جو سب کےلیے آواز بلند کرتے ہیں کیا اُن کےلیے بھی کوئی آواز اٹھائے گا؟

انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس نے پاکستان کو صحافیوں کے لیے غیرمحفوظ ترین قرار دیئے جانے والے پانچ ممالک میں شامل کر دیا ,رپورٹ کے مطابق گزشتہ 20 برس کے دوران دنیا بھر میں 1700 صحافی ہلاک ہوئےجن میں سے 93 کا تعلق پاکستان سے ہے،2003سے 2022 کی دو دہائیاں خاص طور پر تحقیقاتی صحافیوں کے لیے خونی رہی ہیں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران جنگ زدہ علاقوں کی نسبت زیادہ صحافی پرامن علاقوں میں مارے گئے ہیں کیونکہ وہ منظم جرائم اور بدعنوانی کی تحقیقات کر رہے تھے۔ میکسیکو میں 125، فلپائنز میں 107، پاکستان میں 93، افغانستان میں 81 اور صومالیا میں 78 صحافی گزشتہ 20 برس میں قتل ہوئے
پاکستان میں4 دفعہ مارشل لا لگا اور ہر دفعہ صحافی زیر عتاب آئے کبھی جیل کی ہوا کھائی کبھی کوڑے 1978 کو اس وقت کے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، جنرل ضیا الحق کے خلاف صحافیوں نے ملک بھر میں آزادی صحافت کی ایک تحریک چلا رکھی تھی ،تحریک زروں پر تھی ان دنوں صحافی روزانہ گرفتاریاں پیش کر رہے تھے اور چار سو سے زیادہ صحافی گرفتار ہو چکے تھے 13مئی کوکو لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں تین صحافیوں کو ننگا کر کے صرف اس لیے کوڑے مارے گئے کہ باقی صحافی عبرت حاصل کریں اور فوجی آمریت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں۔حکومتیں بدلی جمہوریت آئی مگر صحافیوں کی حالت زار نہ بدلی۔

پاکستان نہ صرف صحافیوں کے لیے غیر محفوظ ہے بلکہ یہاں صحافیوں کو نامسائد حالات کا سامنا بھی ہے جبری برطرفری،کم تنخواہ، آزادی اظہار رائے پر قدغن ،غیر اعلانیہ سنسر شپ، ادارے کی جانب سے دباؤ کا سامنا،تنخواہوں کا لیٹ ہونا،الغرض شاید ہی کوئی پریشانی ہو جس کا سامنا صحافی حضرات کو نہ کرنا پڑتا ہے،کیپیٹل ٹی وی کے کیمرا مین فیاض علی تنخواہ کی ادائیگی کے بغیر ملازمت سے برطرف ہونے کے بعد دل کا دورہ پڑنے سے فوت ہوگئے جبکہ بول نیوز کے معاذ اختر نے تنخواہ کی عدم ادائیگی اور گھریلو معاملات کی وجہ سے 5 نومبر کو خودکشی کرلی تھی،سٹی 42 کے کیمرہ مین رضوان ملک کی شادی کو ڈیڑھ ماہ ہوا تھا،کئی ماہ تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے سخت ڈیپریشن کی حالت میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئےتھے، یہ وہ کیس ہیں جو سوشل میڈیا کی وجہ سے لائم لائٹ میں آئے بہت سے ایسے واقعات بھی ہیں جن کے بارے میں شاید ہی کوئی جانتا ہو سب کے لیے آواز اٹھانے والے خود کن حالات سے گزرتے ہیں۔

ابصار عالم ایف الیون پارک میں واک کررہےتھےکہ نامعلوم افراد نے فائرنگ کی جس میں وہ زخمی ہوئے 6 ملزماں گرفتار ہوئے مگر اب تک ان ملزماں پر فرد جرم بھی عائد نہیں کی ہوئی حامد میر پر 2014 میں ایک قاتلانہ حملہ ہوا جس کی تحقیقات کے لیے کمیشن بھی بنا مگر ذمہ داروں کا تعین ہو سکا نہ ہی کسی کو سزا ہوئی۔مطیع اللہ جان کا اغوا ، احمد نورانی پر چند نامعلوم مسلح افراد کے حملے اسد علی طور کو ان کےگھر میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ،صحافی عزیز میمن کو قتل کر کے ان کی لاش کو نہر میں بہا دیا گیا۔

پولیس نے پہلے تو اسے خود کشی قرار دے دیا لیکن صحافتی تنظیموں کی دباؤ پر جب لاش کا پوسٹ مارٹم ہوا تو پولیس ملزمان کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئی۔ نصرت جاوید پر ایک قاتلانہ حملہ بھی کیا گیا جس میں وہ بال بال بچ گئے تھے، کرایہ نامہ کے کیس میں معروف صحافی اور دانشور عر فان صدیقی کو آدھی رات کو گرفتار کر لیا گیا، اسلام آباد کے صحافی وقار ستی کے خلاف توہین مذہب کی دفعات کے تحت قائم مقدمہ ہائی کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود برقرار ہےصحافیوں پر سب سے زیادہ حملے اسلام آباد میں ہوئے ,صحافیوں کے لیے خطرناک ترین جگہ قبائلی علاقے نہیں بلکہ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد ہے۔

سب سے زیادہ اندوہناک قتل معروف صحافی ارشد شریف کا کینیا میں ہوا جس کے تانے بانے پاکستان کی سرزمین پر موجود افراد سے ملنے کا شبہ ظاہر کیا گیا ہے، ارشد شریف کے لرزہ خیز قتل نے جہاں عالمی پاکستان کا امیج خراب کیا ،بلکہ اِس شعبے میں آنے کی خواہش رکھنے والوں کے دلوں میں بھی خوف پیدا کیا۔ مقتول ارشد شریف کو کیوں قتل کیا گیا؟ قتل کے کیا محرکات تھے؟ اس پر ابھی تفتیش جاری ہے۔ ارشد شریف کی بیوہ جویریہ ہر فارم پر اپنے شوہر کو انصاف دلاونے کے لئے آواز اٹھا رہی ہیں کیا ان کا انصاف مل سکے گا؟ ایک ایسے ملک میں جہاں فریڈم نیٹ ورک کی ‘سالانہ امپیونٹی رپورٹ’ 2022 کے مطابق 2012 سے 2022 کے درمیان ہونے والے صحافیوں کے قتل کے 96 فیصد واقعات میں ملزمان کو کوئی سزا نہیں ملی۔رپورٹ کے مطابق 2012 سے 2022 کے درمیان 53 پاکستانی صحافیوں کو قتل کیا گیا لیکن ان 53 کیسز میں سے صرف 2 کے مجرموں کو سزا سنائی گئی۔کیا صحافی ہونا جرم ہے کیا صحافت کرنا عوام تک سچ پہنچانے کی سزا موت ہے ۔

ارشد شریف کی موت کے بعد نامسائد صحافتی حالات کی وجہ سے 3 صحافی پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے
پاکستان کو آزاد ہوئے ستر سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے، لیکن ابھی تک نہ تو صحافت آزاد ہے اور نہ ہی اظہار رائے کی آزادی ہے، سو کے قریب ٹی وی چینلز کئی سو اخبارات اور ریڈیو چینلز ہونے کے باوجود کیا صحافی آزاد ہیں۔۔؟؟کیا میڈیا شتر بے مہار آزادی چاتا ہے۔؟یہ وہ سوال ہے جو بار بار اٹھایا جاتا ہے نہیں ہم صرف اپنے بنیادی حقوق چاہتے ہیں جو باقی دنیا میں صحافیوں کو حاصل ہیں صحافت کو ریاست کا چھوتھا ستون کہا جا تا ہے اس ستون کو کھوکھلا نہ کیا جائے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے