ریاستی الیکشن : گجرات میں مودی کا کوئی نعم البدل نہیں

انڈیا میں برسراقتدار سیاست دان عموماً دنیا کے کمزور ترین رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں کیونکہ یہاں ایک الیکشن میں منتخب ہونے والی حکومت کے اگلے الیکشن میں ہار جانے کے چانس زیادہ ہوتے ہیں۔

مگر نریندر مودی اس اصول سے مستثنیٰ دکھائی دیتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما نے مسلسل تین مرتبہ گجرات ریاست کی اسمبلی کے انتخابات جیتے اور 2014 میں وزیرِ اعظم بن کر دہلی منتقل ہونے سے پہلے 12 سال سے زیادہ عرصے تک اپنی آبائی ریاست گجرات پر وزیرِ اعلیٰ کی حیثیت میں حکومت کی۔

ان تمام تر کامیابیوں کے باوجود وزیر اعظم مودی گجرات کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں انتخابی مہم کی قیادت کرنے سے نہیں رُکے۔

جمعرات کو گجرات سے سامنے آنے والے نتائج کے مطابق بی جے پی کو ریاستی اسمبلی کی 182 میں سے 157 سیٹیں اور نصف سے زیادہ مقبول ووٹ مل گئے ہیں۔ اور ان نتائج نے اس جماعت کے لیے ریاست میں ساتویں مرتبہ مسلسل کامیابی کی راہ ہموار کر دی ہے۔

بہت سے مبصرین کے مطابق اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نریندر مودی کا ’گجرات میں کوئی نعم البدل‘ نہیں ہے

مودی نے خاص طور پر گجرات کے انتخابات کو اپنے لیے ایک ریفرنڈم بنا دیا تھا۔

انھوں نے 30 سے ​​زیادہ انتخابی مہم کے جلسوں میں شرکت کی اور ووٹروں کو راغب کرنے اور نیوز نیٹ ورکس پر بھرپور کوریج حاصل کرنے کے لیے انتخابی حلقوں میں میلوں کا سفر کیا۔

انھوں نے ریلیوں کے دوران ریاست گجرات کی شناخت ’اسمیتا‘ یعنی ’فخر‘ کا نعرہ اپنے لیے سیاسی طور پر استعمال کیا اور ووٹروں سے ان پر اور بی جے پی حکومت پر ’اعتماد‘ کرنے کی التجا کی۔

گجرات کی مہاراجہ سیاجی راؤ یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر امیت ڈھولکیا کہتے ہیں کہ ’آپ کو وزیر اعظم سے ریاستی انتخابات میں اتنا وقت اور توانائی صرف کرنے کی توقع نہیں ہوتی۔‘

تاہم انڈیا کی دیگر ریاستوں کی طرح گجرات میں بھی بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور مہنگائی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

گجرات صحت سے متعلقہ معاملات جیسا کہ شیرخوار بچوں اور زچگی کے دوران شرح اموات میں بھی دیگر ریاستوں سے پیچھے رہ گیا ہے۔

گجرات میں مقامی حکومت کے نظام میں بھی مودی کے جانشینوں کا اپنے ووٹرز کے ساتھ وہ تعلق نہیں رہا ہے جیسا کہ ان کا اپنا تھا۔

سنہ 2017 کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کو اپوزیشن کانگریس اور ایک بااثر زمیندار برادری سے تعلق رکھنے والے حامیوں کی مخالفت کا سامنا تھا جس کی وجہ سے اسے بہت ہی کم ووٹوں سے اکثریت ملی تھی۔

آن لائن خبروں اور حالات حاضرہ کی ویب سائٹ ’دی پرنٹ‘ کے چیف ایڈیٹر شیکھر گپتا کہتے ہیں کہ ’بہرحال جب ایک بار بھی مسٹر مودی کا نام انتخابات میں براہِ راست نظر آتا ہے تو انتخابی کھیل کا سکرپٹ بدل جاتا ہے۔‘

مبصرین کا کہنا ہے کہ مودی جانتے ہیں کہ گجرات میں بی جے پی کو پہچنے والا کوئی بھی دھچکا نہ صرف ان کی پارٹی بلکہ ان کی اپنی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچائے گا۔

اس بار ریاست میں انتخابی مہم میں زیادہ وقت اور توانائی صرف کرنے کی ایک نئی وجہ اروند کیجریوال کی قیادت والی اپوزیشن عام آدمی پارٹی (اے اے پی) ہو سکتی ہے۔

عام آدمی پارٹی 2015 سے دہلی کی شہری ریاست پر حکومت کر رہی ہے اور اس سال کے شروع میں پنجاب کی ایک کلیدی ریاست میں انتخابات جیتی ہے۔

بدھ کے روز عام آدمی پارٹی نے دارالحکومت دہلی کی امیر میونسپلٹی کا کنٹرول بی جے پی سے چھین لیا ہے، جس پر بی جے پی 15 سال سے حکومت کرتی آ رہی تھی۔

مسٹر کیجریوال ایک پرجوش لیڈر ہیں جو مودی سے پنجہ آزمائی کرنے میں مزہ لیتے ہیں: وہ 2014 کے عام انتخابات میں بی جے پی لیڈر سے مقابلہ کرنے کے لیے وارانسی (بنارس) بھی گئے (اگرچہ وہ یہ انتخاب ہار گئے تھے)۔

گجرات میں ان کی پارٹی نے نصف درجن سے بھی کم سیٹوں کے ساتھ اپنی سیاست کا آغاز کیا اور ڈالے گئے کل ووٹوں کا تقریباً 13 فیصد حاصل کیا، جس کا زیادہ نقصان مرکزی اپوزیشن پارٹی کانگریس کو پہنچا۔

پروفیسر ڈھولکیا کہتے ہیں کہ ’اس (عام آدمی پارٹی) نے اپوزیشن میں ایک جگہ بنا لی ہے۔ اسے نچلی سطح پر نیٹ ورک اور اچھی ساکھ والے امیدوار متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔‘

اس سال کے شروع میں 200 سے زیادہ شہروں اور قصبوں میں ’یوگوو‘، رائے عامہ کے جائزے لینے والی ایک عالمی مارکیٹ ریسرچ فرم، اور دہلی میں قائم تھنک ٹینک سینٹر فار پالیسی ریسرچ (سی پی آر) کے سروے سے پتہ چلا ہے کہ عام آدمی پارٹی قومی سطح پر بی جے پی کے متبادل کے طور پر اُبھر رہی ہے، اور کانگریس کی جگہ لے رہی ہے۔

سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے ایک اہلکار راہول ورما کا کہنا ہے کہ ’اب وہ سیاسی بساط پر داخل ہو رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ (عام آدمی پارٹی ) اگلا الیکشن جیتنے جا رہی ہے، لیکن وہ ریاست میں ایک سیاسی دعویدار بن گئی ہے۔‘

تاہم مسٹر مودی کی بی جے پی کو شکست دینا ایک مشکل کام ہے۔ ووٹ حاصل کرنے والے کے طور پر ان کی اپیل کا سہرا بی جے پی کے ہندوتوا نظریہ، ایک طاقتور تنظیمی ڈھانچے، وافر وسائل، حکمرانی کے ریکارڈ، ایک مضبوط سماجی اتحاد اور بڑے پیمانے پر حامی میڈیا کو بھی جاتا ہے۔

ایک کمزور اپوزیشن بھی مودی کے لیے ایک بڑی سیاسی مدد سے کم نہیں ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ گجرات میں کانگریس پارٹی کی بہت بُری کارکردگی سے پتہ چلتا ہے کہ ووٹروں کو یہ جماعت زیادہ پسند نہیں رہی ہے۔

چھوٹی پہاڑی ریاست ہماچل پردیش میں بی جے پی پر کانگریس کی تھوڑے سے فرق سے کامیابی – جہاں ووٹرز حکمران جماعت کو مسترد کر دینے کی شہرت رکھتے ہیں- ایک کمزور پارٹی کے لیے اپنی جگہ بنانے کی ایک بڑی امید کی ایک نادر جھلک پیش کرتی ہے۔

جو چیز بی جے پی کی مدد کرتی ہے وہ اس جماعت میں مختلف آرا رکھنے والے دھڑوں کا متحد رہنا ہے، یعنی پارٹی میں اونچی، نچلی اور درمیانی درجے کی ذاتوں کو جوڑے ہوئے رکھنا ہے جسے دیگر پسماندہ طبقات (OBCs) بھی کہا جاتا ہے۔ صرف پسماندہ طبقات گجرات کی چھ کروڑ سے زیادہ آبادی میں نصف کے قریب ہیں۔

مسٹر مودی کی کرشماتی شخصیت اور ووٹروں سے ان کا تعلق بی جے پی کی سب سے بڑی طاقت ہے۔

پروفیسر ڈھولکیا کہتے ہیں کہ ’تاہم پارٹی کی سب سے بڑی طاقت اس کی سب سے بڑی کمزوری بھی ہے۔ مودی کو بے جے پی کی سیاسی قوت کی اس مساوات سے باہر نکال لیں تو بے جے پی کمزور نظر آئے گی۔ مسٹر مودی پر انحصار مقامی قیادت کی کمزوری کا اعتراف بھی ہے۔ دوسرے ریاستی رہنما مقبول نہیں ہیں۔‘

بی جے پی اب گجرات پر 29 سال تک مسلسل حکمرانی کرے گی۔ اس سے قبل انڈیا کی کمیونسٹ پارٹی مغربی بنگال پر 34 سال تک طویل حکمرانی کا ریکارڈ قائم کر چکی ہے۔

72 سالہ مودی نے برسر اقتدار جماعت کی کمزوری کے سیاسی اصول کو غلط ثابت کیا ہے، اپنی ریاست میں بھی اور اس سے باہر بھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے