طاقت کے حقیقی مراکز (مکمل کالم)

ہر سماج میں طاقت کے چند مراکز ہوتے ہیں۔سیاست ان طبقات کواقتدار سونپ دینے کا باضابطہ عمل ہے۔سیاست طاقت کا کوئی نیا مرکز پیدا نہیں کر سکتی۔یہ بات سمجھ میں آ جائے توبہت سے عقدے خود بخود کھلتے چلے جا تے ہیں۔

تلوار سے ووٹ تک کا سفر اسی حقیقت کا بیان ہے۔سماج میں موجود طاقت ورگروہ اقتدار کے لیے لڑتے آئے ہیں۔پہلے اس لڑائی کا فیصلہ تلوار سے ہوتا تھا۔اس میں انسانی جانوں کا ضیاع بہت تھاجسے انسانی فطرت بادلِ نخواستہ گورا کرتی تھی۔پھر یہ طے پایا کہ تلوار کے بجائے،اقتدار کا فیصلہ لوگوں کی رائے سے ہو گا۔پہلے یہ حق محدود لوگوں کو دیا گیا۔اس میں عام شہری اور خواتین کو شامل نہیں کیا گیا۔آہستہ آہستہ بالغ رائے دہی کے اصول کو مان لیا گیا۔

سماج میں طاقت کے مراکزکم ہی تبدیل ہوتے ہیں۔ان کی صورت البتہ بدلتی رہی ہے۔عام طور پریہ مراکز تین ہیں:عصبیت،طاقت اورمذہب۔جس کا ان میں سے کسی ایک یا ایک سے زیادہ مراکز پر قبضہ ہوجاتاہے،اقتداراس کو منتقل ہو جاتا ہے۔عصبیت قبیلے اور برادری کی ہو سکتی ہے اور کسی شخصیت کی بھی۔طاقت دولت کی ہوتی ہے اور عقل کی بھی۔مذہب نے دورِ جدید میں آئیڈیالوجی کی صورت اختیار کر لی۔کہنا یہ ہے کہ طاقت کے مراکز وہی رہے۔صرف ان کی ظاہری صورت تبدیل ہو گئی۔

تاریخ میں یہ بھی ہوا ہے کہ ان مراکز نے آپس میں اتحاد کر کے،اقتدار میں شراکت کر لی۔دو صدیاں پہلے تک،یورپ پر بادشاہ،کلیسا اور جاگیردارکے اتحاد نے حکومت کی۔جدید دور میں پاکستان اس کی ایک مثال ہے جہاں مقتدرہ،اہلِ مذہب اورسرمایہ دار نے مل کر اقتدارکو اپنی گرفت میں رکھا۔ایران میں اہلِ مذہب کو مطلق قوت حاصل ہوگئی تواس کا اقتدار قائم ہو گیا۔افغانستان میں بندوق کویہ حیثیت حاصل ہوئی تو جس کے پاس بندوق چلانے والے ہاتھ زیادہ تھے،وہ اقتدار پر فائز ہو گیا۔امریکہ وغیرہ میں سرمایہ اقتدار تک پہنچانے کے لیے مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔

پاکستان میں سماجی سطح پرطاقت کے مراکز پانچ ہیں۔ایک سرمایہ۔اقتدار کی جنگ میں ایک فریق وہ ہے جس کے پاس بے حساب دولت ہے۔دوسرامذہب۔مذہب کی نمائندگی دو گروہ کر رہے ہیں۔ایک پیراوردوسرے روایتی علما۔یہ بھی اقتدار کے کھیل میں شریک ہیں۔تیسرامرکزجاگیرداری ہے۔چوتھا عصبیت،جو زیادہ تر قبائلی یا خاندانی ہے۔ پانچواں مرکز بندوق ہے۔پاکستان کی پچہتر سالہ تاریخ میں اقتدار کبھی ان گروہوں سے باہر نہیں گیا۔

اقتدار کے لیے ان ہی کے درمیان کشمکش جاری رہی۔بندوق کو بحیثیت مجموعی غلبہ حاصل رہا۔اسی لیے اس کی مدتِ اقتدار بھی سب سے زیادہ ہے۔آنے والے دنوں میں بھی اس منظر میں کسی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔

جمہوریت میں عوام یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ان میں سے کس کو اقتدار سونپاجائے۔اقتدار کو بہر حال ان ہی میں سے کسی گروہ کے پاس رہنا ہے۔یہ گروہ الگ الگ یا مل کر عوامی رائے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ضرورت پڑے تو سیاسی جماعتیں بنا لیتے ہیں۔سیاسی جماعت کی قیادت بھی ان میں کسی ایک یا ایک سے زیادہ گروہوں کے نمائندوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے جو سماج میں قوت کے مرکز ہوتے ہیں۔بندوق والے بھی جس کو چاہتے ہیں،انتخابی نتائج کا رخ اس کی طرف پھیر دیتے ہیں۔یوں اقتدار ان مراکز سے کبھی باہر نہیں نکلتا۔اقتدار جب عوامی ووٹ سے ایک گروہ سے دوسرے گروہ کے ہاتھ منتقل ہو جاتا ہے تو لوگ خوش ہوجاتے ہیں کہ وہ تبدیلی لے آئے۔وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اقتدار ان مراکز سے نہیں نکلا۔

کیا یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا؟کیا اس میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں؟میرا خیال ہے کہ اس کو بدلا جا سکتا ہے۔اس کی واحد صورت یہ ہے کہ سماج میں اقتدار کے مراکز کو تبدیل کر دیا جائے۔عوام کی شعوری سطح اتنی بلند ہو جائے کہ وہ طاقت کے اس کھیل کی حقیقت کو جان لے۔ان کو معلوم ہو جائے کہ سیاست تبدیلی کا میدان نہیں۔اس میں توانائیاں صرف کرنا،انہیں برباد کرنا ہے۔تبدیلی کی اصل لڑائی سماج میں لڑی جانی ہے۔

دنیا میں ایسا ہوا ہے کہ طاقت کے قدیم مراکز یا تو ختم ہو گئے یا اقتدار ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔یہ بھی ہوا کہ کسی گروہ کو اقتدار میں رہنے کے لیے اپنا رویہ تبدیل کر نا پڑا۔ مثال کے طور پر یورپ میں ایک سماجی تبدیلی آئی اورکلیسا طاقت کا مرکز نہیں رہا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اقتدار کے کھیل سے باہر ہو گیا۔اب وہاں مذہب سیاسی قوت کا مرکز نہیں ہے۔اسی طرح جاگیرداری کا ادارہ ہی ختم ہو گیا۔ بھارت میں بھی جاگیرداری کو بطور ادارہ ختم کر دیا گیا تو جاگیر دار کے ہاتھ سے سیاسی قوت بھی نکل گئی۔سرمایے کو جب عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تواسے بھی اقتدار پر اپنی گرفت قائم رکھنے کے لیے اپنا رویہ بدلنا پڑا۔تاہم اس نے چالاکی کے ساتھ اقتدار کو اپنی گرفت سے نکلنے نہیں دیا۔مغرب میں بدستور اقتدار سرمایہ دار کے پاس ہے۔

پاکستان یورپ یا امریکہ کے مقابلے میں فکری طور پر ایک پس ماندہ معاشرہ ہے۔یہاں آج بھی طاقت کے مراکز وہی ہیں جو پچتہر سال پہلے تھے۔اس لیے کسی سیاسی جد وجہد سے تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔سیاسی عمل چونکہ جاری ہے،اس لیے ہم اس سے لاتعلقی اختیار نہیں کر سکتے۔انتخابات میں ہم شریک ہوتے اور اپنی پسند نا پسند کا اظہار بھی کرتے ہیں۔یہ فطری ہے۔تاہم ہمیں ہمیشہ متنبہ رہنا چاہیے کہ اس عمل کے نتیجے میں کسی جوہری تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔جب تک طاقت کے یہ سماجی مراکز قائم ہیں،اقتدار بھی ان ہی کے پاس رہے گا۔

یہاں عوام کا استحصال صرف سیاست کے عنوان سے نہیں ہوتا۔یہ استحصال اصلاً سماجی ہے۔سیاست اس کو مستحکم کر تی ہے۔مثال کے طور پر ایک پیر جب ووٹ لے کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ جاتا ہے تو اس سے اس کے استحصال کو تقویت ملتی ہے جو پہلے سے جاری ہے۔یہ بات واضح رہے کہ جب تک پیر سماجی قوت کا مرکز ہے،سیاسی جماعتیں بھی اسی کو ٹکٹ دیں گی۔تمام سیاسی جماعتوں کی صفوں پر ایک نظر ڈالیں،جن میں جیتنے کی صلاحیت ہے۔یہ صلاحیت کہاں سے آئی؟یہ طاقت کے کسی نہ کسی سماجی مرکز سے پھوٹ رہی ہے۔

جب تک قومی سطح پر اس بات کا شعور پیدا نہیں ہوتا،لوگوں کا استحصال جاری رہے گا۔ان کی زندگی میں کسی قابلِ ذکر تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔سیاسی عمل کو عوام کے حق میں فیصلہ کن بنانے کے لیے سماجی طاقت کے روایتی مراکز کو ختم کرنا یا ان کے کردار کو بدلنا ہوگا۔ان کے نمائندوں کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ عوام کا مزید استحصال اب قابلِ قبول نہیں۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ صاحبانِ کرداراقتدارتک پہنچیں تو اس کے لیے کردار کو ایک سماجی قوت بنانا ہوگا۔اگر روپیہ پیسہ سماجی قوت کا مرکز ہے تو یہ نہیں ہو سکتا کہ کردار والا اقتدار تک پہنچے۔پھر پیسے والے پر ہی ایوانِ اقتدارکے دروازے کھلیں گے۔اگر جاگیرقوت کا مرکز ہے تو اقتدار بھی جاگیردار کے پاس ہی رہے گا۔اگر عوام کے سر پیر کی چوکھٹ پہ جھکتے ہیں تو حکومت بھی پیر ہی کی ہوگی۔

آج ہم سماجی انتشار کی اُس سطح پر ہیں کہ سیاسی تبدیلی بے معنی ہو چکی۔ریاست کی باگ اب سیاست نہیں، معیشت کے ہاتھ میں ہے۔معیشت کی باگ جب ریاست کے ہاتھ میں نہ رہے تواسے ڈیفالٹ کہتے ہیں۔دعا کرنی چاہیے کہ یہ باگ ریاست کے ہاتھ سے نکلنے نہ پائے۔اس وقت پہلی اور آخری ترجیح یہی ہو سکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے