تقلید کے قابل

کراچی آرٹس کو نسل نے یکم سے چار دسمبر تک اپنی پندرہویں سالانہ اُردو کانفرنس منعقد کرکے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اچھے کام بُرے سے بُرے حالات میں بھی نہ صرف کیے جاسکتے ہیں بلکہ ان کی پیش کش کے انداز کو دوسروں کے لیے مثالی بھی بنایا جا سکتا ہے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اب سے بیس پچیس برس پہلے تک اس آرٹس کونسل کی عمارت اور کارکردگی دونوں کسی بھوت بنگلے اور اس میں موجود سناٹے سے کم نہیں تھے۔

مجھے اس سے کچھ عرصہ قبل ڈپیوٹیشن پر چار سال پنجاب آرٹ کونسل میں ڈرامے اور لٹریچر کے حوالے سے اس کی ڈپٹی ڈائریکٹری کا شرف حاصل ہوا تھا اور ہماری ضلعی آرٹ کونسلوں کی کارکردگی بھی شائد اس سے بہتر تھی جس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی تھی کہ کراچی آرٹ کونسل ایک پرائیوٹ اور عوامی ادارہ ہے جسے حکومت کی طرف سے نہ ہونے کے برابر امداد ملتی ہے جب کہ پنجاب آرٹ کونسل سوفیصد سرکاری گرانٹ سے چلنے والا ادارہ تھی۔

ممکن ہے یہ دلیل اس بھرم کو قائم رکھتی مگر ہوا یوں کہ شائد مانسہرے کا ایک نوجوان کراچی یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے خاندانی بزنس تک اپنی خداداد انتظامی صلاحیتوں کو محدود رکھتا مگر اس کی شعر وادب سے وابستہ طبیعت اُسے آرٹس کونسل کی طرف لے آئی اور پھر سب نے دیکھا کہ کس طرح اس نوجوان نے نہ صرف اس جنگل کو منگل بنایا بلکہ ہر آنے والے سال کے ساتھ اس کی حالت بہتر ہونا شروع ہو گئی۔

آج سے پندرہ سال قبل اُس نے پہلی اُردو ادبی کانفرنس کا ڈول ڈالا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ نہ صرف یہ کامپلکس کئی شاندار عمارتوں، آڈیٹوریمز ہالز اور اوپن ائیر تقریبات کی آماجگاہ بن گیا بلکہ پورا سال یہاں آرٹ ، ادب اور موسیقی سے متعلق تقریبات کا میلہ سا لگنے لگ گیا۔

جی ہاں اُسی انقلاب آفرین شخص کا نام احمد شاہ ہے اس کے مخالفین اس پر مختلف طرح کے الزامات بھی عائد کرتے رہتے ہیں جن کی تفصیل میں، میں اس لیے نہیں جانا چاہتا کہ میرا واسطہ اس احمد شاہ سے ہے جس نے اس آرٹ کونسل کو ایک قابل رشک مثال بنا کر دکھا دیا ہے، جہاں تک اس کی ذات پر عائد کردہ الزامات کا تعلق ہے۔

ان کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اور اس کا پینل ہر بار سالانہ انتخابات میں پہلے سے بھی زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہوتے ہیں۔ ہم لوگ جو دوسرے شہروں اور ملکوں سے وہاں کسی تقریب میں شامل ہونے کے لیے آتے ہیں وہ یہی دیکھ کر خوش اور متاثر ہوتے ہیں کہ وطنِ عزیز میں کوئی تو ایسا ادارہ ہے جو اپنے مشن کو پروموٹ کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی آگے بڑھ رہا ہے تو ایک خوش گوار تاثر لے کر واپس جاتے ہیں۔

احمد شاہ اور اس کے ساتھی یہ سب کچھ کس طرح سے کر رہے ہیں یہ جاننا ہمارا چائے کا کپ نہیں ہے اور یوں بھی سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر کسی باہر کے آدمی کا اس میں دخل دینا بنتا بھی نہیں۔

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی آرٹ کونسل نے متوقع مندوبین سے کئی ماہ قبل رابطہ کرکے انھیں کانفرنس کی مجوزہ تاریخوں سے آگاہ کردیا تھا تاکہ وہ ان دنوں میں اس تقریب میں شرکت کے لیے تیار رہیں۔ اس چار روزہ کانفرنس میں جن موضوعات پر بات کی گئی صرف ان کی فہرست دیکھنے سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس پھیلاؤ کو کس خوب صورتی اور محنت سے سمیٹا گیا ہے۔

پہلا روز حسبِ معمول افتتاحی اجلاس کے لیے مخصوص تھا مگر اس میں بھی ’’اقبال اور قوم‘‘ ، ’’اُردو کا شاہکار ادب ‘‘ اور قوالی ’’آہنگ خسروی‘‘ کا اضافہ کرکے اسے مزید دلچسپ بنا دیا گیا تھا جب کہ دوسرے دن کے پروگراموں کی تفصیل کچھ اس طرح تھی۔

1۔ اُردو کا نظامِ عروض۔۔ضروری غیر ضروری

2۔ اکیسویں صدی میں اُردو فکشن

3۔ اکیسویں صدی میں تقدیسی ادب

4۔ یاد رفتگاں

5۔ تین شاعر

6۔ امجد اسلام امجد ۔ شاعرِ خوش نوا

7۔ اکیسویں صدی میں پشتو زبان و ادب

8۔ کتابوں کی رُونمائی

9۔ اُردو صحافت کی دو صدیاں

10۔ اکیسویں صدی میں سرائیکی زبان و ادب

11۔ یارک شائر ادبی فورم

12۔ کلیاتِ جالب

13۔ مشاعرہ

جب کہ دوسرے دن کے پروگرام کچھ اس طرح تھے۔

1۔ اکیسویں صدی میں اُردو شاعری

2۔ اکیسویں صدی میں بچوںکا ادب

3۔ اُردو کی نئی بستیاں

4۔ تقریب رُونمائی ۔عکسی مفتی

5۔ کتابوں کی رُونمائی

6۔ سیّد محمد جعفری

7۔ پاکستان۔تعلیم کی صورتِ حال

8۔ اکیسویں صدی میں پنجابی زبان و ادب

9۔ خواتین ا ور ہمارا سماجی روّیہ

10۔ سلمان گیلانی سے گفتگو

11۔ کلامِ شاعربزبان نصرت علی

12۔ اکیسویں صدی میں بلوچی زبان و ادب

13۔ پاکستان آج اور کل

14۔ رُونمائی۔ سٹیفن ایم لیون کی کتاب

15۔ مشاعرہ

اور اب چوتھے دن کے پروگراموں کی تفصیل

1۔ اکیسویں صدی میں اُردو تنقید

2۔ شوکت صدیقی کے سو سال

3۔ مشتاق احمد یوسفی۔یادیں ۔ باتیں

4۔ کتابوں کی رُونمائی

5۔ اکیسویں صدی میں سندھی زبان و ادب

6۔ نیا میڈیا ۔ نئے تقاضے

7۔ سخنِ افتخار

8۔ اکیسویں صدی میں فنون کی صورتِ حال

9۔ اختتامی اجلاس

10۔ رقص کا سفر

11۔ استاد حامد علی خان

یہ تمام پروگرام آرٹس کونسل کی عمارت کے اندر ہی مختلف وینیوز پر پیش کیے گئے جن میں بِلامبالغہ ہزاروں نوجوانوں اور شائقینِ ادب نے بھر پور شرکت کی۔

ادب اور کتاب کی مرتی ہوئی روائت کے بارے میں جو خدشے تواتر سے دوہرائے جاتے ہیں کم از کم ان محفلوں کی حد تک وہ سراسر غلط اور خیالی محسوس ہونے لگتے ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے سارے صدیوں میں موجود اور قائم شعر و آرٹ کونسلیںکراچی آرٹ کونسل کی قائم کردہ اس روائت کو نہ صرف اپنائیں بلکہ آگے بھی پھیلائیں کہ یہ واقعی ایک قابلِ تقلید کام ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے