اگر کالم کا عنوان دیکھنے کے بعد کسی کا خیال ہے کہ اس کالم کو پڑھنے کے بعد اسے وہ تمام جوابات مل جائیں گے جن کا وہ لڑکپن سے متلاشی ہے تو ایسے ابھرتے ہوئے نوجوان سے گزارش ہے کہ وہ خوش فہمی کا شکار نہ ہو اور فوراً اپنے منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مار کر فیس بک پر کسی ایسی خاتون کی ڈی پی لائیک کرے جس نے اپنی شناختی کارڈ کے لئے کھنچوائی ہوئی تصویر پوسٹ کی ہو، مولاکرم کرے گا۔
اس ملک میں جس رفتار سے شادیاں ہوتی ہیں اور اس کے بعد جس تندہی سے بچے پیدا کئے جاتے ہیں ، اسے دیکھ کر کسی کو بھی حیرت نہیں ہونی چاہئے کیونکہ یہ دو کام ایسے ہیں جن پر ہمارے ہاں کا رجعت پسند اور آزاد خیال طبقہ دونوں متفق ہیں ۔یہ جو ہمیں ہر طرف ٹریفک کا اژدھام نظر آتا ہے ، اسپتالوں میں مریضوں کو جگہ نہیں ملتی، اسکولوں میں بچوں کی تعلیم معیاری نہیں ہے ، ہر طرف ناجائز تجاوزات کی بھرمار دکھائی دیتی ہے ، شہر بے ہنگم انداز میں پھیلتے جا رہے ہیں ، پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا عذاب ہو گیا ہے ، کروڑوں لوگ ارد گرد بیکار پھرتے نظر آتے ہیں ، ہمارے بازار ، گلیاں اور محلے آدم زادوں سے ٹھس گئے ہیں، کسی کام کے لئے سرکار کے پاس پیسے نہیں ہوتے، کروڑوں انسان خط ِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور یوں ہمیں ایک بے ترتیب جنگل میں رہنے کا گمان ہونے لگا ہے تو اس کی وجہ یہ شادیاں اور اس کے بعد پیدا ہونے والے بچے ہیں۔ کوئی ہر گز یہ نہ سمجھے کہ میں اس نیک کام کے خلاف ہوں ، البتہ جس روشنی کی رفتار سے ہم یہ فریضہ انجام دے رہے ہیں مجھے اس پر تشویش ہے۔
اِدھر شادی ہوئی ، اُدھر سا ل بعد بچہ گود میں ، اگلے سال دوسرا اور اس کے بعد تیسرا،ماشاءللہ ماشاءللہ کی صداؤں میں کسی کو ایکسلیٹر سے پیر ہٹانے کا ہوش رہتا ہےاور نہ اس بات کی پروا کہ انجن کا کیا حال ہوگا، بریک اس وقت لگاتے ہیں جب گاڑی کا انجر پنجر ہل چکا ہوتا ہے ، مگر تب تک چھ بچوں کی قطار گاڑ ی سے برآمد ہو چکی ہوتی ہےاور چاروں طرف سے’’ریں ریں ‘ ‘ کی صدائیں کانوں میں رس گھول رہی ہوتی ہیں ۔ کوئی شریف آدمی اعتراض کرے تو جواب میں یہ چند فقرے سننے کو ملتے ہیں :’’کسی کو کیا تکلیف ہے ، ہمارے بچوں نے کسی سے لے کر کھانا ہے کیا…..جس نے پیدا کیا ہے ، رزق بھی وہی دے گا…..اولاد تو خدا کی نعمت ہے ، بن مانگے موتی مل رہے ہیں ، اس کا کرم ہے ! ‘ ‘ ایک صحت مند کھلکھلاتے نونہال کو گود میں لے کر پیار کرنا دنیا کا سب سے پرلطف احساس ہے ، پوری کائنات کا حسن سمٹ کر ایک معصوم بچے کی مسکراہٹ میں سما جاتا ہے ، خوش نصیب ہیں وہ ماں باپ جنہیں خدا اس نعمت سے نوازتا ہے مگر اسی خداکا حکم میانہ روی کا بھی ہے، اسراف کسی چیز میں بھی ہو اسے پسند نہیں ، مگر ہر معاملے کی طرح اس معاملے میں بھی ہم خدا کی آدھی بات پر تو کان دھرتے ہیں کہ رزق دینے کا وعدہ اس نے کیا ہے مگر یہ سننے کو تیار نہیں کہ یہ رزق ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے سے نہیں ملتا ، اسی رب نے محنت کرکے رزق کمانے کا حکم دیا ہے ، جبکہ ہمارے ملک کا اصول یہ ہے کہ اگر خاندان کا ایک فرد کما رہا ہے تو باقیوں کو محنت سے خود بخود استثنا مل جاتا ہے ۔ بیٹوں کی خواہش میں ہم چھ چھ لڑکیاں توپیدا کرتے ہیں مگر انہیں ہنر مند یا تعلیم یافتہ نہیں بناتے اور یوں انہیں سفاک معاشرے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں ، کیا یہ حکم خداوندی کی پاسداری کا طریقہ ہے ؟
آج کل شادیوں کے موسم میں لوگ جس طرح اپنی اولاد اور آگے سے ان کی اولاد کی شادیاں کررہے ہیں تو یوں لگ رہا ہے جیسے یہی ایک کام ہے جو اس قوم کو آتا ہے۔ کہیں صرف شادی کارڈز کا بل پانچ لاکھ بنتا ہے تو کہیں کوئی ’’فہمیدہ ‘ ‘ پچاس ہزار میں بیاہ دی جاتی ہے ، کسی کی بیٹی کا لہنگا بیس لاکھ میں بنتا ہے تو کسی کی بیٹی کے جہیز کیلئے لاکھ روپے اکٹھے کرنے مشکل ہو جاتے ہیں۔ اشفاق احمد کا لا زوال ڈرامہ ’’فہمیدہ کی کہانی ، استانی راحت کی زبانی ‘ ‘ یاد آیا ۔ استانی راحت اپنی بیٹی فہمیدہ کو کہتی ہے کہ گھر میں اس کے جہیز کا قیمتی سامان پیٹی میں رکھا ہے ، اس کا خیال کیا کر، چوروں کا کچھ پتہ ہوتا ہے ، اٹھ کر کنڈی لگا اور پیٹی کا تالا دیکھ۔ جواب میں فہمیدہ کہتی ہے : ’ ’ کیا ہے اس پیٹی میں ؟ آٹھ پیتل کے برتن اور ایک ٹیبل فین!کیا ہے اتنا قیمتی اماں جس کی تو ہر وقت رکھوالی کرتی رہتی ہے !چوروں کو تیرے گلاس اور نائلون کے دوپٹے نہیں چاہئیں ۔انہیں چیچہ وطنی کے کھیس کسی مردے پہ نہیں ڈالنے ۔ہر وقت کنڈی چڑھا دے، کنڈی دیکھ لے، تالا لگا دے ،پردہ گرا دے ۔کوئی بھی چیز قیمتی نہیں ہے اس کوارٹر میں ، نہ تیری بیٹی نہ تیری پیٹی ۔ ہم تینوں تو اگر سڑک پر پڑے ہوں ناں تو کوڑے والا ٹرالی میں بھی نہ ڈالے ہم کو ۔ تو کس خیال میں پڑی ہے اماں تو کس خیال میں پڑی ہے ! ‘ ‘
ہم سب آج کل شادیاں اٹینڈ کر رہے ہیں ، سوٹ بوٹ پہن کر جاتے ہیں ، بے دریغ کھانے کا ضیاع کرتے ہیں ، جن کو خدا نے دولت دی ہے وہ اپنی اولاد کی خوشی میں لاکھوں کروڑوں روپے ان کی شادی میں پانی کی طرح بہاتے ہیں ، بے شک والدین کے لئے اس سے بڑھ کر خوشی کا موقع زندگی میں نہیں ہو سکتا مگر اس ضمن میں تین باتوں کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ پہلی ، اسراف نہ ہو، بیٹے یا بیٹی کو جو بھی دینا ہے اس کی بے جا نمائش نہ کی جائے ، آ پ کی اولاد کا مقدر اچھا تھا کہ وہ کرورڑ پتی کے گھر پیدا ہو گئی مگر ممکن ہے یہ سب دیکھ کرکہیں کسی بد نصیب فہمیدہ کے دماغ کی شریان پھٹ جائے سو پلیز اپنی بیٹی کو جو دینا ہے ایسے دیں کہ دکھاوا نہ لگے! دوسری بات مڈل کلاس طبقے کے لئے ، بیٹیوں کی شادی میں لہنگے ، زیورات ، کھانے یا مہنگے شادی ہالوں پر پیسے ضائع کرنے کی بجائے سادگی سے شادی کرکے اسی پیسے سے بیٹی کے نام کوئی جائیداد یا پلاٹ وغیرہ لگا دیں تو بیٹی کے لئے زیادہ سود مند ہوگا، بنارسی کپڑوں کے تاجروں کو پیسے دینے سے بہتر ہے اپنی بیٹی کا مستقبل محفوظ بنائیں ۔ تیسری بات ، جو امرا اپنی اولاد کی شادیوں پر کروڑوں خرچ کررہے ہیں وہ اپنی بیٹی کے لہنگے کی قیمت کا کم از کم دس فیصد کسی فہمیدہ کی شادی پر ضرور خرچ کر یں۔آخر میں ایک گلہ علمائے کرام سے ۔آئے دن ہم فحاشی کے خلاف بیانا ت سنتے ہیں، فحاشی کے خلاف تحریک چلانے کی بات کرتے ہیں ، جمعے کے خطبات میں اس پر غم و غصے کا اظہار کیا جاتا ہے ، مگر کہیں یہ سننے کو نہیں ملتا کہ فحاشی کی ایک قسم شادیوں پر کیا جانے والا اسراف بھی ہے اورفحاشی کی ایک قسم غریب بن بیاہی لڑکیاں بھی ہیں جن کی شادیاں اس لئے نہیں ہو پا رہیں کہ وہ غلطی سے کسی استانی راحت کے گھر پیدا ہو گئی ہیں! ہمیں سرخ کپڑوں میں لیٹی ہوئی ماڈل پر تو اعتراض ہے کہ صفحہ اول پر اس کی تصویر فحش لگ رہی تھی مگرغربت کی شکل میں جو فحاشی ہمارے چاروں طرف بکھری ہوئی ہے اس بارے میں ہم یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں کہ یہ ریاست کی ذمہ دار ی ہے اورریاست کا حال یہ ہے کہ ہر برس چالیس لاکھ’’ کاکے ‘ ‘ اس ملک میں پیدا ہوتے ہیں مگرریاست کے ریڈار پر آبادی کا یہ ایٹم بم سرے سے نظر ہی نہیں آتا! – بشکریہ روزنامہ "جنگ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔