بھاگ صدف اور بھاگ !

صدف بھی انسان ہے آخر کتنا بھاگتی۔ہوش سنبھالا تو بھاگنا شروع کیا۔باپ کی آواز پر بھاگی،ماں کو پانی پلانے کیلئے بھاگی۔تھوڑی بڑی ہوئی تو سکول کیلئے ویگن کے پیچھے بھاگی،رکشے والے کی شیطانی نگاہوں سے خوفزدہ ہو کر سہیلیوں کی طرف بھاگی۔کالج گئی تو اپنا مستقبل سنوارنے کیلئے بھاگتی رہی۔والدین،بہن بھائیوں کو پالنے کیلئے پوری رفتار سے بھاگنا شروع کیا۔شادی ہوگئی۔غریب لڑکیوں کو زندگی کے ساتھی بھی غریب ہی ملتے ہیں۔

غریب زادیوں کو امیرزادے محبت کے نام پر صرف بدنام کرتے ہیں۔سچی محبتیں تو صرف فلموں اور ڈراموں میں ملتی ہیں۔سٹیٹس کی سٹیٹس سے شادی ہوتی ہے۔صدف کو محبت کرنیوالا خاوند مل گیا۔پھر بچے ہوگئے اور نئی بھاگ دوڑ شروع ہوگئی۔ایک کیمرہ مین چہروں کی مسکراہٹیں محفوظ کرتا اپنی مسکراہٹ بھول گیا۔بیوی صحافت کے نام پر ایک بیگار کیمپ میں ملازمت کرنے لگی۔دوڑ ہر وقت دوڑ۔دوڑتے رہنا ہی اس کی زندگی کا حاصل ٹھہرا۔

وہ ریٹرننگ کی چکی میں پسنے لگی۔چکی پیستی ہے اور وہ پستی رہی۔باریک سے باریک۔خون نچور دینے والی رپورٹنگ۔دن رات،دھوپ بارش،تنہائی ہجوم،سیاست ریاست۔رپورٹنگ،کلوز اپ،ایکسکلوزو،بریکنگ نیوز،فالواپ۔وہ خاتون تھی،چار بچوں کی ماں،بوڑھے والدین۔وہ مردانہ وار بھاگتی رہی۔میڈیا ہاوس،سرکار،سماج،صحافتی سیاست۔کسی نے بھاگتی اور ہانپتی صدف کیلئے کوئی سایہ کیا نہ ٹھنڈے پانی کے دو گھونٹ دئے۔

لیکن اسے تو بھاگنا تھا۔روح اور جسم کا رشتہ سب رشتوں پر بھاری ہوجاتا ہے۔صحافت کا شوق اور گلیمر تو دو چار مہینوں میں ختم ہو جاتا ہے۔باقی بھاگنا ہوتا ہے۔جینل کی سکرین کو دلکش بنانے کیلئے ،اخبار کا پیٹ بھرنے کیلئے۔

صدف کو بھاگتے رہنا چاہیے تھا۔دو میل بھاگی تھی۔اسے وزیر نے سر سے پاؤں تک دیکھا۔سرد لہجے میں کہا”تو پھر دو میل اور بھاگ لو”۔اسے لیڈر تک پہنچنا تھا۔یہ اس کی خواہش نہیں نوکری کا تقاضا تھا۔چینل کے مالک کو ایکسکلوزو سٹوری چاہیے تھی۔صدف نے ہمت نہیں ہاری وہ کنٹینر پر چڑھنے والی تھی۔عینی شاہد نے کہا اسے گارڈ نے دھکا دیا،دوسرے عینی شاہد نے کہا اس کا پاؤں پھسلا تھا۔معاملہ مشکوک ،موت مشکوک۔عینی شاہدین بھی تو انسان ہیں۔بدل جاتے ہیں۔

دھکے تو وہ روز کھاتی تھی۔اسے بریکنگ نیوز چاہیے تھی۔ اجل نے اسے ہی بریکنگ نیوز بنا دیا۔چینل کی ریٹنگ آسمان کی بلندیوں تک پہنچ گئی۔مالک خوش!

ڈبڈباتی آنکھوں سے صدف کی بدنصیب ماں نے تعزیت کیلئے آئے ہوئے لیڈر سے پوچھا’آپ تو کنٹینر سے اتر کر نیچے گئے تھے۔میری بیٹی کو آپ نے کس حالت میں دیکھا” سیاستدان کا پتھر دل بھی پگھل گیا۔اس نے خاموشی سے سر جھگا لیا،اہل خانہ ہچکیاں لینے لگے۔

غریب خاوند کو کہتے ہو کہ اس نے اپنی بیوی کی لاش بیچ دی۔کورے کاغذ پر لکھ دیا کہ مقدمہ نہیں کرونگا۔اس کے پاس آپشن ہی کیا ہے۔اس ملک میں کوئی غریب آدمی سماج کے فرعونوں کیخلاف کوئی مقدمہ کرکے زندہ کیسے رہ سکتا ہے۔اچھا کیا۔اگر وعدے اور معاہدے کے مطابق رقم مل گئی تو صدف کے بچے پل جائیں گے۔ماں کیلئے دوا دارو کا بندوبست بھی ہوسکے گا۔

صدف، کوئی ایک صدف۔ہزاروں لاکھوں صدف۔ہمارے اس انسان خور نظام کی خوراک بن رہی ہیں۔بنتی رہیں گی۔

گھر بیٹھیں تو بوجھ،باہر نکلیں تو بیگار۔کسی شیطان نے لکھا کہ صدف کی زپ کھلی ہوئی تھی۔اس کے جسم کی تو ہڈیاں بھی کھل گئی تھیں،اس کے جسم کا گوشت کھل گیا تھا،جب نسوانی جسم سے ٹنوں وزنی دیو ہیکل ٹرالہ کے سارے ٹائر گزر جائیں تو زپ کیسے بچ جاتی ہے۔پورا جسم کھل جاتا ہے۔افسوس کہ سوشل میڈیا نے بد طینت لوگوں کی تمام لگامیں کھول رکھی ہیں۔

صدف تیری لاش نے خوب سیاسی قیمت پائی ہے۔جو امدادی چیک لہرا رہے ہیں وہ بھی سیاست کررہے ہیں۔قاتل ٹرالہ جوں کا توں چل رہا ہے۔سیاست پھل پھول رہی ہے جو مخالف پارٹی کی بیبیاں تیری ماں کو رلانے آ ئی تھیں وہ بھی اپنی سیاست بچانے آئی تھیں۔

تو بھاگ صدف تیرے لئے کوئی رکنے والا نہیں کوئی روکنے والا نہیں۔تیرے نصیب میں بھاگنا ہے۔سستانے کیلئے کوئی شجر نہیں۔بھاگ اب عالم ارواح میں تاکہ جنت کے کسی باغ میں تجھے سکون مل سکے !

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے