چیٹ جی پی ٹی تھری ’جنریٹو پری ٹرینڈ ٹرانسفارمر ورژن تھری‘ کیا ہے؟

[pullquote]چیٹ جی پی ٹی تھری کیا ہے؟[/pullquote]

گزشتہ کئی دہائیوں کی محنت کے بعد تیار کردہ بوٹ چیٹ جی پی ٹی تھری انگریزی کے لفظ ’جنریٹو پری ٹرینڈ ٹرانسفارمر ورژن تھری‘ کا مخفف ہے۔

بظاہر یہ ایک سرچ انجن جیسا ویئر ہے جس پر سوال لکھنے پر تفصیلی جواب مل جاتے ہیں۔ مگر یہ اتنا سادہ نہیں بلکہ انتہائی طاقتور ترین ہتھیار ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں انٹرنیٹ پر اس کی دھوم اس وقت مچنا شروع ہوئی جب صارفین نے اس کے ذریعے سوالات پر سیکنڈوں میں اتنے متاثر کن جوابات شیئر کیے جو انسانوں کو دیے جائیں تو انہیں گھنٹوں یا دن لگ جائیں۔

یہ ٹیورنگ ٹیسٹ پاس کر چکا ہے۔ ٹیورنگ ٹیسٹ کا نام ایلن ٹیورنگ کے نام پر رکھا گیا ہے اور یہ طے کرتا ہے کہ آیا مصنوعی ذہانت اتنی آگے جا چکی ہے کہ عام انسان کو بے وقوف بنا کر یقین دلا دے کہ دوسری طرف بھی انسان ہی بات کر رہا ہے۔

[pullquote]’چیٹ جی پی ٹی‘ سے کیسے نمٹیں؟ [/pullquote]

دنیا بھر میں میڈیکل اور پروفیشنل امتحانات کامیابی سے پاس کرنے والے مصنوعی ذہانت پر مبنی چیٹ بوٹ نے پاکستان کے اعلٰی تعلیم کے ادارے ایچ ای سی کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے اور اس حوالے سے حکمت عملی طے کرنے کے لیے ماہرین کا گروپ تشکیل دے دیا گیا ہے۔

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر مختار احمد نے بتایا کہ ان کا ادارہ ماہرین کا ایک گروپ تشکیل دے گا تاکہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے امتحانات پاس کرنے اور تحقیقی مقالے لکھنے والے طاقتور ترین چیٹ بوٹ کی چیلنج سے نمٹا جا سکے۔

اگرچہ چیٹ بوٹس کوئی نئی ٹیکنالوجی نہیں ہے، تاہم ’اوپن اے آئی‘ کے چیٹ جی پی ٹی بوٹ نے گزشتہ سال دسمبر میں صارفین کے سوالات کا جواب دینے میں انسانوں جیسی صلاحیت حاصل کر کے تہلکہ مچا دیا تھا جس کے بعد بہت سے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ ٹیکنالوجی میں اس پیش رفت کی وجہ سے اہم رکاوٹیں کھڑی ہو سکتی ہیں۔

[pullquote] ماہرین تعلیم کی تشویش[/pullquote]

دنیا بھری میں ماہرین تعلیم اس بات پر تشویش میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت والے چیٹ بوٹس امتحانات میں نقل اور دھوکہ دہی کی ترغیب دے سکتے ہیں۔

اس ماہ کے شروع میں نیویارک شہر کے محکمہ تعلیم نے اپنے سکولوں کے آلات اور نیٹ ورکس سے چیٹ جی پی ٹی پر پابندی کا اعلان کیا۔ مصنوعی ذہانت سے چلنے والے چیٹ بوٹ نے حال ہی میں یونیورسٹی آف پنسلوینیا میں ایم بی اے کا امتحان بھی پاس کر لیا تھا۔ اسی بوٹ نے اس سے قبل میڈیکل کا امتحان کامیابی سے پاس کر لیا تھا۔
اسی ماہ دنیا کے سرفہرست سائنسی جرائد نے نئی ادارتی پالیسیوں کا اعلان کیا ہے جس کے تحت محققین پر سائنسی مطالعات لکھنے کے لیے چیٹ جی پی ٹی جیسے آرٹیفشل انٹیلی جنس بوٹس کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی۔

[pullquote]پاکستان میں چیٹ جی پی ٹی کا چینلج؟[/pullquote]

پاکستان میں ایچ ای سی نے فی الحال اس مسئلے پر کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا، ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد نے عندیہ دیا ہے کہ اس سلسلے میں جلد ایک پالیسی بنا دی جائے گی۔

ایچ ای سی کے ماہرین اس سے قبل سرقہ کے انسداد اور کاپی رائٹس کے تحفظ کے لیے سافٹ ویئر ’ٹرن اٹ ان‘ استعمال کر رہے ہیں تاہم نئے چیٹ بوٹ کے پاس اس پرانے سافٹ ویئر کا توڑ موجود ہے کیونکہ اس سے موصول ہونے والے جوابات میں چوری شدہ مواد پکڑا نہیں جا سکتا۔

پاکستان کی ماہر تعلیم اور وفاقی حکومت کی تعلیمی امور پر سابق مشیر عائشہ رزاق کے مطابق یہ انتہائی طاقتور بوٹ ہے۔ انگریزی اخبار کے لیے لکھے ایک حالیہ مضمون میں انہوں نے کہا کہ طالب علموں کے لیے چیٹ جی پی ٹی ایک ذاتی ٹیوٹر کے طور پر باقاعدہ سرچ انجن سے کہیں زیادہ آسان ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام اس کو تعلیم کے علاوہ تفریح کے لیے بھی استعمال کریں گے۔ ان میں اس کے ذریعے شاعری اور گانوں کے بول پیدا کرنا، افسانوی کہانیاں لکھنا اور کتابوں، فلموں اور ٹی وی شوز میں کرداروں کے لیے مکالمے اور ’جعلی‘ کوٹس بنانا بھی شامل ہے۔

تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ کہ کئی لوگ اس سے جعلی خبریں اور سوشل میڈیا پوسٹس وغیرہ بھی بنا سکتے ہیں۔

عائشہ رزاق کے مطابق سنجیدہ لوگ اس کو دنیا کے مخصوص منصوبوں اور خطوں کے لیے کاروباری منصوبے تیار کرنے، تحقیقی خلاصے بنانے، اور کوڈ کو سمجھنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔تاہم ان کے مطابق چیٹ جی پی ٹی ابھی گوگل اور بِنگ وغیرہ کو ختم نہیں کر رہا۔ اس میں کچھ خامیاں بھی ہیں اور کچھ استعداد کی کمی بھی ہے۔ اوپن اے آئی کو چیٹ جی پی ٹی تک عوامی رسائی کو حسب توقع روکنا بھی پڑا، کیونکہ مانگ تو اس کی بہت ہے مگر اس کے ذریعے جواب پیدا کرنے کی صحیح لاگت کافی زیادہ ہے اور ایک تخمینے کے مطابق صرف توانائی کے اخراجات کے لحاظ سے 15 لاکھ سے 18 لاکھ ڈالر تک اخراجات ہیں۔

[pullquote] ’چیٹ جی پی ٹی‘ ایک مددگار اور وقت بچانے والا ہتھیار[/pullquote]

ماہر تعلیم عائشہ رزاق نے مزید کہا کہ ’چیٹ بوٹ تعلیمی اداروں کے لیے ایک موقع بھی ہے اور ایک چیلنج بھی۔ زیادہ تر اعلٰی درجے کے نجی سکولوں اور یونیورسٹیوں میں اساتذہ کو ہدایات اور تشخیص کو اپنانا ہوگا۔‘

’کچھ طریقوں کو تبدیل کرنا ہوگا اور اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت کے پروگراموں میں اس کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ زیادہ تر سرکاری سکولوں پر اس بوٹ کا اثر محدود ہوگا کیونکہ ان کے ہوم ورک کے لیے زیادہ کھلی تحریر کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘

ان کے مطابق تحقیق کے لیے ’چیٹ جی پی ٹی‘ ایک مددگار اور وقت بچانے والا ہتھیار بن سکتا ہے لیکن صرف اس کا استعمال کرنے والے ہی اس کو صحیح طریقے سے رہنمائی کرنے اور اس سے پیدا ہونے والے آؤٹ پٹ کا اندازہ لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

’اس کے بغیر اگر صارف کے پاس اس بوٹ کی پیداوار کی تصدیق کرنے کی مرضی یا صلاحیت نہیں ہے تو یہ صرف وقت کی بات ہو گی جب تک کہ ہم ایسے ’محققین‘ کو مضامین شائع کرتے ہوئے دیکھیں گے جو اپنی ہی ’تحقیق‘ کو سمجھ نہیں پاتے اور وضاحت کرنے سے قاصر ہیں۔

بشکریہ اردو نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے