگلینڈ ، سکاٹ لینڈ وغیرہ کی الگ الگ ٹِیمز ہیں جو کھیلوں میں شمولیت اختیار کرتی ہیں ۔

برطانیہ کی بادشاہت میں بادشاہت کے اختیارات کا سُورج میگنا کارٹا بارہ سو پندرہ سے ڈھلنا شروع ہُوا تھا جب کنگ جون کی ایڈوائز پر بِشپ اوو کینٹر بَری نے یہ ڈرافٹ کِیا تھا ۔ فاسٹ فارورڈ ٹو دِی ہاؤس اوو ٹیوڈر کے کنگ ہینری ہشتم جو آخری بادشاہ تھا جِس نے اپنے اختیارات کو بھرپور انداز میں استعمال کِیا اور انجووئے کِیا اُس کے بعد اُس کا بیٹا تھوڑا عرصہ بادشاہ رہا پھر اُس کی بیٹی کوئین میری جو کیتھولک تھی اور اُس نے پروٹسٹنٹس پر شدید سخت رویہ اختیار کِیا اور اِس کے نتیجے میں اُسے تاریخ میں بلڈی میری کا نام دِیا گیا ؛ اِس کے بعد ملکہ الزیبیتھ اوّل ملکہ بنیں ۔ اِنھیں ورجن کوئین بھی کہا جاتا ہے ۔

سولہ سو انچاس سے سولہ سو ساٹھ تک روایتی بادشاہت کو ختم کر کے انگلینڈ کو ریپبلکن کامن ویلتھ اوو انگلینڈ کا نام دے دِیا گیا اور سٹوراٹ بادشاہ چارلس اوّل کو سزائے موت دے دِی گئی ۔ اولیور کرومویل اِس دوران لارڈ پروٹیکٹر رہا جبکہ تقریباً گیارہ سال بادشاہت معطل رہی ۔

سولہ سو ساٹھ میں سٹوراٹ ریسٹوریشن یعنی برطانیہ میں بادشاہت کی دوبارہ بحالی ہُوئی جب چارلس دوئم کو نو سالہ جِلاوطنی سے واپس بُلا کر بادشاہ بنایا گیا لیکن تمام اختیارات پارلیمینٹ کے پاس چلے گئے اور تب سے بادشاہت محض ایک آئینی اور نُمائشی عُہدہ ہے ۔ سولہ سو ساٹھ میں بِل اوو رائیٹس اور سولہ سو نواسی میں سکاٹ لینڈ میں پیش کِیا گیا کلیم اوو رائیٹس نے بادشاہت کے رہے سہے اختیارات بھی بتدریج ختم کر دیے ۔

اُس کے بعد ملکہ این سٹوراٹ ، جارج اوّل ، دوئم ، سوئم ، جارج چہارم ، ولیم چہارم اور پھر مشہورِ زمانہ ملکہ وِکٹوریا اُن کا بیٹا ایڈورڈ ہفتم پھر اُن کا بیٹا جارج پنجم پھر اُن کا بیٹا ایڈورڈ ہشتم بادشاہ بنا جِس نے ویلس سمپسن کی خاطر تاجِ برطانیہ چھوڑ دِیا اور بادشاہت پرنس برٹی کے پاس آگئی جِس کا بطور بادشاہ نام جارج ششم تھا اور پھر اُنّیس سو باون میں جارج ششم کی وفات کے بعد اُن کی بیٹی الزیبیتھ الیگزینڈرا میری بطور الزیبیتھ دوئم ملکہ برطانیہ بنیں جو کل آٹھ ستمبر کو ستر سال اور دو سو پندرہ دِن ملکہ رہنے کے بعد فوت ہُوئیں اور اب برطانیہ پر اُن کا بیٹا چارلس فِلپ آرتھر جارج بطور چارلس سوئم بادشاہ بنا ہے ۔

یہ سب اِس لیے گوش گُزار کِیا ہے کہ جِن افراد کو لگ رہا تھا / ہے کہ ہندوستان پر کیے گئے مظالم یا لُوٹ مار میں برطانیہ کی بادشاہت شامل تھی تو وُہ ایسے ہی ہے جیسے پاکستان میں وزیرِاعظم یا صدر نُمائشی عُہدے ہیں جبکہ اصل حکومت مقتدرہ کرتی ہے ۔ وزیرِ اعظم کے پاس تو پھر بھی کُچھ اختیارات ہیں لیکن ففٹی ایٹ ٹُو بی کے بعد صدر کے پاس تو بس نام اور عُہدہ ہی باقی بچا ہے اور رہا سوال پارٹیشن کا تو برطانیہ برِصغیر کو تقسیم کیے بغیر چھوڑنے پر بھی تیار ہوجاتا لیکن “ ہم “ نہیں مان رہے تھے ، برٹش پارلیمان کا بھی یہی پلان ہوگا گو ونسٹن چرچل کے نزدیک ہم آزادی کے لائق نہیں تھے لیکن بھلا ہو اٹیلی کا جو اعلانِ آزادی کر گیا ( جَسٹ آ جوک ) ۔ پارٹیشن میں لوگ نہیں مرے تھے لیکن بغیر پلان کی ہجرت اور بالخصوص راجہ بازار راولپنڈی سے سِکھوں کے ساتھ خُون کی ہولی کھیلنے سے جو خُونی فسادات شروع ہُوئے اُس میں لاکھوں لوگ مارے گئے ۔ جب ممالک کو مذاہب کے نام پر بنایا اور تقسیم کِیا جاتا ہے تو نتائج کُچھ ایسے ہی نِکلتے ہیں ۔

برطانوی پرائیویٹ کمپنی اِیسٹ اِنڈیا کمپنی نے جِتنا برِصغیر کو لُوٹا اُس کی مِثال معلوم تاریخ میں کہیں نہیں مِلتی لیکن یاد رہے یہ ایک پرائیویٹ کمپنی تھی جِس میں برٹش ایلیٹ کلاس کے افراد اور ایم پیز کے مفادات اور حصص بھی تھے ۔ اٹھارہ سو ستاون کی جنگِ آزادی یا بغاوت کے بعد جلد ہی اِنڈیا براہِ راست تاجِ برطانیہ کی عملداری میں چلا گیا ۔ اِس کو لیکن چلانے اور اِنتظام کرنے کی ذمہ داری برطانوی پارلیمان کی ہی تھی ۔ اُنھوں نے اپنے فوائد دیکھے ، اپنا مقدمہ سب سے آگے رکھا اور ساتھ ساتھ اِنڈیا میں انفراسٹرکچر ، ذرائع مواصلات بنائے ، قانون بنایا ، اِدارے بنائے ، فوج ، پولیس ، عدالت کا باقاعدہ نِظام بنایا ، آئی سی ایس کے ذریعے سِول سروس کا آغاز کِیا جو آج بھی بطور شاہی نوکری موجود ہے ۔ یہ سب برطانوی نظام تھا جو اب بھی جاری و ساری ہے ۔

اِنڈیا نے بُہت کُچھ کھویا ، مالی نُقصانات برداشت کیے ، وسائل کی لُوٹ مار اور بندر بانٹ دیکھی اور بدلے میں ایک نظام تشکیل پایا جو اِنڈیا سے زیادہ برطانیہ کو سُوٹ کرتا تھا ۔ رہا پاکستان کا سوال تو پاکستان جیسے تھا ویسا ہی ہے ، ایسا ہی رہے گا۔

بات بُہت طویل ہوگئی ہے یہیں بس کرتے ہیں ؛ مزید تاریخ جِسے پڑھنی ہو وُہ خُود پڑھ لے ۔ میں تو بس یہ عرض کرنا چاہ رہا تھا کہ ملکہ جو کل فوت ہُوئیں وُہ آپ کی نفرت کی حقدار نہیں بنتیں ۔ ایک معزز اور صلح خاتون لیکن سخت شاہی روایات سے بندھی ایک ملکہ بھی تھیں جنہیں اپنی شاہی روایات کو نبھانا تھا ۔ لیڈی ڈیانا کی موت میں شاہی خاندان کا ہاتھ اِس طرح ممکن نہیں ہے کہ شاہی خاندان کے پاس ایسے کوئی اختیارات اور پاورز نہیں ہیں ۔

یہ سب افواہیں ہوتی ہیں جو پبلک میں لوگ کرتے رہتے ہیں ۔ ڈیانا کی موت کی ذمہ داری اُس کے شوہر چارلس کی کمیلا میں دِلچسپی ، ڈاکٹر حسنات سے محبت پھر ڈاکٹر حسنات کا الگ ہونا ، دودی الفائید اور پیرس میں پاپا راٹسی فوٹوگرافرز کا اُن کے پیچھے سائے کی طرح لگے رہنا اور اُن کی کار کی سپیڈ حد سے زیادہ ہونا تھی جب وُہ آئیفل ٹاور والی سائیڈ سے پونٹ ڈی آلما روڈ انڈر پاس میں داخل ہوتے ہی تیسرے یا چوتھے پِلر سے جا ٹکرائی تھی ۔ ایڈورڈ ہشتم اور ڈیوک اوو ایڈنبرا پرنس فِلپ پر ناٹسی ریلیشنز کے اِلزامات لگتے رہے تھے لیکن حقیقت یہی ہے کہ سب سے پہلے برطانیہ اور پھرفرانس ہی تھے جِنہوں نے ناٹسی جرمنی کے سامنے سر نہیں جُھکایا وگرنہ آج یورپ کا نقشہ کُچھ اور ہی ہوتا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے