فتنہ انگیزی اور مسائل کا انبار

مجھے عمران خان اور رانا ثنااللہ کو خلیل جبران کا ایک جملہ سُنانا ہے ’’زبان ایک ایسا درندہ ہے، جسے اگرکھلا چھوڑ دیا جائے تو وہ تمہیں بھی پھاڑ ڈالے گا۔‘‘ یہ فقرہ میں نے زاہدہ حنا کے کالم سے چُرایا ہے۔ ان دونوں کو ابھی تک کوئی تہذیب اور تقریر نہیں سکھا سکا ۔ مجھے کرار حسین اور سبطِ حسن صاحب یاد آتے ہیں۔ وہ اتنے دھیمے لہجے میں ہمیں مذہب اورفلسفہ سکھاتے تھے کہ ہم سب نالائق شانت ہو کے بیٹھ جاتے اور نوٹس بناتے تھے۔ یہ جو سالہا سال سے خود ساختہ اور خضاب زدہ لیڈر، کبھی ہمارے سامنے 2016ء والی پُرفریب مہاجر فنا گیر تحریک کو دوبارہ مسیحائی کر کے نامعلوم، کون کون سی قوتیں پس پردہ کام کر رہی ہیں جبکہ اس وقت موضوع سخن اور نوحہ گری مہنگائی کی ہے۔ گیس کی کمیابی کی ہے۔

ایک اور فتنہ جسے اب تک جرگوں نے کھڑا کیا تھا اور اب پشاور ہائی کورٹ نے بھی فیصلے کی طرح سُنا دیا ہے کہ جس شخص نے کسی نوجوان لڑکی کی عصمت دَری کی تھی، اُسے شادی پہ آمادہ کیا اور سزا معاف کر دی۔ ہرچند سُنا ہےکہ کےپی حکومت سپریم کورٹ گئی ہے۔ دیکھئے کیا ہوتا ہے۔

پاکستان کےبے تحاشہ فتنوں کے بارے بتانے لگوں تو سب سے ہولناک تو ڈیرہ اسماعیل خاں یونیورسٹی کے باریش بزرگ جو وائس چانسلر کے بعد عہدے پر فائز تھے، وہ کئی سال تک لڑکیوں کو اپنا نشانہ بناتےرہے اور بڑی مشکل سے کئی سال بعد قابو میں آ گئے اور یونیورسٹی سےنکالے گئے، ابھی سانس نہیں لیا تھا کہ کراچی کی حیوانات کی ڈاکٹر کو اس کے سینئر ڈاکٹر نے پہلے نشانۂ ستم بنایا اور جب بےجان ہوگئی تو مار کر سمندر میں پھینک دیا۔ ایسے واقعات ہر روز اخباروں کے آدھے صفحے پر چھپے ہوئے دِکھائی دیتے ہیں۔

سامنے نظر دوڑائی جائے تو سب سے ہولناک کشمیر اور یوکرین میں ہونے والے واقعات ہیں، خصوصاً خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتیاں ، جو اس شدید سردی میں ایک طرف بے گھر ہو رہے ہیں، دُوسری طرف ان کے مرد، روسی اور انڈین فوجیوں کے ہاتھوں بے گناہ مارے جارہے ہیں۔ یہی حال ہمارے بلوچستان اور سندھ کے علاقوں کا ہے جہاں ابھی تک پانی کھڑا ہے۔ گھر بھی نہیں بنا کر دیئے گئے اور کھڑے پانی میں فصلیں بھی نہیں اُگائی جا سکتیں۔

فتنہ انگیزی کی حد تو روز کے اُلٹے سیدھے بیانات ہیں جن میں ابھی تک سیاسی لوگوں کے نام لئے جاتے تھے، اب فوج کے سربراہ نے خود نہیں، خودکار صحافیوںکا ہاتھ پکڑ کر صاف چھپنے کا سامان بھی کیا۔ حالانکہ فوج کے سیاست میں نہ آنے کا وعدہ کرنے کے باوجود یہ نہیں بتا رہے کہ سارے افسر، ان کی حکمرانی کے زمانے میں عمران سے نہیں جی۔ایچ۔کیو سے دستخط کروانے کیوں جاتے تھے۔ یہ راز بھی نہیں کھولتے کہ ساڑھے تین سال آخر عمران کو وزیراعظم بنائے رکھنے کی منطق کیا تھی؟فتنہ انگیزی کو دیا سلائی دِکھانے کو باقاعدگی سے آڈیوز اوروڈیوز نکال کر چسکا پروگرام جاری ہے جبکہ آٹا دستیاب نہیں اور دس روپے میں تو ایک آلو آتا ہے۔ پہلے باجوہ صاحب کوسعودی عرب خیرات کے لئےبھیجتے تھے اور اب نئے صاحب کو آزمایا جا رہا ہے۔افغانستان میں خواتین کے ساتھ زیادتیوں کے خلاف ساری دُنیا بول رہی ہے مگر طالبان پہ ذرّہ بھر اَثر نہیں ہو رہا۔ ہمارے جوان اور افسروں کو افغان طالبان مسلسل ہدف بنا رہے ہیں۔ گوادر کے حالات کو کیا صرف مولوی ہدایت اللہ خراب کررہے ہیں؟ اگر رویہ ایسا ہی رہے گا تو سی پیک کیسے آگے بڑھے گا؟ گلگت میں امن کیسےقائم ہوگا؟ سیاسی بے چینی بجائے ختم ہونے کے، نت نئے پینترے بدل رہی ہے اور معاشی راستے کھولنے سے گریزاں ہے جبکہ افغان بارڈر سے ڈالر اور گندم روز اسمگل کئے جارہے ہیں۔ روز غیرممالک کو سفر کرنے والے کروڑوں روپے کی آئس، حشیش اسمگل کررہے ہیں۔

ان حالات کے مقابلے میں حالیہ دو سال میں سینکڑوں سعودی خواتین ٹرینڈ ڈرائیور کے طور پر کام کررہی ہیں، سائیکل چلا رہی ہیں۔ 200طاقتور عرب خواتین کو تربیت دی جا رہی ہے کہ وہ سرعام دوڑ لگائیں۔ فنّی تربیت کے بعد کارخانوں میں کام کریں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کو دُوسرے ملکوں میں سفیر لگایا جائے جبکہ ایران میں نوجوانوں کو پھانسی دی جارہی ہے کہ وہ حجاب کے خلاف خواتین کے ساتھ مظاہروں میں شامل رہے ہیں۔

اب ایک اور فتنہ جو میرے ساتھ ہوا۔ وہ درج کرتی ہوں:

’’میں جس سڑک پہ تھی، اس کے دونوں طرف دُھوپ تھی۔ یہاں کرسیوں پر پیر رکھے موٹر مکینک ہنستے ہوئے چائے پی رہے تھے۔ کئی دفعہ جی میں آئی کہ گاڑی سے اُتر کر ان کے ساتھ بیٹھوں۔ اللہ کو شایدمیری خواہش پسند آئی۔ ابھی میری گاڑی سڑک کے درمیان تھی کہ سائیڈ لین سےبلاکی طرح اُڑتی ایک کار میری گاڑی کو گھسیٹتی لے گئی۔ اچانک جھٹکے سے گاڑی بند، چاروں جانب مجمع نعرے لگا رہا تھا ’’اللہ نے بچا لیا، اللہ نے بچا لیا۔‘‘ میں گاڑی سے اُتری، مردار پرزوں کا ڈھیر میرے سامنے تھا۔ گاڑی کا حال دیکھ کر سر پکڑ کر کھڑی تھی۔ اچانک مہربان ہاتھوں نے مجھے اپنی پناہ میں لے لیا اور اب پولیس آ گئی تھی، اب میں سڑک چھاپ ہوگئی۔ ایک اور دفعہ ٹیکسی لینے پہ آٹے دال کا بھائو پتہ چلا۔ کوئی ٹیکسی والا ہزار روپے سے کم پہ نہیں ٹھہرتا تھا۔ حوالہ دیتا تھا۔ ’’باجی آٹے کی قیمت دیکھئے۔‘‘ میں دیکھ رہی تھی کہ آج ملک بدر شخص (جو اپنی مرضی سے ملک بدر تھا) وہ آ رہا ہے۔ اس کےاثاثے کھل رہے ہیں۔ لو وہ ایک اور وزیر بنا دیا گیا۔78وزیروں کے قافلے والے ایک طرف اور بی بی سی پر انگریزی بولتے رہنما دُوسری طرف دیکھ کر بھوکی قوم مسکرا رہی تھی۔ سامنے اخبار تھا جس میں لکھا تھا کہ ’’رونالڈو اور ان کی پارٹنر کو سعودی عرب میں رہنے کی سہولت دیدی گئی ہے۔‘‘

میں ایک طرف اپنی گاڑی کےلئےافسردہ تھی تو دُوسری طرف اخبار میں لکھا تھا۔ ’’لندن میں 44سال پُرانی عربی بُک شاپ بند ہوگئی ہے۔‘‘ یہ سب پڑھنے کے بعد عالمی سطح پر پاکستان کو امداد دینے کا سُن کر ہم پاکستانی خود کو بھکاری سمجھ رہے ہیں۔ افسوس۔
������ ���

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے