گلگت شہر کے پانی کے قدیم لاوارث  چینلز

85 سالہ محمد حسین جو کہ علاقے میں ٹیلرنگ کا کام کرتا ہے، وہ گذشتہ 55 سال سے یہی کام کررہا ہے۔ وہ بھی علاقے کے ان لوگوں میں شامل ہے جو علاقے کے دوسرے لوگوں کی طرح قدیم( واٹر چینل) کوہل  سے پانی پیتا ہے اور اسی پانی سے اپنے زمینوں کو سیراب کرتا ہے۔ انہوں نے دکھی لہجے میں کہا کہ ماضی قریب میں ہم علاقے کے لوگ ان واٹر چینل کی صفائی کرتے تھے اور ہر سال مارچ کے مہینے میں پانی بند کرکے ان چینلوں کو صاف کیا جاتاتھا، اب چونکہ علاقہ مکین اس کام میں کم دلچسپی لے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہ اب یہ چینل گندگی کے ڈھیر سے بھرے پڑے ہیں اور انکے پانی اب پینے کا قابل نہیں اور ان چینلوں کی صفائی کے لئے متعلقہ ادارے خاموش ہیں۔
 
[pullquote]چینل کب بنائے گئے[/pullquote]
 
یہ پانی کے چینل سولہویں صدی دہائی  میں یہاں کی حکمران خاتون دادی جواری  نے عوام کے تعاون سے تعمیر کئے تاکہ ان کے ذریعے گلگت شہر کی بنجر زمین کو آباد کر کے نہ صرف کاشت کاری کو ممکن بنایا جائے بلکہ علاقے کے لوگوں کو پینے کے لئے صاف پانی بھی میسر ہوجائے۔
 
[pullquote] چینلز کی کل تعداد[/pullquote]

گلگت شہر میں پانی کے 8 چینلز ہیں جو نپورہ ، نائیکوئی اور برمس  کے علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں ۔

 
[pullquote]لوگوں کے تاثرات[/pullquote]
 
چالیس سالہ گل نما بیگم  ماضی کے واقعات کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہم بچپن میں  ان کوہل سے پانی پیتے تھے اور اس واٹر چینلز کے اطراف میں جڑی بوٹیاں ہوتی تھیں  ،ان جڑی بوٹیوں کو ہم دوائی کے طور پر استعمال کرتے تھے اور  یہاں سایہ داردرخت ہوا کرتے تھے جس کے سائے میں ہم بیٹھ کر سویٹرز وغیرہ بنتے تھے اور ان کی صفائی کا ہم خاص خیال رکھتے تھے۔ مگر اب کی ان حالات دیکھ کر افسوس ہو رہاہے۔اب ترقی ہوئی ہے لوگوں کی زندگیاں آسان ہوئی ہیں  مگر ترقی یافتہ قومیں تو صاف صفائی کا خیال ہیں مگر آج پڑھی لکھی قوم کی یہ حالت دیکھ کر افسوس ہورہا ہے،جو گندگی ان پانی کے چینل میں پھینک دیتے ہیں نہ صرف گندگی پھینکتے ہیں بلکہ اپنے اپنے گھروں کی نکاسی کا پانی کارخ بھی ان چینلز کے طرف کیا گیا ہے گندگی اور کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ان چینلز سے بدبو اور تعفن بھی پھیل رہا ہے مگر اس کے باوجود  کوئی بھی سرکاری   ادارہ نوٹس نہیں لے رہا ہے اور یہ پانی کے صاف شفاف چینلز گزشتہ 15سالوں سے گندگی اور کچرے کے ڈھیر بن چکے ہیں۔

گلگت بلتستان کے مشہور مصنف اور تاریخ دان شیر باز علی برچہ نے بھی پانی کے چینلز کی موجودہ صورتحال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مجھے دکھ صرف اس بات کا ہے ان قدیم پانی کے چینلز کا کوئی والی وارث نہیں اور نہ ہی کوئی ان چینلز کی صفائی ومرمت کی ذمہ داری لینے کے لئے تیار ہے 16 ویں صدی میں گلگت بلتستان کی پہلی خاتون حکمران دادی جواری نے عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے لئے عوام کے تعاون سے پہاڑوں کا سینہ چیرتے ہوئے ان پانی کے چینلز کی تعمیر کی اور پورے گلگت شہر میں پانی کے چینلز کے جال بچھائے اور عوام کو ذمہ داری سونپ دی گئی کہ وہ ان پانی کی چینلز کی صفائی کا خاص خیال رکھ لیں اور سالانہ( بھل صفائی  ) کے نام سے ان چینلز کی صفائی کی جائے ۔

 جب تک یہ چینلز عوام کی ملکیت میں تھے یہ صاف تھے  اور عوام نہ صرف ان چینلز کے ذریعے اپنی زمینوں کو سیراب کرتے تھے بلکہ پینے کے لئے پانی کا استعمال بھی کرتے تھے ۔

جب 2000 میں سابق صدر پرویزمشرف برسراقتدار آئے ان کے دور حکومت میں  پانی کی ان چینلوں کی ذمہ داری حکومت نے اٹھائی اور ان کی مرمت اور میٹلنگ کاکام شروع کیا گیا۔ گلگت شہر میں تمام پانی کے چینلز کی مرمت کی گئی، کچھ وقت پر مکمل ہوگئے اور کچھ ابھی تک ادھورے ہیں۔ ان چینلز کی مرمت میں بھی ایمانداری سے کام نہیں لیا گیا اور آج یہ پانی کے چینلز گندگی اور کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے ہیں اور  اس کے بعد آج تک کسی سرکاری ادارے نے ان کی صفائی کا کام نہیں کیا  بھل صفائی کے نام پر چینلز کی صفائی کا کام شروع تو کیا جاتا ہے  مگر ان کی صفائی ممکن نہیں ہوسکی ۔حکومت کو چائیے کہ ان قدیم پانی کے چینلز کی صفائی کے لئے عوام کا تعاون حاصل کرے گندگی اور کچرا پیھکنے والوں پر جرمانے عائد کرے،  ان کی صفائی سے گلگت شہر کی خوبصورتی بڑھ جائے گی۔

چیف آفیسر میونسپل کارپوریشن گلگت عابد حسین نے بتایا کہ گلگت شہر میں  8 پانی کے چینلزہیں، جس میں  سردار کوہل جس کی لمبائی9 میل ہے  ۔کوہل بالا ہے جس کی لمبائی 15 میل ہے کوہل بالا کا سربند بسین نالے میں  واقع ہے اور تیسرا چینل کوہل پائن ہے، جس کی لمبائی 15 میل ہے ۔کوہل بالا اور کوہل پائن کا ایک ہی سر بند ہے جو ایک میل کے فاصلے کے بعد الگ الگ تقسیم ہوجاتے ہیں ۔ ساکار کوئی واٹر چینل جس کی لمبائی 9 میل ہے جٹیال/  خومر چینل جس کی لمبائی میل ہے ۔سونی کوٹ چینلز جس کی لمبائی 5 میل ہے اور اس کے ساتھ کشیر و داس کی لمبائی 3 میل ہے۔ بھل صفائی مہم کے نام پر بلدیہ گلگت کے ملا زمین ان واٹر چینلز کی صفائی کرتے رہتے ہیں مگر عوام صفائی کا خیال نہیں رکھتے اور اگلے دن پانی کے چینلز ایک بار پھر گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہوجاتے ہیں ۔

سونی کوٹ گلگت کے رہائشی اعظم خان نے بتایا کہ سونی کوٹ اور کشروٹ کے پانی کے چینلز کی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے پانی لوگوں کے گھروں کے اندر سے گزرتا ہے اور بعض جگہوں پر چینل کے اوپر چھت ڈال کر تعمیر کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے گندگی اندر پھنس گئے ہیں اور جس کو صاف کرنا مشکل ہو گیا ہے ۔ جس کی وجہ سے وقتا فوقتا ائیر پورٹ کے رن وے میں پانی داخل ہونے سے جہازکے اڑان میں خطرات کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے .
 
کوہل بالا اور کوہل پائن کی صفائی کی ذمہ داری اہل شیری کےتحت عوام خود کرتےتھے ان دونوں چینلوں کے درمیان جتنے بھی کلوٹس ہیں وہ واسا کی زمہ داری میں آتے ہیں ۔2009 تک گلگت بلتستان میں بلدیاتی ادارے تھے جس کے تحت عوام کے تعاون سے صفائی کی جاتی تھی. 2009 کے بعد گلگت بلتستان میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہوسکے جس کی وجہ سے ان واٹر چینلز کی صفائی کا کام رک گیا ہے .

 
ڈاکٹر محمد عمر نے بتایا کہ پانی کے چینلز گندگی کے ڈھیر میں تبدہل ہوئے ہیں اور نکاسی کا پانی کھڑا رہنے کی وجہ سے بدبو پھیل رہی ہے جس سے وبائی امراض بھی تیزی کے ساتھ پھیل رہے ہیں . ہفتے کو میرے پاس ایک نوجوان لڑکے کو لے آئے تھے جو اس پانی کے چینل میں گر گیا تھا، گرنے کی وجہ سے لڑکے کے جسم میں دانے نکل گئے تھے اور پورے جسم میں خارش ہو رہی تھی. حکومت کو چائیے ان چینلز کی صفائی کو یقینی بنائے تاکہ عوام وبائی امراض سے محفوظ رہ سکے ۔

سابق ڈپٹی اسپیکر جمیل احمد نے بتایا کہ یہ پانی کے چینلز لاوارث ان کی صفائی کی ذمےداری کوئی بھی ادارہ نہیں لے رہا ہے  ۔ان کی ناقص تعمیر سے نکاسی کا پانی آس پاس کے مکانات میں داخل ہو رہا ہے. جس سے مکانات کی بنیادیں کمزور پڑ  گئی ہیں مگر متعلقہ ادارے ٹس سے مس نہیں  ۔

ڈپٹی کمشنر گلگت اسامہ مجید نے بتایا کہ قدیم کوہل کی صفائی کو یقینی بنائے کے لئے عوام کا تعاون بھی درکار ہے عوام تعاون نہیں کر رہے ہیں جس کی وجہ سے پانی کے یہ چینل گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے ہیں ۔بھل صفائی کے نام پر پانی کے چینلز کی صفائی ہر سال میں ایک بار مارچ کے مہینے میں کیا جاتا ہے جس کے لئے دس لاکھ روپے مختص کرتے ہیں. پانی کے چینلز کی صفائی کے بعد اگلے دن پھر عوام ان چینلز کو گندگی کا ڈھیر بنا دیتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے