پہاڑی علاقوں میں موسمیاتی تغیرات کے تناظر میں سیلاب اور ماحولیاتی مسائل کا جائزہ

[pullquote]تعارف[/pullquote]

یہ بات تو سب مانتے ہیں کہ اس سال بارشیں معمول کے بارشوں سے زیادہ ہوئی, لیکن اس بات سے بہت کم لوگ اتفاق کریں گے کہ اس کی بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلیاں ہیں. مون سون کے بارشوں میں ہمیشہ سے پہاڑوں کا اہم کردار رہا ہے. اس ضمن میں دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سارا پانی صرف بارشوں سے آیا. اور تیسرا سوال یہ ہے کہ اس سے اتنا زیادہ نقصان کیوں ہوا؟ کیا اس میں ہماری کوئی کوتاہی یا کوتاہیاں تو شامل نہیں ہے.اور چوتھا سوال یہ ہے کہ اگر اسطرح کی بارشیں دوبارہ آتی ہیں تو ہمارا کیا کردار ہو سکتا ہے تاکہ اس سے ہونے والے نقصانات کو کم سے کم رکھا جائے. زیر نظر بحث میں کوشش کی گئی ہے کہ پہاڑی علاقوں تک محدود رہتے ہوئے ان سوالات کے جوابات دیئے جائیں.

پہلی بات تو یہ ہے کہ بارشیں نارمل سے زیادہ تھی. پاکستان میں جولائی سے ستمبر کے مہینے تک تیس سال کے اوسط بارش تقریباً 130.8 ملی میٹر ہے. جبکہ 2022 میں 375.5 ملی میٹر تک بارش ہوئی. یہ اضافہ 187 فیصد نارمل سے زیادہ ہے. بارشوں میں اس اضافے کو مارچ اور اپریل کے مہینے میں گرمی کی جو طویل لہر آئی تھی, اس کے ساتھ جوڑا جاتا ہے. جس میں بہت زیادہ مقدار میں بخارات فضا میں جمع ہونا شروع ہوئے تھے. خیبر پختون خواہ کے تناظر میں بات کی جائے تو اسی گرم لہر کی وجہ سے کافی گلیشئر پگلنا شروع ہوئے تھے. یو این رپورٹ کے مطابق تین سو کے قریب گلیشئر جھیلوں میں تبدیل ہوئے ہیں. جس میں 33 گلیشئر کو خطرناک قرار دیا گیا ہے. گلیشئر پگھلنے اور بارش کے پانی کے ساتھ شامل ہونے کے عمل کو موسمیاتی تبدیلی سے جوڑا جاتا ہے. جس کی وجہ سے پانی کی مقدار اور بہاؤ میں تیزی دیکھی گئی. 2010 اور 2022 کے سیلابوں کا موازنہ کیا جائے تو 2022 کا سیلاب حجم میں زیادہ تھا. 2010 کے سیلاب کا بہاؤ 175000 کیوسک تھا جبکہ 2022 کے سیلاب کا بہاؤ 247000 کیوسک تھا. یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2010 کے سیلاب کے بعد دریائے سوات پر مدین سے لے کر بٹخیلہ تک حفاظتی پشے باندھے گئے تھے, جس کی وجہ سے راستے میں بہت سارے گاؤں بچ گئے. پھر بھی بالائی پہاڑی علاقوں میں دریائے سوات کے کنارے بنائی گئی عمارتیں پانی کے راستے میں رکاوٹ بنی جس سے پانی کا حجم بڑھ کر آبادی والے علاقوں میں بہنے لگا. جس سے نقصان میں مزید آضافہ ہوا. حالیہ کے بارشوں اور سیلاب سے زیادہ تر ایسے لوگ متاثر ہوئے جو کچے مکانات میں رہتے ہیں. یہ بات میدانی علاقوں تک درست ہے.

لیکن پہاڑی علاقوں میں اس چیز کی تمیز نہیں کی گئی کہ مکان کچا ہے یا پکا. پہاڑی علاقوں میں ڈھلوان زیادہ ہونے کی وجہ سے پانی زیادہ قوت کے ساتھ بہتی ہے. اس لئے راستے میں آنے والی ہر چیز بہا کر لے جاتی ہے. ویسے اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں اب بھی کچے مکانات زیادہ ہیں. جو سیلاب کے زد میں آسانی سے آسکتے ہیں. یو این ہبیٹیٹ کے مطابق پاکستان میں 50 فیصد سے زیادہ لوگ کچی آبادیوں میں رہتے ہیں, جس میں دیہی پہاڑی علاقے سرفہرست ہیں. پاکستان بلعموم اور خیبر پختون خواہ بالخصوص ناکافی رہائش کی سہولیات اور صفائی کی ناقص صورتحال کے ساتھ ساتھ مناسب عوامی بیت الخلاء اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ سسٹم کی کمی ہے۔ اس سے وہ قدرتی آفات, جیسے سیلاب، طوفان، دھول اور گرمی کے اثرات, اور یہاں تک کہ تیز رفتار ہوائیں سے سے نمٹنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس طرح کے آفات ان کی صحت اور معاش کو متاثر کرتی.

[pullquote]پس منظر[/pullquote]

پہاڑ دنیا کے "واٹر ٹاورز” ہیں، جو ہمارے سیارے کو میٹھے پانی کے تمام وسائل کا 60-80% فراہم کرتے ہیں۔ دنیا کی کم از کم نصف آبادی زندہ رہنے کے لیے پہاڑی ماحولیاتی نظام کی خدمات پر انحصار کرتی ہے – نہ صرف پانی بلکہ خوراک اور صاف توانائی بھی۔ پہاڑ زمین کے 22 فیصد سطح پر محیط ہیں. جس میں دنیا کی 13 فیصد آبادی آباد ہیں. پاکستان کی کل رقبے کے 60 فیصد حصہ پہاڑوں پر مشتمل ہے. جبکہ پاکستان کے شمالی پہاڑوں میں 7253 گلیشئر موجود ہیں. اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پہاڑ ایک خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں. لیکن دوسری جانب اس سے وابستہ قدرتی آفات بھی ہیں. جس میں طوفان, بارشیں, برف باری, کم درجہ حرارت, پہاڑ میں نقل و حرکت, فرفانی تودے. لینڈ سلائیڈنگ اور اس طرح بے شمار آفات شامل ہیں.

بی بی سی کے حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں موجود گلیشئر میں سے تین ہزار پگھل کر جھیل کی صورت اختیار کر چکی ہیں. ان تین ہزار میں سے 33 کو خطرناک قرار دیئے گئے ہیں. اگر یہ 33 جھیل پھٹ کر نیچے آتے ہیں تو سات میلئن لوگ لقمہ اجل بن سکتے ہیں. جبکہ مالی نقصان اپنی جگہ. اس کا مطلب یہ ہے کہ 2022 والے بارش اور سیلاب سے خطرناک سیلاب آسکتا ہے. ایک تھیوری یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ آنے والی سردیوں میں یہ جھیل دبارہ برف میں تبدیل ہوکر ہمارے لئے محفوظ ہو جائیں گے. اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آنے والے سردیوں میں منجمد ہو جائے لیکن گرمیوں میں پھر سے پانی بن کر خطرہ بن جائے. موجودہ موسمیاتی تغیرات کے تناظر میں یہ امکان بھی ہے کہ گلیشئر کے پگھلنے کا یہ سلسلہ جاری ہے اور وقتا فوقتاً ایک یا ایک سے زیادہ گلیشئر نیچے پانی کی صورت میں آتے رہتے ہیں.

گذشتہ کئی دہائیوں میں بحرین اور کالام کے علاقوں میں پہاڑوں اور دریائے سوات کے ساتھ برتاؤ اچھا نہیں رہا. جس کی وجہ سے دو دفعہ بڑے پیمانے پر نقصان اٹھانا پڑا. ایک 2010 میں اور اس دفعہ 2022 میں. اگر 2010 کے سیلاب سے تھوڑا بہت سبق لیتے تو اس وقت 2022 میں یہ نقصان نہ ہوتا اور یا بہت کم ہوتا. اب بھی ہمارے پاس وقت ہے کہ 2022 سے سبق لے لیں اور مستقبل میں خدا نخواستہ اگر اس طرح کے حالات پیش آئیں تو ہم جانی اور مالی نقصان کس طرح کم کر سکتے ہیں.

[pullquote]کالام اور بجرین کیوں زیادہ متاثر ہوئے؟[/pullquote]

بحرین اور کالام بازاروں کی جگہ نہیں ہے. یہاں پر سبزہ ہونا چاہیئے, درخت ہونے چاہیئے. ایک خاص تعداد میں دریا سے کافی فاصلے پر ہوٹل کا ہونا ضروری ہے. لیکن یہ نہیں کہ ہر طرف ہوٹل ہی ہوٹل اور دوکانیں ہوں. اس کے علاوہ ہوٹلوں کا فضلہ ڈاریکٹ دریا میں گرایا جاتا ہے. جس سے آبی حیات کو نقصان ہونے کے ساتھ ساتھ انسانوں کی صحت کو بھی متاثر کرتا ہے. تجاوزات کو ہٹانے کے سلسلے میں کمشنر ملاکنڈ کی پریس کانفرنس سے کافی حوصلہ افزائی ہوئی ہے. اگر یہ ممکن ہوا تو اس سے جانی و مالی نقصان کافی حد تک کم ہوسکتا ہے.

اگر ہم نے 2010 اور 2022 کے سیلابوں سے سبق نہیں لیا تو مستقبل قریب میں ہمیں موجودہ سیلابوں سے زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے. ہمیں قدرتی، سماجی اور ثقافتی ورثے کی نزاکت کو سمجھ کر اپنا راستہ متعین کرنا ہے. کیوں کہ پہاڑی علاقے بہت حساس علاقے ہوتے ہیں اور خاص کر وادی سوات, جو کہ سینکڑوں گلیشئر کا مرکز ہے. وسائل کے متوازن استعمال کو برقرار رکھتے ہوئے طویل مدتی ترقی کو فروغ دینے کے لیے تمام ممالک میں پہاڑی سیاحت کے لیے ایک پائیدار نقطہ نظر ضروری ہے۔ 2010 کے سیلاب اور پھر کرونا وائرس کی وبائی مرض نے سیاحت کو بہت متاثر کیا. 2010 کے سیلاب کے بعد ہم بمشکل سمبل گئےتھے کہ کرونا وائرس کی پریشانی نے گیر لیا۔ اور عام لوگوں کو مالی طور پر بہت نقصان ہوا. ہمیں اس طرح کے حالات اور اس کے اثرات کی روشنی میں سیاحت کے شعبے کو نئی شکل دینی ہوگی اور سیاحتی اور غیر سیاحتی مقامات کو بچانے کی کوشش کرنی پڑے گی.

[pullquote]2022 کے سیلاب کے نقصانات [/pullquote]

پورے ملک کے سطح پر پاکستان کو درپیش نقصانات کی فہرست بہت لمبی ہے. صرف سوات میں 66 اموات 44 زخمی, 2336 گھر مکمل تباہ ہوئے, 3189 کو جزوی نقصان ہوا. اس کے علاوہ 517 سڑکیں, 35 ہسپتال, 13 کھیلنےکے میدان, 438 سکول, 141 پل, اور 183 آبپاشی کے کنال کو نقصان پہنچا ہے. سوات میں مجموعی طور پر 20 ارب کا نقصان ہو. اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں, ایک یہ کہ 20 ارب روپئی تو چلے گئے اور دوسرا یہ کہ اب مزید بیس ارب روپئی سے زیادہ کا رقم مذکورہ انفراسٹرکچر کو بحال کرنے کیلئے درکار ہوں گے. اور ساتھ پانچ سے دس سال لگیں گے. بہ الفاظ دیگر اس علاقے میں پانچ سے دس سال تک منافع کی شرح کم رہے گی. یہ اعدادوشمار صرف سوات کے ہیں. اس طرح باقی ملک کا اندازہ لگائیں تو بات کھربوں تک جا پہنچی گی. اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں منافع کی شرح کم از کم پانچ سال تک کم رہے گی. پاکستان ترقی پذیر ملک ہونے کے ناطے اتنے بڑے پیمانے پر نقصان کا متحمل نہیں ہو سکتا. اس لئے پاکستان کو بڑے بڑے فیصلے لینے ہوں گے. تاکہ پہاڑی اور پسماندہ علاقوں میں کی گئی سرمایہ کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے.

پہاڑی علاقوں میں زندگی گزارنے والوں اور سیاحت کی ترقی کے لیے مخصوص چیلنجوں میں صحت اور حفاظت کے مسائل کے ساتھ ساتھ بحران کا انتظام بھی شامل ہے، کیونکہ قدرتی یا انسانوں کے بنائے ہوئے خطرات جیسے سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ، زلزلے اور تنازعات مہینوں یا سالوں تک رسائی اور خدمات میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں، زمینی اثاثوں کو تباہ کر سکتے ہیں. وہاں مقیم لوگوں اور سیاحوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں.

[pullquote]سوات میں سیاحت کو نقصان [/pullquote]

پاکستان کے پہاڑی علاقے, خاص کر شمال میں واقع وادیاں نہ صرف پورے ملک میں بلکہ باہر کی دنیا میں سیاحت کے حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں. اس میں سوات کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے. یہاں کے سیاحتی مقامات اپنی قدرتی خوبصورتی، پرکشش مقامات اور بھرپور ثقافتی ورثے کی وجہ سے سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں۔ سیاحت دیہی علاقوں کیلئے کے لیے روزگار آمدنی کا ایک خوبصورت ذریعہ ہے۔ اس سے مقامی روایات اور خوراک کے نظام کو زندہ کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق سوات میں ہر سال 26 لاکھ لوگ سیر و تفریح کیلئے آتے ہیں. صرف عید کے موقع پر لاکھوں کے حساب سے سیاح سیر کیلئے شمالی علاقہ جات کا رخ کرتے ہیں. 2022 میں عید کے موقع پر 12 لاکھ لوگ سوات سیر و تفریح کیلئے آئے. جس کی وجہ سے تقریباً 3 لاکھ گاڑیاں سوات میں داخل ہوئی. 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق سوات میں تقریباً 400 ہوٹلز ہیں جو کہ گرمیوں کے موسم میں ناکافی قرار دیا جاتا ہے. سوات کے ضلعی انتظامیہ کے مطابق 37 فیصد معیشت کا دارومدار سیاحت پر ہے.

سیاحت کو معیشت کے زاویئے سے دیکھا جائے, تو یہ ایک خوش آئند بات ہے. لیکن ماحولیاتی تناظر میں نقشہ کچھ آور ہے. باقی پاکستان کی طرح سوات کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے. ساتھ ساتھ کارخانے, کرش مشین, سالیڈ ویسٹ میں آضافہ, ٹرانسپورٹ میں اضافہ ان علاقوں کے ماحول کو بری طرح متاثر کرتی ہے. اوپر سے ہوٹلوں اور ریسٹورنٹ سے پیدا شدہ فضلہ اس بگاڑ میں مزید اضافہ کرتا ہے. سوات ایک پہاڑی علاقہ ہے, اور ویسٹ ڈیسپوزل کیلئے زمین کا بندوبست آسان نہیں ہے. اس کے علاوہ جنگلات میں کمی اور پانی کی آلودگی ماحولیاتی مسائل میں مزید آضافہ کرتے ہیں.

پہاڑی سیاحت کو ترقی دینے میں ، آمدنی میں تنوع پیدا کرنا اور مصنوعات اور خدمات کو زندہ کرنا بہت ضروری ہے. جس میں زیادہ پرکشش سیاحتی مقامات, علاقائی مصنوعات اور سرگرمیوں کو کم اثر والے، آب و ہوا سے حساس ذرایع کی طرف منتقل کیا جائے۔ نئی اور جدید مراعات پہاڑی علاقوں کو پرکشش سیاحتی مقامات میں تبدیل کر سکتی ہیں. خاص طور پر کم درجہ حرارت رکھنے والے علاقوں کے لیے۔ بہت سے امکانات میں طبی سیاحت، کمیونٹی پر مبنی سیاحت، روحانی سیاحت، فلاح و بہبود کی سیاحت، دیہی سیاحت، زرعی سیاحت اور ثقافتی سیاحت شامل ہیں۔ بہت سے لوگوں نے سیاحتی اقدامات پر نظر ثانی کرنے یا نئے مواقع پیدا کرنے میں شامل کیا ہے، اور یہ سب مقامی کمیونٹیز کو ٹھوس فوائد پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ منفرد پہاڑی ورثے کے تحفظ کو بڑھانے میں مدد کرتے ہیں۔

سیاحت کا ماحولیاتی نظام پر ممکنہ طور پر منفی اثرات پر چشم پوشی نہیں کر سکتے. جیسے کہ آلودگی اور حیاتیاتی تنوع کو, خاص کر جنگلی حیات کو نقصان ہو سکتا ہے. موسمیاتی تبدیلی پہاڑی مقامات پر سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہے، جس کے اثرات میں برف کے دورانیے میں کمی اور انتہائی موسمی واقعات کے خطرے میں اضافہ شامل ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سیاحت کو ایک دوسرے زاویئے سے دیکھ کر, ایک پہاڑی علاقے کے حساسیت کو مدنظر رکھنا ضروری ہے.

[pullquote]سیلاب سے بچنے میں اداروں کا کردار[/pullquote]

اس وقت پاکستان میں پائدار سیاحت کیلئے الگ سے قومی اور صوبائی ادارے موجود ہیں. جس کا کام ٹورزم کو فروغ دینا ہے. لیکن سوات کے سیاحتی نقشے پر جب نظر ڈالتے ہیں, تو ان کا کوئی کردار نظر نہیں آتا. ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے لئے ایک الگ ڈومین بنایا ہے اور اس غیر روایتی سیاحت سے ان کا کوئی تعلق نہ ہو. دودری جانب دیکھا جائے تو ماحولیات کیلئے صوبائی اور ضلعی دفاتر موجود ہیں. ماحول اور ماحولیات سے معلق قوانین اور رولز ریگولیشنز بھی بنائے گئے ہیں. لیکن ہوٹل ور ریسٹورنٹ سے نکلنے والے فضلے پر خاموش ہیں. 2019 میں سوات کے ماحولیاتی ادارے کی طرف سے کچھ ایکشن دیکھا گیا تھا. جس میں 127 ہوٹلوں کو نوٹس دیئے گئے تھے. لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا.

اس طرح بلڈنگ اور ہاوسنگ اتھارٹی بھی موجود ہے. دریاؤں کو بچانے کیلئے 2002 سے الگ قانون بھی موجود ہے. جس کے تحت دریا کے کنارے سے دو سو فٹ کے فاصلے تک کسی قسم کا بلڈنگ بنانا جرم ہے. اس کے علاوہ اس قانون کے دوسرے شق کے مطابق دریا میں ہر قسم کی گندگی پھینکنا قانونی جرم ہے.

[pullquote]جامعات کا کردار [/pullquote]

اس وقت صوبہ خیبر پختون خواہ کے چھ جامعات میں ماحولیاتی آلودگی, موسمیاتی تغیرات سے متعلق منفی اثرات سے نمٹنے کیلئے تحقیق کے ساتھ ساتھ ماہرین بھی پیدا کر رہے ہیں.

پشاور یونیورسٹی بل عموم اور پشاور یونیورسٹی کا شعبہ ماحولیات بالخصوص پاکستان میں موسمیاتی تغیرات اور ماحولیاتی آلودگی کے کمی میں ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے. شعبہ ماحولیات 1987 سے پورے ملک, خاص کر خیبر پختون خواہ کیلئے ہر قسم کے ماہرین بنا رہے ہیں. جو سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں کام کر کے ملک وقوم کی خدمت کر رہے ہیں. پچھلے 35 برس سے شعبہ ماحولیات نے اب تک 4500 سو سے زائد تربیت یافتہ ماہرین فارغ کئے ہیں. اس وقت شعبہ ماحولیات میں چار پروگرام چل رہے ہیں. جس میں چار سالہ بی ایس, دو سالہ ماسٹر, ایم فل, اور پی ایچ ڈی شامل ہیں.

اس کے علاوہ پانچ مختلف یونیورسٹیوں سے شعبہ ماحولیات اور ماحولیاتی آلودگی کو قابو کرنے کے سلسلے میں تربیت لے رہے ہیں. جس میں جامعہ سوات, ہری پور, مردان, کوہاٹ اور شرینگل شامل ہیں. ان سب اداروں سے ہر سال اوسطاً 200 ماہر ماحولیات نکلتے ہیں.

[pullquote]حاصل گفتگو [/pullquote]

پاکستان خوبصورت وادیوں کی سرزمین ہے. جس میں پہاڑوں کا بہت اہم کردار ہے. یہ پہاڑ نہ صرف پاکستان کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہے, بلکہ ملکی معیشت میں بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہے. لیکن دیکھا جائے تو تمام پہاڑ بگاڑ کا شکار ہیں. ہم ان پہاڑوں سے درخت کاٹ رہے ہیں. جس کی وجہ سے نہ صرف موسمیاتی تغیرات کے اثرات میں شدت آتی ہے, بلکہ سیلاب بھی پرتشدد ہو رہے ہیں. ہمیں چاہیئے کہ اپنے پہاڑوں کی حفاظت کریں, اس کو مستقبل کیلئے محفوظ بنائیں. تاکہ موسمیات تغیرات کے اثرات کم سے کم سطح پر رکھے جائیں.

[pullquote]چند اہم سفارش[/pullquote]

پہاڑوں میں موسمیاتی حساسیت کے حساب سے سیاحت کو فروغ دیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ جدید اصولوں پر ایک جامع منصوبہ تیار کیا جائے.

وسائل کے بہتر انتظام کے لیے پہاڑوں میں سیاحت اور اس کے اثرات کی تواتر سے نگرانی کی جائے.

ہر ہوٹل کی زمہ داری ہونی چاہیئے کہ پیدا شدہ فضلے کو مناسب طور پر ٹھکانے لگایا جائے. اس کیلئے ضروری ہے کہ آبادی سے فاصلے پر ان کا اپنا ویسٹ ڈسپوزل پوائنٹ ہو.

سیاحت کی ترقی میں آگے بڑھنے کے لیے پہاڑوں میں مقیم لوگوں کو بااختیار بنائیں۔ اور قومی اور صوبائی قوانین کو نافذ العمل بنانے پر ان کو آمادہ کیا جسئے تاکہ یہ اپنا مثبت کردار بخوبی ادا کر سکیں.

سال بھر کی سیاحتی پیشکشوں کو جدت اور ترقی دینے کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو مضبوط کریں۔

دور دراز پہاڑی علاقوں میں انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کی جائے اور متبادل راستوں پر کام کیا جائے.
پہاڑوں کو آباد کیا جائے اور ان سے ہٹائے گئے درخت اس پر واپس لگائے جائیں.

دریاؤں سے تجاوزات ہٹائیں اور پانی کو درست طور پر اس کا راستہ دیا جائے.

ہوٹلوں سے نکلنے والے ویسٹ جمع کرنے اور ٹھکانے لگانے کیلئے باقاعدہ طور پر پروگرام شروع کیا جائے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے