اقلیتی برادری کی ایوان بالا میں نمائندگی بڑھانے کے لئے جدوجہد

پاکستان کی اقلیتوں کے بنیادی مسائل اور انکے حل کے لئے ایک اہم پہلو غیر مسلم نمائندوں کی سیاسی وابستگیوں کو بالا تر رکھتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کی حکمت عملی ترتیب دینا ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہو گا کہ انکے نمائندے اسمبلیوں میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی درست ترجمانی کر سکیں۔

ایسے میں یہ اہم سوال ہے کہ کیا اقلیتی برادری مشترکہ رائے دہندگان کے نظام سے مطمئن ہے یا مذہبی اقلیتیں جد اگانہ طریق انتخاب کو بہتر قرار دیتی ہیں؟

آئین پاکستان کی دفعہ 51 کے مطابق قومی اسمبلی میں غیر مسلموں کے لئے دس نشستیں مخصوص کی گئی ہیں۔ اس شق کی مزید وضاحت کے لئے آئین میں لکھا گیا ہے کہ "قومی اسمبلی میں نشستیں سرکاری طور پر شائع شدہ آخری مردم شماری کے مطابق آبادی کی بنیاد پر ہر صوبے، وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات اور وفاقی دارالحکومت کے لئے متعین کی جائیں گی”۔

پاکستان کے انتخابی نظام کے حوالے سےاقلیتی برادری کی جانب سے اٹھایا گیا اہم موضوع انتخابی طریقہ کار ہے جس میں مشترکہ رائے دہند گان نظام اور جداگانہ انتخابی نظام زیر بحث رہتا ہے۔مذہبی اقلیتوں کے لئے دونوں انتخابی نظام کب اور کیسے رائج ہوئے؟ زیر نظر رپورٹ میں اس پر بحث کی گئی ہے۔

عام انتخابات کی بات کریں تو 7 دسمبر 1970 ء کے انتخابات ایک ووٹ کی بنیاد پر ہوئے۔ ایک ووٹ سے مراد مشترکہ انتخابی نظام، جس میں مسلم امیدوار اور غیر مسلم امیدوار کو حلقے میں ایک ہی بیلٹ پیپر کے ذریعے منتخب کرنا ہے۔ اس انتخاب میں صوبائی اسمبلی سے رانا چندر سنگھ اور قومی اسمبلی کے لئے راجہ تری دیو کے علاوہ کوئی اقلیتی امیدوار انتخاب نہ جیت سکا تھا۔

21نومبر 1975ء کو آئین میں چوتھی ترمیم کے ذریعے اقلیتی برادری کے لئے قومی اسمبلی میں 6 نشستیں مختص کی گئیں۔ عام انتخابات 1977ء میں ان مخصوص نشستوں پر 4 مسیحی، ایک ہندو اور ایک پارسی ممبران قومی اسمبلی بنے۔
1970ء اور 77 کے عام انتخابات مشترکہ انتخابی نظام کے تحت ہوئے جبکہ جنرل ضیا الحق نے مارشل لا کے نفاذ کے بعد جداگانہ انتخابات کا نظام رائج کیا۔

جد اگانہ طریقہ انتخاب میں مسلم امیدواروں کے ساتھ ساتھ مذہبی اقلیتوں کے امیدوار بھی اپنے حلقوں میں بطور امیدوار حصہ لیتے تھے اور اقلیتی برادری کی بھی الگ سے ووٹر لسٹ تیار ہوتی تھی۔

1985 سے 1997ء پانچ جنرل الیکشنز میں ووٹزر مسلم اور غیر مسلم میں تقسیم ہوگئے جس میں مذہبی اقلیتیں اپنے نمائندے کا انتخاب اپنی مرضی سے کرتے تھے ۔

مذہبی اقلیتوں کے لئے ایک بار پھر 30 سال کے بعد الیکٹرول سسٹم تبدیل ہوا، جب سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے مذہبی اقلیتی برادری کے لئے 2000 میں ایک بار پھر مشترکہ انتخابی نظام متعارف کروایا ۔

"ون بیلٹ ” سے مراد اقلیتی برادری الگ سے اپنے کسی امیدوار کو ووٹ کاسٹ نہیں کرے گئی بلکہ الیکشن کمشین کی طرف سے دئے گئے سفید اور سبز رنگ کے بلیٹ پیپر میں سے سفید قومی اسمبلی کے امیدوار جبکہ سبز رنگ کے بلیٹ پیپر کو اپنے ہی حلقے ایم پی اے کے انتخاب کے لئے کاسٹ کرے گیں۔

مذہبی اقلیتوں نے اس انتخابی سسٹم پر اپنے تحفظات کا اظہار کیاکہ مشترکہ رائے دہندگان کا نظام "مسلم سیاسی جماعتوں کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کو اپنے پسندیدہ اقلیتی رہنماؤں کے انتخاب کے ذریعے اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں پر لے کر آئیں۔

جس میں اہم نقطہ یہ ہےکہ اس میں اکثر مالی پیش کش کی بدولت نمائندگی کا حق حاصل کرتے ہیں جو کہ اقلیتی برادری کے ساتھ زیادتی ہے۔

جدوجہد میں گزرے سال

مذہبی اقلیتوں کی انتخابی جدوجہد کا جائزہ لیں توقیام پاکستان کے بعد 1951ء میں پنجاب کے صوبائی انتخابات میں چودھری چندو لعل منتخب ہو کر ڈپٹی سپیکر بنے، جبکہ بی ایل رلیا رام ،مسز ایس پی سنگھا، فضل الہی اراکین پنجاب اسمبلی رہے۔

اپریل 1952 میں اسمبلی نے نئے انتخابی قانون کو بالغ رائے دہی کی بنیاد اور اقلیتوں جن میں ہندو، بدھوں اور مسیحیوں کیلئے جداگانہ انتخابات کو آئینی تحفظ دیا گیا۔

جداگانہ انتخابات جن کا آغاز 1909ء کی منٹو مارلے اصلاحات سے ہوا تھا نو آبادیاتی حکمرانوں کیلئے عوام کو ہندوؤں، مسلمانوں، پارسیوں اور بدھ مت کے پیروکاروں میں تقسیم کرنا تھا۔

جس کے تحت مذہبی اقلیتیں اپنے اپنے مذہب کے مخصوص حلقوں ہی میں الگ الگ ووٹ ڈال سکتی تھیں۔

انگریزوں نے اس نظا م کو 1919ء کی اصلاحات میں مزید فروغ دیا اور 1935ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ میں بھی نہ صرف ان نظام کو برقرار رکھا بلکہ مذہبی تقسیم کو مزید فروغ دیا۔

رکن قومی اسمبلی اور بانی ہندو کونسل ڈاکٹر رمیش کمار نے انٹرویو میں بتایا کہ سندھ میں ہندو برادری میں تو اضافہ ہو رہا ہے تو اس لحاظ سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ہماری مخصوص نشستوں میں اضافہ ہو نا چاہے۔

ہم جنرل الیکشن میں مشترکہ رائے دہندگان کے طریقہ کار سے مطمئن ہیں مگر قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے طریقہ کار سے ملک کے جمہوری اداروں کو ہمیں مطمئن کرنا چاہیے۔ قانون کے مطابق ملازمتوں میں اقلیتوں کے لئے 5 فیصد کوٹہ مختص کیا گیا ہے اس قانون کا اطلاق اب اسمبلیوں میں نمائندگی پر بھی جانا چاہیے۔

اگر ایسا ہو جائے تو اس وقت قومی اسمبلی میں جنرل نشستوں کی تعداد 272 ہے اگر 5 فیصد کوٹے کا حساب لگایا جائے تو قومی اسمبلی میں اقلیتوں کی مخصوص نشستیں 10سے بڑھ کر 14 ہو جائے گی۔ اس نقطے کو لے کر قومی اسمبلی میں نے بل بھی پیش کیا گیا ہے تاکہ مذہبی اقلیتیں اپنے اپنے مسلک کے لوگوں کے مسائل اسمبلی میں اور موثر طریقے سے پیش کر سکیں۔

اسطرح چاروں صوبائی اسمبلیوں میں بھی 5 فیصد کے تناسب سے اقلیتوں کی نشستوں کی تعداد بڑھ سکتیں ہیں۔ دوسرا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر آنے والے ممبران کے نام سیاسی جماعتوں کی طرف سے نامزد نہیں ہونے چاہیے بلکہ ایک انتخابی عمل کے تحت آنے چاہیے۔ جنرل الیکشن میں ہر حلقے میں تمام ووٹر ایک رنگین بلٹ پیپر پر اقلیتی امیدوار کو بھی ووٹ کاسٹ کرے۔

اگرچہ یہ آبادی کے تناسب کو دیکھتے ہوئے تمام حلقوں میں ہونا ممکن نہیں مگر جن حلقوں میں اقلیتی برادری کا کی تعداد زیادہ ہے ان حلقوں میں اسی ایک تجربے کے طور پر کیا جا سکتا ہے۔ مخصوص نشستوں کی تقسیم کا تناسب صوبوں میں آبادی کے تناسب یا رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد پر کیا جا سکتا ہے۔ آبادی کے تناسب سے کیا جائے تو 3 لاکھ کی آبادی پر ایک ممبر ہونا چاہیے۔

مارشل لاء کے ادوار میں مذہبی اقلیتوں کے بدلتے قوانین

جنرل ایوب خان نے فروری 1960ء میں پاکستان میں ایک آئینی کمیشن مقرر کیا۔ اس کمیشن نے ایک مشترکہ اور جداگانہ رائے دہندگان کے ایشو پر سوال نامے کے ذریعے تمام اسٹیک ہولڈرز کو کمیشن کاحصہ بنایا۔ کمیشن رپورٹ میں 55.1 فیصد نے اقلیتوں کیلئے کوئی بھی نشست مقرر کرنے کے بغیر مخلوط طریقہ انتخابات کی حمایت کی جب کہ 2.9 فیصد مخلوط طریقہ انتخاب اور کچھ نشستیں اقلیتوں کیلئے مختص کرنے کے حق میں تھے۔

مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں مشترک رائے دہندگان 0.2 فیصد کے تناسب سے کروانے کے لئے جداگانہ انتخابات کے حق میں تھے۔ دوسری طرف 40.2 فیصد عوام پورے ملک میں جداگانہ رائے دہندگان چاہتے تھے جب کہ 0.9 فیصد اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستیں اور جداگانہ رائے دہندگان کا مطالبہ کر رہے تھے جبکہ 0.7 فیصد اقلیتوں کو کوئی بھی حق دینے کی حمایت میں نہیں تھے۔

مشرقی اور مغربی پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے مشترکہ اور جداگانہ رائے دہندگان کا مطالبہ کرنے کی اوسطاً شرح میں تناسب تھا۔

جنرل ضیاء الحق دور 1947ء سے 1956ء تک پاکستان کے آئین کی ترتیب و تدوین کا دور رہا۔

آئین جمہوریہ پاکستان 1956ء میں طریق انتخاب مخلوط یا جد اگانہ کے بارے میں کوئی واضح فیصلہ نہ ہو سکا۔

جب حسین شہید سہروردی وزیر اعظم پاکستان بنے تومسیحی نمائندوں مسٹر سی ای گبن،مسٹر ایس پی سنگھا اور چودھری چندولال نے مخلوط طریق انتخاب لے خلاف رٹ درخواست دائر کی جس کی پیروی پاکستان میں مشہور قانون دان اے کے بروہی نے کی۔

1970ء میں چیف مارشل لاء انڈمنسٹر یٹر اور صدر پاکستان نے اپنے لیگل فریم آرڈر کے تحت”ون مین ون ووٹ” کی بنیاد پر مخلوط طریق انتخاب نے ذریعے 1970ء میں عام انتخابات کرائے اس انتخاب میں کوئی مسیحی نمائندہ منتخب نہ ہو سکا۔

1985ء میں جنرل ضیاء الحق نے اپنے لیگل فریم آرڈر کے تحت غیر جماعتی بنیادوں پر جداگانہ طریق انتخاب کے ذریعے 1970ء میں عام انتخابات کرائے اس انتخاب میں مسیحی نمائندہ منتخب نہ ہو سکا.ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی بھی شامل ہے نے ان انتخابات میں حصہ نہ لیا۔

تاہم صدر جنرل ضیاء الحق نے اپنے صدارتی فرمان نمبر16مجریہ1985ء کے تحت اقلیتوں کیلئے قومی اسمبلی کیلئے 10نشستیں مختص کیں،جن میں 4مسیحی،4ہندو،پارسی اور سکھ برادریوں کیلئے مشترکہ طور پر 1اور قادیانیوں کیلئے1نشست مختص کر دیں۔

مذہبی اقلیتوں کے لئے تبدیلی کا ایک اور دور کا آغازبھٹو دور میں 1973ء کے آئین کی وجہ سے مذہبی جماعتیں خوش تھیں آئین کے آرٹیکل2میں پاکستان میں اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دینے سے ہوا۔

جداگانہ انتخابات کا مطالبہ اس وقت تک بہت مضبو ط اور غور طلب مطالبہ تھا جب تک مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان ایک تھے۔

1973ء کے آئین کی تشکیل کے وقت” جداگاانہ انتخاب "اپنی اہمیت کھو چکا تھا کیونکہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے جو کہ الگ ریاست بنگلہ دیش بن چکا تھا۔

جد اگانہ انتخابات کا سلسلہ مغربی پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں اپنا مقام کھو چکا تھا۔کیونکہ مغربی پاکستان میں غیر مسلم آبادی تقریباٍ پانچ فیصد سے بھی کم تھی جن میں آدھے ہندو تھے۔

7 مارچ 1976ء کو الیکشن کمیشن نے ملک میں الیکشن کا اعلان کیا اور مخصوص نشستوں کیلئے انتخابات کا اعلان31مار چ کو گیا گیا، یہ وہ الیکشن تھا جس میں پیپلزپارٹی نے قومی اور صو بائی اسمبلی میں دو تہائی کی اکثریت حاصل تھی۔

اس الیکشن میں جن اقلیتی ممبران کا پیپلز پارٹی کے ساتھ تعلق تھا انہوں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے اور ان کو 28مارچ کو بلا مقابلہ چھ ممبران منتخب کر لیے گئے۔

خیبر پختو خوا اسمبلی سے تعلق رکھنےو الے ایم پی اے رنجیت سنگھ نے آئی بی سی کو انٹرویو میں کہا کہ انکی کمیونٹی کےلئے جد اگاانہ طریقہ انتخاب بہترین ہے تاکہ اہم اپنی مرضی سے اپنے نمائندے کا انتخاب کر سکیں۔

رنجیت سنگھ

اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر ہونے کی وجہ سے بیت سے معاملات میں ہم اپنے مسائل پیش نہیں کر سکتے۔ماضی کی بات آپ سے کروں تو مخصوص نشستوں پر آنے والے ممبران نے جب فنڈز کی بات کی تو ہمیں یہی کہا گیا کہ آپ مخصوص نشستوں پر ہیں آپ کا کوئی مخصوص حلقہ نہیں جس پر فنڈز استعمال کریں گے۔

یہ نہ صرف ہمارے ساتھ ہے بلکہ مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی خواتین بھی ایسے مسائل کا شکار ہیں۔ہم دوہرے ووٹنگ سسٹم کے حق میں ہیں تاکہ ہمارے مسلم بھائی بھی ہمیں عام انتخابات میں اپنے حلقے میں ووٹ دے سکیں۔

رنجیت سنگھ پہلی بار جمعیت علماء اسلام ف کی مخصوص نشست پر رکن کے پی کے اسمبلی منتخب ہوئے ہی۔

تحریک انصاف کے ایم این اے جے پرکاش نے آئی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مشرف دور سے پہلے عام انتخابات میں مذہبی اقلیتوں کی الگ سے ووٹر لسٹیں تیار ہوتی تھیں جس سے ہمیں علم تھا کہ حلقے میں کتنے ووٹ خواتین کے ہیں اور کتنے ووٹ مردوں کے ہیں۔

تحریک انصاف کے ایم این اے جے پرکاش

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس انتخابی نظام سے مطمئن ہیں کیونکہ یہ انتخابی نظام برابری کی بنیاد پر ہوتا ہےاس سےکوئی خاص فرق نہیں پڑتا کہ حلقے میں کتنے ووٹ مذہبی اقلیتوں کے ہیں ۔الیکشن ایکٹ کی اس شق پر کہ حلقوں میں اقلیتی برادری کے خواتین اور مردوں کی ووٹوں کی بھی درج ہونی چاہے یہ ایک اچھا اقدام ہے۔

سندھ سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے ایم این اے کھیل داس نے موقف دیتے ہوئے کہا کہ 2017ء کی مردم شماری کے اعدادوشمار میں بھی اقلیتوں کی آبادی میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں دیکھنے میں آیا۔

سندھ سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے ایم این اے کھیل داس

اس معاملے میں حکومت کو چاہیے کہ ان بینادی کاموں پر اداروں کی توجہ مرکوز کرے کیونکہ آبادی کے تناسب سے ہی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔

سندھ کے دو اضلاع جس میں عمر کوٹ اور تھرپارکر سے انتخابات میں جنرل نشستوں پر بھی امیدوار کامیاب ہو کر اسمبلی کا حصہ بنتے ہیں کیونکہ ان اضلاع میں اقلیتوں کی آبادی 50 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔

مزدور افراد اور ٹرانس جنیڈر کے شناختی کارڈ نہ ہونا ایک اہم مسئلہ تو ہے مگر اس کی ایک وجہ عوام کا تعلیم یافتہ نہ ہونا شامل ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ دیہی علاقوں میں مسلم اور اقلیی شہریوں کو اس بات کا شعور نہیں ہوتا کہ فیملی سرٹیفکیٹ کیا ہے۔

مشترکہ رائے دہندگی نظام اور جد اگانہ طریقہ انتخاب میں سے کون سا بہتر ہے اس پر اراکین اسمبلی کی طرف سے کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا مگر ایک اہم نقطہ جس پر حکومت کو ضرور سوچنا چاہیے کہ مذہبی اقلیتیں پاکستان کے مختلف حصوں میں آباد ہیں جن میں انکی اکثریت ریادہ ہے وہاں برابری کی سطح پر سیاسی نمائندگی بھی ملنی چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے