سی آئی اے کا ایجنٹ!

بہت عرصہ پہلے میں نے ایک کالم ’’سی آئی اے کا ایجنٹ ‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا جس کے آغاز میں ، میں نے یہ بڑیں ہانکی تھیں کہ پاکستان میں متعین امریکی سفیر میرا لنگوٹیا یار ہے ہم اکٹھے گلی ڈنڈا کھیلتے ہیں ۔لوہے کے ایک گول پہیے کو راڈ کے ساتھ سارے شہر میں دوڑاتے ہیں کچی زمین میں تھوڑا سا سوراخ کرکے ’’کُھتی‘‘ بناتے ہیں اور پھر بنٹے کھیلتے ہیں انگلی کی ٹھوکر سے جس کا بنٹا اس ’’کُھتی‘‘ میں جا گرتا تھا وہ سگریٹ کے خالی پیکٹ کا ایک حصہ میری کامیابی کے عوض مجھے دینے کا پابند تھا ہم نو نمبر ویگن میں بھاٹی گیٹ حلیم کھانے بھی جاتے تھے میکلوڈروڈ سے شربت تخم ملنگا بھی پیتے تھے ۔لڈو پیٹھیاں والے بھی کھاتے تھے اور ہاں کھیلوں میں ’’پٹھو گرم‘‘ بھی ہمارا فیورٹ تھا ،ہم ربڑ کا گیند تاک کر ایک دوسرے کو مارتے تھے ،میں یہ کام زیادہ قوت سے کرتا تھا جس سے اس کی سفید کمر پر لاسیں ’’پڑ جاتی تھیں ‘‘ ہم سگریٹ کے ٹوٹے بھی سڑکوں سے تلاش کرکے کسی دیوار کی اوٹ میں چھپ کر پیتے تھے غرضیکہ اس طرح کی خرافات بکنے کے دوران اسے مخاطب کیا اور کہا ’’یار تجھ سے ایک کام ہے ‘‘ بولا ’’بتائو‘‘ میں نے کہا مجھے پاکستان میں سی آئی اے کا ایجنٹ بنا دو ’’یہ سن کر وہ سوچ میں پڑ گیا اور پھر کچھ وقفے کے بعد بولا ’’یار عطاء تم نے زندگی میں پہلی بار مجھے کوئی کام کہا ہے مگر افسوس میں کر نہیں سکتا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیوں؟ ‘‘بولا ’’اس لئے کہ سی آئی اے کا ایجنٹ صرف اس ملک کا سربراہ ہوتا ہے‘‘

اب جب کبھی مجھے یہ واقعہ یاد آتا ہے اور میں ارد گرد نظر دوڑاتا ہوں تو اپنی اس بیہودہ اور بے معنی فرمائش پر مجھے ہنسی آتی ہے ،میں ا گرچہ سی آئی اے کا ایجنٹ نہیں ہوں ملک کاسربراہ نہیں ہوں مگر میرے حکم کی تعمیل منٹوں میں ہو جاتی ہے میں نے یہ جو حکم کا لفظ استعمال کیا ہے تو میں حکم نہیں دیتا صرف ریکویسٹ کرتا ہوں جس کی تعمیل حکم سمجھ کر کی جاتی ہے میں اگرچہ ایجنٹی سب کی کرتا ہوں مگر مجھے ایجنٹ نہیں سمجھا جاتا رہا، کیوں کہ کسی کی جرأت نہیں ہوتی کہ وہ میرے لئے ایسا لفظ استعمال کرے بلکہ مجھے ایک تجزیہ نگار سمجھا جاتا ہے، جو اپنے تجزیئے میں جسے چاہے ،جس مقام پر اسے بٹھانا چاہے اسے بٹھا دیتا ہے میرےانتہائی گہرے مراسم سربراہ حکومت و اپوزیشن لیڈر،وزرائے کرام، اور اسٹیبلشمنٹ کے سب بڑوں سے ہوتے ہیں، میں کھرب پتی بننا چاہوں تو کھرب پتی بن سکتا ہوں لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کرنا چاہوں تو مجھے کوئی روکنے والا نہیں سپریم کورٹ ،ہائیکورٹ اور نچلی عدالتوں میں اگر میرے خلاف کوئی پرچہ درج بھی ہوا ہو تو مجھے کوئی فکر نہیں ہوتی ۔

صرف یہی نہیں دوسری طرف میں بڑے سے بڑے پھنے خاں کو اس کی اجازت سے للکار سکتا ہوں اور عوام میں دبنگ جرنلسٹ سمجھا جاتا ہوں ،سیاست دان تو میرے سامنے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے انہیں جتنا رگیدوں ان پر گھٹیا سے گھٹیا الزام بھی لگائوں گا تو عوام اور اسٹیبلشمنٹ کی نظروں میں بہت زیادہ قابل قبول ہو جائوں گا ۔میں عدلیہ کے غیر عادلانہ فیصلوں کو بنیاد بنا کر سب کو چور، ڈاکو، لٹیرا اور اس کے علاوہ بھی جو کچھ کہنا چاہوں کہتا ہوں عوام کی نظروں میں اسے میری بہادری پرمحمول کیا جاتا ہے ،بس مجھے ایک ا حتیاط کرنا پڑتی تھی فوج کے کسی کرپٹ سے بھی زیادہ کرپٹ کے خلاف میں ایک لفظ بھی نہیں لکھ سکتا تھا مگر الحمدللہ اب یہ پابندی بھی نہیں رہی، میں کسی کرپٹ جرنیل یا کسی صاف ستھرے جرنیل کی پگڑی بھی اچھالنا چاہوں تو بآسانی اچھال سکتا ہوں۔ ایک وقت تھا کہ پہلے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک چلوائی گئی اور پھر اسے بآسانی پھانسی کے تختے پر چڑھا دیا گیا اس سے پہلے ایک اور وزیر اعظم قائد ملت لیاقت علی خاں کو جلسہ عام میں شہید کر دیا گیا۔ ایک اور وزیر اعظم بے نظیر بھٹو شہید کر دی گئیں ایک وزیر اعظم نواز شریف نے صرف اتنا کہا کہ ’’عوام کے ووٹ کو عزت دو‘‘ یا اس سے پہلے ایک کاغذ پر گن پوائنٹ پر ان کے دستخط لینے کی کوشش کی گئی مگر انہوں نےOVER MY DEAD BODYکہہ کر دستخط کرنے سے انکار کر دیا پھر انہیں بے تکے الزامات پر عدالت سے سزائیں سنائی گئیں اور ان کی گستاخی کسی سطح پر بھی بھلائی نہیں جاسکی مگر یہ سب باتیں اس دور کی ہیں جب سول اور فوج کے ساتھ ساتھ علیحدہ علیحدہ رویہ ا ختیار کیا جاتا تھا اب تو محمود وایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔

گزشتہ روز مجھے اپنے پرانے امریکی دوست کا فون آیا وہ ان دنوں امریکی حکومت میں ایک نہایت اہم بلکہ غیر معمولی عہدے پر متمکن ہے اس نے میرا حال احوال پوچھا ،گوالمنڈی، میکلوڈ روڈ، لکشمی چوک اور بھاٹی گیٹ کےکھابوں کے بارے میں پوچھا اور پھر کہا ’’میں نے آج تمہیں ایک اہم کام کیلئے فون کیا ہے ‘‘ میں نے کہا ’’خیر تو ہے‘‘ بولا خیر ہے تمہیں یاد ہے تم نے ایک دفعہ مجھ سے فرمائش کی تھی کہ تمہیں پاکستان میں سی ا ٓئی اے کا ایجنٹ لگوا دوں ،میں نے کہا بالکل یاد ہے،وہ کہنے لگا ’’اُن دنوں میں اس پوزیشن میں نہیں تھا اِن دنوں یہ کام میرے اختیار میں ہے بتائو بطور سی آئی اے ایجنٹ اپنی ڈیوٹی کب جوائن کر سکتے ہو؟‘‘ یہ سن کر میں نے تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور کہا اب اس کی ضرورت نہیں الحمدللہ میرے سارے مقاصد پورے ہو رہے ہیں بلکہ تم سے پرانی دوستی نبھاتے ہوئے تمہیں مشورہ دوں گا کہ دفع کرو امریکہ کو تم پاکستان آ جائو واللہ ساری عمر مجھے دعائیں دوگے!

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے