سیلاب کے بعد معاشی بد حالی اور خوف و ہراس

سیلاب کا پانی اترا تو اپنے ساتھ ان گنت مشکلات کے ساتھ ساتھ خوف بھی چھوڑ گیا۔ کچے گھروں کی ٹوٹی دیواریں ، اجڑے کھیت اور ویران دلدلی سڑکیں اب سیلاب زدگان کی منتظر ہیں۔حالیہ سیلاب کی وجہ سے متاثرین نہ صرف معاشی لحاظ سے تباہ ہوئے ہیں بلکہ خوف و ہراس میں بھی مبتلا ہیں ۔ فصلیں تباہ ہو چکی ہیں ، مویشی بہہ گئے ہیں اور کوئی ذریعہ معاش بھی نہیں ہے۔

جون کے وسط سے پاکستان شدید بارشوں کی زد میں رہا اور ملک کے بیشتر حصوں میں ریکارڈ بارشیں ہوئیں .ملک بھر میں بدترین سیلاب آئے اور وسیع تر تباہی ہوئی. سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مون سون کی شدید بارشوں اور سیلاب سے 33 ملین سے زاہد افراد متاثر ہوئے جن میں تقریبا 34 لاکھ بچے شامل ہیں . پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک نے موسمی اثرات سے نمٹنے کے لئے بہت کم کام کیا ، جو بہت سی تباہ کاریوں کا پیش خیمہ بنا اور پہلے سے مہنگائی کی چکی میں پسنے والے افراد کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا.امدادی ٹیمیں، ملکی اور غیر ملکی ادارے دن رات ان متاثرین کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں۔ لیکن مشکل سے ابھی تک ان کے کھانے پینے اور خیموں کا انتظام ہی ہو رہا ہے۔ متاثرین کی اتنی بڑی تعداد ہے اور وہ بھی بے سروسامان، ان کے کھانے پینے کا انتظام بھی ایک مشکل مرحلہ ہے۔ ابھی بھی بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں پانی کھڑا ہے۔ امدادی ٹیموں کی طرف سے سیلاب زدگان کو کھانا بھی مل رہا ہے اور پینے کو صاف پانی بھی، سر چھپانے کو خیمہ بھی ، جس میں رکھیں ایک چارپائی پر بیٹھا پورا خاندان ہر وقت کسی کی مدد کا منتظر رہتا ہے۔

ایک غریب آدمی ساری زندگی میں ایک یا دو کمرے بناتا ہے اور دو وقت کا کھانا کھا کر سکون کی نیند سوتا ہے پر اب وہ بھی میسر نہیں ہے۔ ان میں زیادہ تر لوگ مویشی پال کر گزارا کرتے تھے یا پھر کھیتی باڑی کے کام سے منسلک تھے. اب جبکہ کہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے سب کچھ تباہ ہو چکا ہے تو انہیں دوبارہ اپنی زندگی شروع کرنے کے لئے یے بھی رقم کی ضرورت ہے . اگر فنڈز ہو بھی تو ان کی بحالی کے لیے لمبا عرصہ درکار ہوگا. ایسے میں ان کے لیے صحت کے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا .چادر اور چار دیواری میں رہنے والی عورتیں اب بے سروسامان اپنے خیموں میں بیٹھی رہتی ہیں۔ یہاں نہ تو ان کے لیے تحفظ کا احساس ہے اور نہ ہی اپنے گھروں میں چین اور بے فکری سے سونے کے مزے۔ ان میں حاملہ اور دودھ پلانے والی مائیں بھی شامل ہیں جن کو زیادہ اور صحت بخش خوراک کی ضرورت ہے .

ان میں بیشتر خواتین ایسی بھی ہیں جو کہ کھیتی باڑی کرتی تھی یا کپاس کی فصل تیار ہونے کے بعد نرم پھول یعنی روہی کی چنائی کا کام کرتی تھی. اب جب کہ فصل تیار تھی تو حالیہ بارشوں اور ان کے بعد آنے والے سیلاب نے ان کسان خواتین کی امیدوں پر پانی پھیر دیا .ہزاروں وعدے ہیں ۔گھر بسا کے دینے کے ،لیکن پھر بھی نا امیدی ہے ،حسرت ہے،اور ساتھ ساتھ آنے والے سر د دنوں کا خوف بھی ۔ سردی دھیرے دھیرے بڑھہ رہی ہے اور خوف بھی. کیا آنے والے دنوں میں ان کے رہنے کا کوئی انتظام ہو سکے گا .کیااتنی جلدی ان کی بحالی ممکن ہوگی .

چلو کہ پھر سے کچھ ہمت جمع کریں چلو کہ کچھ سوچیں کے کہ کیا کرنا ہے ہے اور کیسے کرنا ہے کہاں سے شروع کرنا ہے .بچوں کی ویران آنکھوں میں آئے بے شمار سوالوں کے جواب بھی تو دینے ہیں۔ جو اب سکون سے سوتے نہیں ہیں کہ کہیں پھر سے پانی تو نہیں آ جائے گا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے