پسنی میں کشتی سازی کی صنعت زوال کا شکار

32سالہ جہانگیر اپنے چار مزدروں کے ساتھ ایک کشتی کے زیر آب پر کام کررہا تھا، انکے مطابق اس کشتی کو بنانے کا ٹھیکہ میں نے 30 لاکھ میں لیاہے، اور میں اپنے مزدوروں کے ساتھ مل کراسکو پانچ سے چھ ماہ تک مکمل کرتا ہوں۔

جہانگیر کےمطابق کشتی سازی کا ہنر اسکو وراثت میں ملا ہے اور میرے آبا و اجداد اسی کام سے منسلک رہے ہیں اور بچپن سے میں یہ کام کرتا آرہا ہوں۔ انہوں نے آئی بی سی اردو کو بتایا کہ پسنی میں اب کشتی سازی کی صنعت زوال پزیر کا شکار ہے۔ ماضی میں روایتی طور پر کشتی سازی کے پانچ کارخانے تھے اب صرف میرا کارخانہ رہ گیا۔ انہوں نے زیر تعمیر کشتی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کشتی پسنی سے ایک سو ساٹھ کلومیٹر دور اورماڑہ کا ایک ماہی گیر نے ٹھیکے پر دیا اور اسکو مکمل ہونے میں پانچ سے چھ ماہ لگتے ہیں۔

45 سالہ جماعت جو گزشتہ 25 سالوں سے کشتی سازی کے صنعت سے منسلک ہے۔ انہوں نے بتاتے ہوئے کہا کہ میں یومیہ دیہاڑی پر کام کرتا ہوں مجھے روزانہ پندرہ سو کے قریب ملتا ہے۔مہنگائی سےپریشان جماعت کے چہرے پر جھریوں کے نشانات واضح نظر آرہے تھے۔

کشتی سازی کے بارے میں جماعت کا کہنا تھا کہ چھوٹی کشتیوں کے لئے وہ مقامی جنگلات سے لکڑی حاصل کرتے ہیں اور پسنی میں لا کر اسکو تراشتے ہیں۔ لکڑی مہنگی ہونے کی وجہ سے اب کشتیاں بھی مہنگے داموں تیار ہوتیں ہیں۔ جماعت کے مطابق لکڑی کا وہ حصہ جو پانی کے اندر ہوتا ہے اسکے لئے مضبوط اور مہنگی لکڑی کا استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ کشتی کی مضبوطی کا دارومدار ( زیر آب) پر ہوتا ہے، جماعت کے مطابق زیر آب کے لئے جو لکڑی استعمال کی جاتی ہے اس کو مقامی زبان میں -شاگ- کہا جاتا ہے، لکڑی کی یہ قسم دوسرے لکڑیوں سے کئی گنا مضبوط ہوتی ہے اور یہ لکڑی برما یا موجودہ میانمار سے درآمد کی جاتی ہے اور افریقہ سے بھی یہ لکڑی منگوائی جاتی ہے۔ کافی مہنگی ہونے کی وجہ سے اب اس کا استعمال کم ہوتا جارہا ہے۔ جہانگیر اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ شاگ ایک مضبوط لکڑی ہے مگر کافی مہنگی ہے اب صرف بڑے لانچوں کی زیر آب کے لئے شاگ کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ چھوٹی کشتیوں کے لئے اسکا استعمال نہیں کیا جارہا ہے۔

گزشتہ دس سالوں میں لکڑی تراشنے کا کام کرنےوالے وقار بلوچ کہتے ہیں کہ جب سے میں نےہوش سنبھالا یہی کام کررہاہوں، انکے مطابق دنیا کے دیگر ممالک میں کشتی سازی کی صنعت میں جدت آئی ہے مگر پسنی میں اب ہم رویتی طریقے کشتی سازی کا کام کرتے آرہے ہیں۔ ہم بھی ہتھوڑے اور آری اور عام مشین کے ساتھ لکڑے تراشتے ہیں۔

پچاس سالہ اکبر جو گزشتہ تیس سالوں سے کشتی سازی کا کام کررہا ہے انکے مطابق ماضی کے مطابق اب اس صنعت میں رونق نہیں رہی ہے کیونکہ اب اس پیشے سے لوگ کنارہ کش ہوکر دوسرے پیشے کی طرف جارہے ہیں۔

جبکہ ایک ٹھیکہ دار کے مطابق اب پسنی میں صرف میرا کشتی سازی کا صنعت باقی رہ گئی ہے۔ وجوہات بیان کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ پسنی فش ہاربرکی بندش سے اب پسنی کشتیوں کو لنگرانداز کرنے میں غیر محفوظ ہے، جبکہ ہمارے پاس کشتی سازی کے لئے مناسب جگہ بھی نہیں ہے انکے مطابق گوادر میں دیمی زر میں بلکل ساحل کنارے کشتی سازی کی صنعت قائم ہے جبکہ پسنی میں ہم جہاں کشتی بنارہے ہیں وہ ساحل سے تھوڑا دور ہے۔انکے مطابق بڑے کشتیوں کو تیار کرنے کے بعد کرین کے ذریعے ساحل پر اتارا جاتا ہے اور پسنی میں چونکہ بڑی کرین موجود نہیں ہے اس لئے ہمارے لئے مشکل کام ہے کہ ہم بڑی کشتیاں تعمیر کریں۔

کشتی سازی کے صنعت سے منسلک لوگوں کا کہنا ہے کہ پَسِّنی میں کشتی سازی کے لئے موجودہ جگہ بھی مناسب نہیں چونکہ یہ پوائنٹ ساحل سے تھوڑا دور ہے اور تیار شدہ کشتی کو ساحل میں اتارنے کے لئے بڑی کرین کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ پَسِّنی میں دستْیاب نہیں ہے۔ ایک ٹھیکہ دار جہانگیر کے مطابق چونکہ پَسِّنی فش ھاربر عدم ڈریجنگ کی وجہ سے بند ہے اس لئے پَسِّنی میں ماہی گیری کی صنعت بھی متاثر ہے اور اب ماہی گیر بڑی کشتیاں بنانے کے لئے گْوادر پدی زر کا رخ کرتے ہیں جہاں کشتیاں ساحل کے قریب بنائے جاتے ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق بلوچستان میں سات سے آٹھ ہزار چھوٹی اور بڑی کشتیاں رجسٹرڈ ہیں اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں ماہی گیری کرتے ہیں اور ان میں سینکڑوں کی تعداد میں کشتیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر ناکارہ ہیں۔

دوسری جانب سے ایران سے فائبر بوٹ لائے جارہے ہیں جس سے چھوٹی کشتیوں کی ڈیمانڈ میں کمی ہورہی ہے کیونکہ فائبر بوٹ قیمت میں سستا ہونے کے ساتھ اسکو ساحل سے سمَنْدر تک لے جانے میں آسانی ہوتی ہے اور کسی بھی ناگہانی طوفان کی صورت میں اسکو آسانی سے ساحل پر لنگر انداز کیا جاسکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے