موسمیاتی تغیرات کا پاکستان کے اور خیبر پختون خواہ کے آبی ذخائر پر اثرات کا ایک جائزہ

نوٹ: یہ مقالہ 29 نومبر, 2022 کو شعبہ ماحولیات, جامعہ پشاور میں منعقد ہونے والے کانفرنس میں پیش کیا گیا. جس کا عنوان تھا "موسمیاتی تغیرات کا خیبر پختون خواہ کے آبی ذخائر پر اثرات: مسائل اور وسائل”

[pullquote]مختصر خلاصہ[/pullquote]

ماحولیاتی آلودگی سے دنیا کی سطح پر فضا میں کاربن ڈائی آکسائڈ اور میتھین گیس کی مقدار میں اضافے کی وجہ سے درجہ حرارت میں متواتر اضافہ ہو رہا ہے. جس کی وجہ سے ہائیڈرولوجیکل سائیکل, یعنی پانی کا گردشی نظام متاثر ہوتا ہے. اندازہ لگایا گیا ہے ایک درجہ حرارت میں ایک ڈگری اضافے سے پانی کے گردش میں دو سے چار گنا اضافہ ہوتا ہے. جس کی وجہ سے پانی کا بخارات میں تیزی سے تبدیل ہونا اور پھر لمبے عرصے تک فضا میں رہنے سے ایک طرف پانی کی کمی آجاتی ہے. تو دوسری طرف بخارات کا ایک ساتھ بارش کی شکل میں غیر متوقع طور پر نیچے آنا سیلاب کا سبب بنتی ہے. اس کے علاوہ آبادی میں مسلسل اضافے سے پانی کے ذخائر پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے. جس کی وجہ سے 2025 تک پاکستان پانی کی کمی کا شکار ہو جائے گا. پاکستان میں کل 28 دریا ہیں جس میں سے 14 خیبر پختون خواہ میں موجود ہیں. اس طرح خیبر پختون خواہ دوہرے مسائل کا شکار ہو سکتا ہے. اس وقت پاکستان میں چالیس کے قریب ڈیم موجود ہیں. لیکن بارانی پانی کو ذخیرہ کرنے کے خاطر خواہ انتظام نہیں ہے. اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ موسمیاتی تغیرات کے تخفیف اور اس کے اثرات سے موافقت حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پانی کے ذخائر زیادہ سے زیادہ کئے جائیں اور ساتھ بجلی کے پیداوار اور آبپاشی کے علاوہ مزید استعمالات عمل میں لائے جائیں. جس میں سیر و تفریح, سیاحت اور مچھلیوں کی افزائش شامل ہے.

[pullquote]پس منظر[/pullquote]

جب بھی موسمیاتی تغیرات کا ذکر ہوتا ہے تو سب سے پہلے اگاہی کی بات سامنے آتی ہے. ایک سروے کے مطابق 2007 میں موسمیاتی تغیرات سے متعلق آگاہی بہت کم تھی. دنیا کے سطح پر 50 سے 70 فیصد لوگ یا تو اس سے اگاہ نہیں تھے یا اس پر یقین نہیں رکھتے تھے. لیکن 2021 میں موسمیاتی تغیرات سے اگاہی کے متعلق جو سروے رپورٹ سامنے آئی ہے, اس کے مطابق اگاہی کی سطح 80 فیصد تک چلی گئی ہے. پاکستان میں بالعموم اور خیبر پختون خواہ میں بالخصوص اگاہی ابھی بھی ترقیافتہ ممالک کے نسبت کم ہے. لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم صرف آگاہی مہم پر توجہ دیں. بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تغیرات میں تخفیف لانے اور اس سے متعلق موافقت حاصل کرنے پر کام جاری رکھیں.

اس ضمن میں جنگلات پر زیادہ زور دیا جاتا ہے, اس خیال سے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے تخفیف میں معاون ثابت ہوتی ہیں. جبکہ آبی ذخائر پر توجہ دینا اس سے متعلق موافقت میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے. کیوں کہ موسمیاتی تغیرات کا آبی ذخائر کو براہ راست زیر اثر لاتی ہے. اور نقصان کا باعث بنتی ہے. یہ نقصان دو طرح کا ہوتا ہے. یا تو ہمیں خوشک سالی کا سامنا ہوتا ہے یا ہمیں سیلاب سے نمٹنا پڑتا ہے. جیسا کہ ہم نے 2022 میں دیکھا کہ مارچ اور اپریل کے مہینے میں ہمیں شدید کرمی اور خوشک سالی دیکھنی پڑی اور پھر جولائی اور اگست میں شدید بارشوں اور سیلاب دیکھنے پڑے.

اس طرح اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو مستقبل قریب میں پاکستان کو بڑے پیمانے پر معاشی و معاشرتی نقصان ہو سکتے ہیں. ایک اندازے کے مطابق 2050 تک پاکستان کے آبی ذخائر میں 20 فیصد تک کمی آسکتی ہے. جس سے پاکستان کی مجموعی گھریلو مصنوعات, جس کو عرف عام میں جی ڈی پی کہتے ہیں, 6 فیصد تک گر سکتی ہے. جس کا تخمینہ تقریباً 20 بیلیں امریکی ڈالرز ہے. ایک ترقی پزیر ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان کیلئے یہ ایک بہت بڑا نقصان ہو گا. اس ضمن میں ایشیا کے ترقیاتی بینک کے حساب سے پچھلے تیس سال میں پاکستان کو موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے 29 بیلین امریکی ڈالرز کا نقصان پہنچا ہے. جو کہ تقریباً ایک بیلئن امریکی ڈالرز بنتا ہے. عالمی ترقیاتی بینک کے اندازے کے مطابق پاکستان کو موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے اوسطاً 3.8 امریکی ڈالرز کا نقصان ہوا جبکہ سیلاب کی وجہ سے 40 بیلئن امریکی ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے. جس کی وجہ سے اندازہ ہے کہ 2023 میں پاکستان کی جی ڈی پی 6 فیصد کی بجائے 3.5 فیصد تک گرنے کے امکانات ہیں. اب اگر پاکستان کو ملنے والے امداد کو دیکھا جائے تو ایشیاء کے ترقیاتی بینک نے 2.5 بیلئن امریکی ڈالرز کے پیکج کا اعلان کیا ہے. عالمی ترقیاتی بینک نے دو بیلئن امریکی ڈالر کا اعلان کیا ہے جبکہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے 1.17 بیلئن امریکی ڈالرز کے امداد کا عندیہ دیا ہے اور یونائٹڈ نیشن نے 81 میلئن امریکی ڈالرز امدا کا اعلان کیا ہے. اس کے علاوہ اس سال موسمیاتی تغیرات کے سلسلے میں مصر میں کانفرنس آف پارٹیز جس کو COP-27 کے نام سے یاد کیا جاتا ہے, میں 10 بیلئن مختص کرنے کے امکانات ظاہر کئے گئے ہیں. ان سب کو اگر ملایا جائے اور اگر یہ ساری رقم پاکستان کو مل بھی جائے, پھر بھی پاکستان کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ ممکن نہیں ہوگا. اس لئے پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ اپنے بل بوتے پر چلے, اور موسمیاتی تغیرات کے ممکنہ نقصان سے بچنے کیلئے ابھی سے تیاری پکڑے.

[pullquote]موسمیاتی تغیرات کا پانی پر ممکنہ اثرات[/pullquote]

موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے پاکستان اور خاص کر خیبر پختون خواہ کے آبی ذخائر کو جو نقصان ہے اس کو 9 نکات میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے.
1. آبی ایکالوجی
2. ماہی گیری
3. آب پاشی اور زراعت
4. پانی سے حاصل ہونے والی توانائی
5. پانی سے متعلق تفریح گاہیں
6. سیر و سیاحت
7. صحت عامہ
8. ٹرانسپورٹ
9. ویٹ لینڈ کی خرابی

ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو ان نکات پر کام کر کے معیشت کو بھی مضبوط کر سکتے ہیں اور ساتھ ساتھ موسمیاتی تغیرات کے اثرات میں تخفیف کے ساتھ اس سے موافقت بھی حاصل کی جا سکتی ہے. اس ضمن میں خوراک اور خاص کر خیبر پختون خواہ میں پروٹین کی کمی ہے. پوری دنیا میں اوسطاً 17 کلو فی کس سالانہ پروٹین مچھلی کے ذریعے پوری کی جاتی ہے. پاکستان میں دیکھا جائے تو فی کس سالانہ 2 کلو تک فیش استعمال کیا جاتا ہے جو کہ بہت کم ہے. اب اگر خیبر پختون خواہ میں دیکھا جائے تو 1975 میں فی کس سالانہ 0.04 کلو گرام تک مچھلی کھائی جاتی تھی. جو کہ 2020 کے اعداد و شمار کے مطابق 0.49 کلو تک پہنچ گئی. 1975 کے حساب سے دیکھا جائے تو یہ اضافہ دس گنا ہے. لیکن پھر بھی دنیا کے اوسط مچھلی کے استعمال سے بہت پیچھے ہے. پاکستان میں مچھلی کی کل پیداور 0.6 میلئن میٹرک ٹن ہے. جس کا 63 فیصد حصہ سمندر سے آتا ہے اور صرف 37 فیصد حصہ دریاؤں اور تالابوں سے حاصل کیا جاتا ہے. ہمارے پاس چونکہ پانی کے وافر مقدار میں ذرائع موجود ہیں. اگر کوشش کی جائے تو اس اعداد و شمار میں کافی حد تک تبدیلی لا سکتے ہیں.

اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس مچھلیوں کی وافر تعداد میں اقسام موجود ہیں. پاکستان میں کل 531 اقسام کی مچھلیاں ہیں. جس میں 233 دریاؤں میں پائی جاتی ہیں اور 398 سمندر میں پائی جاتی ہیں. دریاؤں میں پائی جانے والی مچھلیوں میں 78 ایسی قسمیں ہیں جو کہ معیشت میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں. لیکن ایک بات ہے, کہ اس میں 46 اقسام کی آبادی خطر ناک حد تک کم ہوئی ہے اور قابل توجہ ہیں.

[pullquote]خیبر پختون خواہ میں موجود مواقع [/pullquote]

کیا خیبر پختون خواہ میں پانی کی اتنے ذرائع موجود ہیں جس کو استعمال کرتے ہوئے مچھلیوں کی پیداوار بڑھایا جا سکے؟ پاکستان میں کل 28 دریا ہیں. جس میں 12 خیبر پختون خواہ میں موجود ہیں. بلوچستان میں 7, پنجاب میں 5 اور سندھ میں 4 دریا ہیں. اگر دوسرے صوبوں کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو سب سے زیادہ آبی ذخائر خیبر پختون خواہ میں موجود ہیں. ان دریاؤں میں دریائے کابل سب سے بڑا ہے جو کہ خیبر پختون خواہ کے وسط میں سے گزرتا ہے. اس کے بعد دریائے سوات, پنجکوڑہ, چترال, سیرن, کنار, باڑہ, کرمہ, دوڑ, گومل اور ذوھب آتے ہیں. اس کے علاوہ چھوٹے دریا ہیں جس کو عموماً دریاؤں میں شمار نہیں کئے جاتے. ان کو عام زبان میں خوڑ کہتے ہیں. جس میں بدرئی خوڑ, ٹوچی, ہرو, جیندے اور کراما قابل ذکر ہیں. ان میں سے جو بڑے دریا ہیں وہ اکثر زیر بحث لائے جاتے ہیں اور ان پر کسی حد تک کام بھی ہوا ہے. چھوٹے دریا یا خوڑ بہت کم زیر بحث آتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے. اگر ان سارے چھوٹے بڑے دریاؤں کو درست طور پر استعمال میں لایا جائے تو مچھلی کی پیداوار کے ساتھ ساتھ پانی کی فراوانی بھی ممکنات میں سے آجائے گی.

[pullquote]خیبر پختون خواہ میں موجود ڈیم [/pullquote]

اب ذکر بنتا ہے پانی کو ذخیرہ کرنے کی. خیبر پختون خواہ میں 1962 سے ڈیموں پر کام شروع ہوا تھا جب دریائے کابل پر ورسک ڈیم بنایا گیا. اس کے بعد کئی چھوٹے بڑے ڈیم بنائے گئے. انٹرنیٹ پر سرچ کے بعد معلوم ہوا ہے کہ خیبر پختون خواہ میں 38 ڈیم موجود ہیں. جبکہ بہت سارے ڈیم زیر تکمیل ہیں. ان ڈیموں کے دو بڑے استعمال سامنے آئی ہیں جس میں بجلی کی پیداوار اور آبپاشی شامل ہیں. بہت کم ڈیم ہیں جس میں مچھلیوں کی افزائش بھی ہو رہی ہو. یہاں پر منیجمنٹ کے حوالے سے سوال اٹھتا ہے. جو ڈیم آب پاشی کیلئے استعمال ہوتے ہیں وہ ڈیم محکمہ آبپاشی کے زیر نگرانی ہے, جن ڈیموں سے بجلی پیدا کی جاتی ہے وہ واپڈا کے زیر تحویل ہیں. اور ان کا اس حوالے سے اعداد و شمار انٹر نیٹ پر دستیاب ہیں. اس میں اس وقت جو مسلہ مشاہدے میں آیا ہے وہ دریاؤں میں پانی کی مسلسل کمی ہے. یہ کمی اس وقت موسمیاتی تغیرات سے نہیں جوڑا جا سکتا. اس کمی کی بڑی وجہ دریاؤں پر حد سے زیادہ ڈیم یا موجودہ ڈیموں میں حد سے زیادہ پانی ذخیرہ کرنا ہے. مثلاً دریائے کابل میں پانی کم ہوا ہے جس کی وجہ پاکستان اور افغانستان میں بنائے گئے ڈیموں کی تعداد ہے. اس طرح کے دریا جو دوسرے ممالک سے آتے ہیں ان کے بارے میں حکومتی سطح پر سوچ بچار ضروری ہے. ہمیں بارانی ڈیموں اور چھوٹے دریاؤں پر ڈیموں کو زیر غور لانا ضروری فعل ہے. اس سے دو فائدے ہوں گے. ایک تو پانی زراعت کیلئے دستیاب ہو جائے اور ساتھ سیلاب میں کافی حد تک کمی ہو سکتی ہے. اس کے علاوہ زیر زمین پانی میں ریجارج کی صورت میں اضافہ ہے.

یہ سب کاوشیں وقت کی ضرورت ہے کیوں 2016 میں پاکستان کونسل برائے آبی ذخائر اس پر تحقیق نے یہ پیشن گوئی دی ہے کہ پاکستان میں 2025 تک پانی کی قلت شدت اختیار کرے گی اور پینے کیلئے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا. ان کے اعداد و شمار کے مطابق 1951 میں فی کس پانی کی دستیابی 5000 مکعب میٹر تھی. جو کہ 2000 میں فی کس 1000 مکعب میٹر تک پہلے سے گر گئی ہے. اب خدشہ ہے کہ یہ فی کس 500 مکعب میٹر سے نیچے چلی جائے گی. ان اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو ایمرجنسی کی بنیادوں پر کام کرکے پانی کی دستیابی کو ممکن بنانا وقت کی ضرورت ہے. اگر ہم پاکستان کا موازنہ پڑوس کے ممالک سے کریں تو پانی جمع کرنے کی صلاحیت بہت کمزور ہے. مثلاً ایران نے 1990 اور 2018 کے درمیان اپنی سٹوریج کیپیسٹی 17.3 مکعب کلومیٹر سے بڑھا کر 44.4 مکعب کلومیٹر تک بڑھا چکے ہیں. اس طرح انڈیا نے اس دوران 166 مکعب کلومیٹر سے اپنا سٹوریج بڑھا کر 247.5 مکعب کلومیٹر تک لے گئے ہیں. ایتھوپیا جہاں پر پانی انتہائی کم ہے, اپنا سٹوریج 5.62 سے 31.64 مکعب کلومیٹر تک لے جا چکے ہیں. پاکستان نے 27.7 سے 27.81 تک اپنے سٹوریج میں اضافہ کیا ہے. جو کہ بہت کم ہے. نومبر 2022 میں وفاقی وزیر برائے آبی ذخائر نے عندیہ دیا ہے کہ ہم اس میں 2023 تک 15 میلئن ایکڑ فیٹ تک اضافہ کریں گے. جو کہ 18.5 مکعب کلومیٹر کے برابر ہے. یہ ایک خوش آئند بات ہے. پاکستان میں بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے خاطر خواہ انتظام موجود نہیں جس کی وجہ سے ہم ہر سال بارش کا پانی ضائع کرتے ہیں. اگر ہم بارش کے پانی کو درست طور پر روک دیں تو پاکستان کو 10 سے 15 بیلئن امریکی ڈالرز کا فائدہ ہو سکتا ہے.

[pullquote] تجاویز[/pullquote]

اب سوال اٹھتا ہے کہ اس کیلئے وہ کونسے عوامل ہیں جس کو عملی جامہ پہنا کر موسمیاتی تغیرات کے منفی اثرات سے نمٹا جا سکے. اس سلسلے میں 6 عوامل سامنے آگئے.
1. پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بڑھانا
2. مچھلیوں کی افزائش پر کام کرنا
3. واٹر ہارویسٹنگ پر کام کرنا
4. بارش کے پانی کو جدید ٹیکنالوجی سے روکھنا اور کام میں لانا
5. زیر زمین پانی کے ذخائر بڑھانا
6. موسمیاتی تغیرات کیلئے مرتب شدہ ایکشن پلان پر فوری طور پر کام کرنا
7. میونسپل ویسٹ کو استعمال میں لانے کیلئے نئے ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے