تیسری دنیا کے لوگ

اﷲ بخشے دلدار بھٹی مرحوم ایک روائتی مولانا کے وعظ کا ایک ٹکڑا سنایا کرتا تھا جس میں وہ ’’تیسری دنیا‘‘ کے بارے میں یوں اظہار خیال فرما رہے تھے ’’مومنو! ایک دنیا تو یہ ہے جس میں ہم تم رہتے ہیں اور دوسری وہ ہے جس میں ہم سب نے جانا ہے، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ تیسری دنیا کہاں سے لے آئے ہیں یہ لوگ۔‘‘

اب قصہ کچھ یوں ہے کہ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا کے بہت سے ممالک کی اجتماعی پہچان ان کا تیسری دنیا میں ہونا ہے۔ اس دنیا کے لوگوں کی ایک اور پہچان جہالت، سائنس سے دُوری، سیاسی شعور کا فقدان، آبادی کی کثرت اور وسائل کی کمی بھی ہے۔

عمومی تجزیے کے مطابق یہ وہ لوگ ہیں جو سولہویں صدی سے شروع ہونے والی تحریکِ احیائے علوم، صنعتی اور سائنسی انقلابات سے دُور اور زیادہ تر کولونیل دور میں مختلف ترقی یافتہ قوموں کے غلام رہے اور اپنے ہی خام مال سے بنائی گئی اشیاء کے دس گنا زیادہ قیمتوں پر خریداربن کر کنزیومرمعاشروں کی شکل میں ڈھلتے چلے گئے۔
حاکم ملکوں نے انھیں ان کی اپنی روایات سے نفرت اور بیزاری کا ایسا درس دیا کہ یہ نہ گھر کے رہے اور نہ گھاٹ کے۔ ان کی زبان، لباس، رہن سہن کے طریقے، عزتِ نفس کا احساس اور سر اُٹھا کر جینے کا انداز سب کچھ مغرب کی تقلید کے جوش میں بدلتا چلا گیا اور ہر میدان میں ایک مستقل احساسِ کمتری نے ہنرمندی اور تخلیقیت کی جگہ لے لی اور یہ بات اس حدتک بڑھی کہ بقول اقبال:

کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

ممکن ہے کہ یہ سلسلہ اسی سمت میں دراز ہوتا رہتا ہے لیکن بیسویںصدی کے پہلے نصف میں اُس وقت کی حاکم اور ترقی یافتہ قوموں میں مفادات کی بنیاد پر ہونے والی دو عظیم جنگوں نے کچھ ایسے حالات بنا دیے کہ دس پندرہ برسوں میں سو ڈیڑھ سو کے قریب نئے ملک اٹلس کے صفحوں پر اُبھر آئے اور براہ راست قبضے کی جگہ ایک طرح کے ریموٹ کنٹرول نے لے لی اور ان نوآزاد یا نوتشکیل ممالک کے لوگوں کو تیسری دنیا کا نام دے دیا گیا۔ حربی طور پر طاقتور اور معاشی طور پر مضبوط ممالک نے اس تیسری دنیا کو میڈیا اور معیشت کے ذریعے ایک ایسے جال میں اُلجھا دیا ہے کہ وہ اُن کی مرضی کے بغیر کھانس بھی نہیں سکتے۔

امریکا کی پسپائی، چین کی پیش قدمی، رُوس کی پھر سے جمع ہوتی ہوئی طاقت اور یورپی یونین کی شکست وریخت کے اس دور میں ایک بار پھر تیسری دنیا کے لوگوں کے لیے غار کے دوسرے کنارے پر کچھ روشنی سی ہوئی تو ہے مگر اب بھی کنٹرول اندھیروں کے ہاتھ میں ہی ہے۔ چند دن قبل اس موضوع پر ایک نظم نے حاضری دی ہے جسے میں نے ایک دُعا پر ختم کیا ہے کہ فی الوقت کسی دوا سے یہ مریض سنبھلتا نظر نہیں آرہا۔ تو عرض کیا ہے:

عجب کچھ حال ہے اس تیسری دنیا کے لوگوں کا

کہ جو ’’کومے‘‘ کی حالت میں نہ جیتے ہیں نہ مرتے ہیں

اب ان کے خواب ہوں یا چشمِ حیرت

زوالِ علم یا صدیوں پہ پھیلی حاکمیت کے

تصوّر میں وہ کب کی کھوچکی عظمت!!

کہ سب کے سب یہا ں پر اب

بساطِ زندگی پر اس طرح موجود ہیں جیسے

پیادوں کی طرح سے بے ٹھکانہ اور پِٹے مہرے

انھیں اب چند قدموں سے ذرا آگے کی چیزیں بھی

دکھائی تک نہیں دیتیں

اگر ان میں سے کوئی سر اُٹھا کر

زندہ رہنے کے لیے سوچے

تو اُس سر کو کچھ ایسی بے حِسی سے کچلا جاتا ہے

کہ پھر ایسی حماقت کو کوئی دہرا نہیں پائے

سو اب ان کو جو دیکھو تو

سبھی کے ذہن جامد، آنکھ خالی اورلب خاموش رہتے ہیں

رہے وہ لوگ جو ان کی سزا تجویز کرتے ہیں

ہمارا المیہ یہ ہے

کہ ہم اُن کے مظالم کو خدا کے حکم کی صورت

بہت ہی عاجزی سے مانتے، تسلیم کرتے ہیں

خداوندا، زمین و آسما ں اور کائناتوں کے سخی داتا

ترے انصاف کی گھنٹی سنائی کیوں نہیں دیتی

ہمارے دن بدلنے میں بتا اب دیر کتنی ہے!

کہ اس کو مے کی حالت میں نہیں اب اس طرح رہنا

کہ جیتے ہیں نہ مرتے ہیں

خداوندا ترے آگے ترے بندے یہی فریاد کرتے ہیں

کہ اب یہ تیسری دنیا

مسلسل تیسرے درجے کی بے بس زندگی کو جی نہیں سکتی

یہ رسوائی کے کڑوے گھونٹ بھی اب پی نہیں سکتی

بدن پر زخم ہیں اتنے کہ اُن کو سی نہیں سکتی

رہائی دے ہمیں اس عہد کے آشوب سے اب تو

ہمیں اب موت دے یا اک نئی سی زندگی دے دے

اگر ہے زندگی باقی تو اپنی التجا ہے یہ

جو کومے، سے نکل آئیں

تو اگلی سروری دے دے

ہمیں پھر آگہی دے دے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے