والدین کا بچوں پر تشدد اور وجوہات

بچے پھول ہیں،بچے گھر کی رونق ہیں، بچے کیا ہیں، ہمارا مستقبل ہیں مگر ایسے کیسے ممکن ہے کہ کوئی اپنے مستقبل کو اپنے ہاتھ سے آگ لگا دے؟ سوچیئے ذرا،کیا پتھر کا دل یا لوہے کا جگرا چاہیے ہوگا اپنے لخت جگر کو شعلوں کی نذر کرنے کے لئیے، حیوان بھی اپنی اولاد کو اپنے پروں میں سمیٹ کر رکھتی ہے تو کسی انسان کے لیے ایسا کرنا کیسے ممکن ہے، یقیناً تبھی جب وہ اپنے حواس میں نہ رہے۔

جب یہ خبر نظر سے گزری کہ ایک ماں نے اپنے بچے کو بے دردی سے ماراتو مانو جیسے کلیجے پہ ہاتھ پڑا ہو مگر اس کے کچھ دن بات کی خبر نے تو انسانیت سے ہی اعتبار اٹھا دیا کہ اگر بچے اپنے گھروں میں ہی محفوظ نہیں تو پھر اس معاشرے کو جنگل بننے سے کون روک سکتا ہے.

میں خود ماں ہوں، ان بچوں کی چیخیں میرے کانوں میں جیسے ابھی بھی گونج رہی ہوں۔ امی نہیں مارو نا ، ابو مجھے بچا لو ، وہی ابو جس نے اپنے خون کو شعلوں کی نظر کیا، یہ وہی امی ابوہو ں گے جنھوں نے کبھی ان معصوموں کے اس دنیا میں آنے کی خوشی میں مٹھائی بانٹی ہو گی۔

پہلے واقع میں والدہ نے بچے کو اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا کہ بچے کا سارہ جسم نیل نیل ہو گیا۔ بات سوشل میڈیا سے آگے پہنچی، پولیس نے والدہ کو حراست میں لیا۔ والدہ نے دوران تفتیش بتایا کہ بچے کو پڑھائی کے معاملے میں مارا جو کہ سراسر تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔

اسی طرح کے دوسرے واقعے میں ایک باپ نے اپنے بیٹے کو جلا کر موت کے منہ میں پہنچا دیا، اس نے بھی دوران تفتیش یہی بتایا کہ پڑھائی کے معاملے میں غصے میں آ کربچے کو ڈرانے کے لیے آگ لگائی،مقصد بچے کی جان لینا ہرگز نہیں تھا مگر بدقسمتی سے بچے کی موت واقع ہوگئی۔

ان دونوں واقعات میں اگر کچھ مشترک ہے وہ نفسیاتی پہلو ہے جو کہ ہرگزنظر اندازنہیں کیا جا سکتا ۔کوئی بھی نارمل انسان اپنی اولاد تو کجا کسی غیر کے ساتھ بھی ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس پہلو کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ ان دونوں واقعات میں ملوث افراد یقینا کسی نہ کسی ذہنی مسلئے کا شکار ہوں گئے۔ یہ دن بدن بڑھتے واقعات ہمارے معاشرے میں خاموشی سے بڑھتے ہوئے ذہنی اور نفسیاتی مسائل کی جانب اشارہ کرتے ہیں جو ہمارے معاشرے میں پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ بد قسمتی سے پاکستان میں ذہنی بیماری کو کبھی بھی بیماری نہیں سمجھا گیا تو اس کے تدارک کے لیے اقدامات کی تو بات ہی نہ کیجیے۔

توسوال یہ ہے کہ وہ کیا محرکات، وجوہات ہیں جن کی بدولت سگے ماں باپ ہی اپنی اولاد کی جان کے دشمن بن جایئں، ماہرنفسیات ثناء گل کے مطابق ذہنی امراض دو طرح کی ہوتے ہیں ایک نیوروس اور دوسری سایئکوسس۔

[pullquote]پہلی قسم نیوروسس [/pullquote]

پہلی قسم نیوروسس کا تعلق ذہنی دباؤ ڈیپرشن اور انگزایئٹی سے ہوتا ہے۔ اس میں مبتلاٰء افراد کی اوریئنٹیشن ٹھیک ہوتی ہے، یعنی وہ اپنے حواسوں میں ہوتے ہیں۔

[pullquote]دوسری قسم سایئکوسس [/pullquote]

جب کہ سایئکوسس کا تعلق شدید نوعیت کے ذہنی مسائل اور امراض سے متعلق ہوتا ہے اور اس میں مبتلاء افراداپنے حواس کھو دیتے ہیں۔ اور اسی دوران اس قسم کے واقعات جنم لیتے ہیں۔

ماہر نفسیات ثناء گل کے مطابق نیوروسس اور سایئکوسس کے درمیان فاصلہ بہت کم ہوتا ہے یعنی اگر آغاز میں ہی کسی شخص میں موجود نیوروسس کی علامات کو نہ بھانپا جائے اور حد سے ذیادہ غصے کو قابو نہ کیا تو یہ ممکن ہے کہ جلد ہی وہ شحص سائیکوسس کے دائرے میں آجایئں،فرض کیجیے برداشت ایک بوتل کی مانند ہے اور غصہ ایک تیزاب کی طرح ، اگر آپ اپنا غصہ (تیزاب) اس برداشت کی بوتل میں انڈیلے جایئں گیں اور خالی نہیں کریں گیں تو کیا ہو گا بوتل بلاآخر پھٹ جائے گی۔

[pullquote] حل کیا ہے؟؟؟[/pullquote]

ماہر نفسیات ثناء گل کے مطابق اسکا حل مستند ماہر نفسیات سے تھیراپی کروانا ہے۔ نیوروسس کی علامات میں مبتلاء مریض کی ذہنی حالت کا اندازہ لگائیں کسی اچھے ماہر نفسیات سے رابطہ کریں۔ مگر بد قسمتی سے پاکستان میں ذہنی صحت کے حوالے سے سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں ، پاکستان میں جہاں دیگربنیادی طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہے وہاں ذہنی صحت سے متعلق کیا صورت حال ہو گی اسکا اندازہ لگانا مشکل نہیں .

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں ہر ایک لاکھ ذہنی مریضوں کے لیے 19�۔0 ماہرذہنی امراض دستیاب ہیں۔ اور دو کروڑ افراد کسی نہ کسی قسم کی ذہنی امراض میں مبتلاء ہیں. یہ تعداد ہماری آبادی کا تقریبا دس فیصد حصہ بنتا ہے، جو کہ ایک انتہائی خطرناک صورت حال ہے۔ اس وقت پاکستان میں ذہنی امراض سے متعلق پانچ ہسپتال ہیں اور اس طرح ہر دس ہزار ذہنی امراض میں مبتلاء افراد کی لیےصرف9۔1 بیڈ دستیاب ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے