ہائے ہائے مہنگائی

اسلام آباد : ماما میں نے یہ پرانا بیگ نہیں لینا سکول کے لیے، سب بچے چھٹیوں کے بعد نیا بیگ لے کر آتےہیں۔ کوئی بات نہیں بیٹا اس مرتبہ لے لو یہ بھی تو بالکل نئے جیسا ہی ہے ناں۔..

ننھا تیمور، ہوش اڑا دینے والی مہنگاہی سے بےخبر، اتوار بازار میں سستے بیگ کی تلاش میں ماری ماری پھرتی اپنی ماں کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر رہا تھا۔ جی ایٹ کی رہائشی سلمہ خود کو کوس رہی تھی کہ تیمور کو ساتھ لانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔

ماتھے سے پسینہ صاف کرتے ہوئے سلمہ نے بتایا کہ ہر سال تو ہم تیمور کے لئےنیا بیگ خرید لیتے تھے مگر اس بار بجلی کے بلوں اور مہنگائی کی وجہ سے اتوار بازار سے پرانا استعمال شدہ بیگ لینا بھی مشکل لگ رہا ہے۔ سلمہ نے بتایا کہ ان کے تین بچے ہیں ، بڑے دونوں سمجھدار ہیں اور ضد نہیں کرتے اور پرانے سکول بیگز پہ مان گئے مگر تیمور چھوٹا ہونے کی وجہ سے لاڈلا اور ضدی ہے۔

یہ کہانی صرف سلمہ کی نہیں ہے بلکے اس بازار میں گھومتے ہر شخص کی کہانی ہے جو مہنگائی اور بلوں کے گرد گھومتی ہے۔ حالیہ کمر توڑ مہنگائی نے عوام خاص طور پر عام آدمی کی زندگی کو اور بھی مشکل بنا دیا ہے۔اسلام آباد کے ہفتہ وار بازار جہاں استعمال شدہ اشیاء منا سب قیمت پر دستیاب ہوتی تھیں اب وہ بھی دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔

اسلام آباد میں واقع یہ اتوار بازار کبھی لوگوں کی غربت کی داستانوں کو اپنے وسیع سینے میں چھپا لیتے تھے آجکل خود ویرانی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ سائیں سائیں کرتی دوکانیں خریداروں کی راہ تک رہی ہیں۔ ہر طرف مہنگائی کا ایک طوفان ہے، جس میں عوام دھیرے دھیرے ڈوب رہی ہے مگر بدقسمتی سے بچانے والے سیاستدان کرسی کی لڑائی میں اتنا مصروف ہیں کہ عوام کو شائدبھول چکے ہیں۔

رہی سہی کسر پاکستان کی تاریخ کے بد ترین سیلاب اور اسکے بعد سے پیدا ہونے والی صورت حال نے پوری کر دی ہے ۔ سڑکیں پل تباہ ہو چکے ہیں اور پاکستان کو اس وقت اجناس کی رسد میں شدید کمی کا سامنا ہے اور جہاں مہنگائی کا گراف سو فیصد تک بڑھ چکا ہے، وہیں سیاستدانوں کے ہاتھوں اچھا بہانہ بھی لگ گیا ہے۔

اسلام آباد کے ہفتہ وار بازار ماضی میں ایسے مہنگائی کے طوفانوں میں گرے عوام کے لیے سکھ کا باعث ہوا کرتے تھے مگر اب وہ بھی عوام کی دسترس سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ پہلے ہفتہ وار بازار میں مناسب داموں ضرورت کی اشیاء بآسانی دستیاب ہوتی تھیں مگر اب ایسا نہیں ہے۔استعمال شدہ اشیاٰء کی قیمتیں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ اب وہ بھی خریدنے سے پہلے ہر شخص کو دو بار سوچنا پڑتا ہے، یہ کہنا تھا ایک خاتون کا جو اپنے بچوں کے لیے جوتےخریدنے آئی تھی۔ اس مہنگائی نے ہمیں آسائش اورضرورت میں فرق بہت اچھے سے سکھا دیا ہے۔ میں اور میرے شوہر ہم دونوں نوکری پیشہ ہیں مگر اب ہم دونوں کیے لیے گھر چلانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

دوسری طرف دوکاندار اپنی مجبوری کا رونا روتے نظر آرہے ہیں۔ بات کرتے ہوئے ایک دوکاندار نےبتایا کہ گاہک نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو ہیں وہ انتہائی کم نرخ پر چیزوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ہمیں لوگوں کی مشکلات کا اندازہ ہے مگر ہم خود بےبس ہیں کیونکہ ہمیں بھی اپنی دوکان کا کرایہ ادا کرنا ہوتا ہے، ایسے میں ہم اپنے لئے کچھ نہیں کر پا رہے تو ان لوگوں کے لئے کیا کریں۔

جیسا کہ معاشی ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے مہنگائی میں اضافے کا خدشہ ہے۔ ایسے میں حکومت کو عوام ریلیف دینے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا، اب مہنگائی کا سارا الزام پچھلی حکومتوں پر ڈالنے سے کام نہیں چلے گا کیونکہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو ہے جو ملک کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے