عارف کا ڈھابہ اور آخری سانسیں لیتے ہوئے فش ہاربر

جب گھر میں چائے پینا نصیب نہیں ہوتی ، تو میں اپنے کھٹارے موٹر بائیک کو کک لگا کر سیدھا عارف کے ڈھابے کی طرف جاتا ہوں۔ عارف کا ڈھابہ پسنی مول کے سامنے موجود ہے ،جہاں مزری سے بنائے گئے بلوچی چٹائیوں پر بیٹھ کر چائے کی چسکیاں لینے کا ایک الگ مزہ ہے، یہی مصنوعی خوشی مجھے یہاں آنے پر مجبور کرتی ہے اور سامنے کے مناظر کو باریک بینی سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔

میں مول کے دیوار پر ٹیک لگاکر سامنے کے مناظر دیکھتا رہا۔ میرے پیچھے وہی مول ہے جہاں چند دہائی پہلے روزانہ لاکھوں کا کاروبار ہوتا تھا۔ اسی کاروبار سے تین فیصد پسنی فش ہاربر اور تین فیصد مول ہولڈرز کو ملتا تھا۔ اسی مول میں دیہاڑی دار مزدور بھی آکر روزانہ اتنا کماتے تھے کہ گھر کا خرچہ آسانی کے ساتھ چلتا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب پسنی فش ہاربر ایک منافع بخش ادارہ ہوتا تھا اور اس ادارے کی منیجنگ ڈائریکٹر بننے کا خواب ہر آفیسر دیکھتا تھا۔

چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے بار بار میری نظریں خستہ حال اور ریت میں دھنسے جے ٹی پر اٹک جاتی ہیں۔ ہاربر کے تمام چینلز بند ہیں ریت میں دھنسی ہوئی ہاربر آخری سانسیں لے رہی ہے۔

ہاربر کے انٹری گیٹ پر درج تختے کے مطابق اس ہاربر کی افتتاح چار اپریل 1989 کو اس وقت کے وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے کی تھی۔ وقت گزرتا گیا اور صوبائی حکومت کا یہ منافع بخش ادارہ عدم ڈریجنگ اور ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے کھنڈرات بنتا گیا اور 2006 میں ہاربر مکمل طور پر ریت کی نذر ہوگیا۔

میں حیرت بھری نگاہوں سے جے ٹی کے چینلوں کو دیکھتا رہا جو ریت کے ٹیلے بنے ہوئے تھے پھر یہ دیکھتے ہوئے ماضی کے اوراق کو ٹٹولتا رہا اور ماضی کے کچھ صفحے دیکھتے ہی یاد آیا کہ جب میں میٹرک میں زیر تعلیم تھا تو میرے مرحوم ابو کبھی کبھار مجھے یہاں لے آتے تھے اور میں ابو کے لانچ پر کھڑا کر قدرت کے حسین شاہکاروں کو دیکھتا تھا، یہ پَسِّنی کا سب سے رش پوائنٹ تھا اور روزانہ یہاں درجنوں لانچ اور کشتیاں لنگر انداز ہوتے تھے، پَسِّنی ایک پررونق شہر تھا اور بلوچستان کا معاشی گڑھ تھا۔

اب ابو رہے اور نہ ہی ابو کا لانچ، جےٹی ریت میں دھنس گئی اور جن کے پاس پیسے تھے وہ اس شہر کو بھی چھوڑ کرچلے گئے۔آبی پرندوں کی ایک جھنڈ اس کھنڈرات نما جے ٹی کے قریب محو پرواز شکار کی تلاش میں تھے ، شکار نہ ملنے کی وجہ سے پرندے بھی بے چین نظر آرہے تھے اور مجھ سے یہ منظر مزید دیکھا نہیں جارہا تھا۔عارف کو چائے کا پیسہ تھما کر میں اپنے کھٹارے موٹر بائیک کو تیزی کے ساتھ گھماتا رہا اور مچھیروں کی بربادی پر افسردہ ہوتا رہا۔ چلتے چلتے میں کانچ روڑ پر پہنچ گیا جہاں کافی تعداد میں چھوٹی کشتیاں سمَنْدر میں شکار کے بعد مچھلیاں اتار رہے تھے، جے ٹی کی بندش کی وجہ سے چھوٹے کشتی والے اپنے کشتیاں کھلے سمَنْدر میں لنگرانداز کرتے ہیں۔

جے ٹی کی بحالی ایک انتخابی نعرہ

سوچتے سوچتے اچانک خیال آیا کہ جے ٹی کی بحالی تو بس ایک انتخابی نعرہ ہے کیونکہ ہر الیکشن لڑنے والا یہاں آکر یہی کہتا ہے کہ اگر عوام نے مجھے اس مرتبہ منتخب کیا تو جے ٹی کو بحال کروں گا اور ماہی گیروں کی ترقی اور خوشحالی میرے سْیاست کی محور ہے۔

میں ساحل کنارے کھڑا ایک بے بس مچھیرے کے بیٹے کی طرح یہ سب کچھ دیکھتا رہا بس اتنا یاد آیا کہ اگر یہ سمَنْدر نہ ہوتا تو مجھ سے کم عقل دو سطور بھی نہیں لکھتے ۔ میرے مرحوم والد صاحب نے بچپن سے جْوانی کا سفر سمَنْدر کی مست موجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ہمیں پڑھایا تھا۔ میں یہی سوچتا رہا کہ اچانک موبائل کی گھنٹی بجی اور دوسری طرف شمبو کہہ رہا تھا جلدی کرو جڈی تمھیں بلا رہا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے