عرب وعجم کی کشمکش

نہ جانے کتنے برسوں بعد ایک بار پھر عرب و عجم کا سوال پیدا ہوا ہے۔ عرب اپنی زبان پر فخر کرتے ہیں اور بلاشبہ عربی زبان دوسری زبانوں کی ماں ہے ماہرین لسانیات کے مطابق جس قدر تنوع اس زبان میں ہے دوسری کسی زبان میں نہیں ہے کسی ایک چیز کے ہر حصے کا الگ الگ نام آپ کو عربوں کے زیر استعمال کسی چیز میں ہی ملے گا مثلاً ’نیزہ‘ عربوں کا قدیم جنگی ہتھیار ہے اس کے ہر حصے کا ایک الگ نام ہے اس کے ڈنڈے کے شروع سے آخر تک ہر حصے کا ایک نام ہے اور اس کے آخری حصے کا جو اس کا اصلی حصہ ہے اس کے ہر دندے اور ہر کونے نکڑ کا الگ نام ہے۔

کسی بھی دوسری زبان میں اس قدر تنوع نہیں ہے۔ عربوں کو اپنی اسی دولت مند زبان پر فخر ہے اور وہ دنیا کی دوسری کسی زبان کو زبان نہیں مانتے بلکہ غیر عربی زبان بولنے والوں کو ’عجم‘ یعنی گونگا کہتے ہیں۔ اس طرح زبان کی بنیاد پر عربوں نے دنیا کو بڑی آسانی کے ساتھ دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ کچھ وہ جو بولتے ہیں اور کچھ وہ جو گونگے ہیں یعنی وہ جو عربی زبان کی لاتعداد خوبیوں سے بے بہرہ ہیں۔ ’عرب و عجم‘ کی قدیم اصطلاح عربی اور غیر عربی زبان سے نکلی ہے یعنی دنیا کے ایک وہ لوگ جو عربی بولتے ہیں اور ایک وہ لوگ جو عربی نہیں بولتے۔ گویا انسانوں کی یہ دو قومیں یا دو حصے ہیں۔

گونگے اور بولنے والے۔ عرب اور غیر عرب۔ شروع میں تو بات صرف زبان کی تھی یعنی عربی اور غیر عربی کی لیکن بعد میں رفتہ رفتہ اس نے دنیا اور اس کی آبادی کو جغرافیائی طور پر بھی دو حصوں میں بانٹ دیا۔ عربی بولنے والے اور غیر عربی بولنے والے۔ اس طرح انسانی تاریخ میں پہلی بار زبان کے حوالے سے دنیا کی تقسیم عمل میں آئی جو اب تک چلی آ رہی ہے اور آج بھی عرب و عجم یا عرب اور غیر عرب میں تقسیم کی جاتی ہے۔

صدیوں بعد ان دنوں ایک بار پھر عرب و عجم کا مسئلہ کھڑا ہوا ہے اور اس کی وجہ ایک قدیمی عرب اور ایک پرانا عجم ہے یعنی سعودی عرب اور ایران۔ یہ دونوں سکہ بند عرب و عجم ہیں اور ان دنوں ان کا ایک بار پھر براہ راست ٹاکرا ہے یعنی مستند عرب و عجم برسرپیکار ہیں۔ یہ تاریخی نوعیت کا اختلاف شروع ہوتے ہی ختم ہو سکتا تھا لیکن افسوس کہ ان دونوں ملکوں میں کوئی ایسا بزرگ نہیں جس کا دونوں احترام کرتے ہوں اور وہ ان کے درمیان صلح کراسکے۔ جو بھی ہے وہ خود جانبدار ہے۔ یہ سلسلہ شاید ویسے بھی مدھم پڑ جاتا لیکن چند عرب ملکوں نے ایران کے خلاف کارروائیاں شروع کر دی ہیں اور بعض شعبوں میں اس کا بائیکاٹ اور مقاطع کر دیا ہے جس کی وجہ سے یہ اختلاف خطرناک ہو گیا اور عرب و عجم کا مسئلہ بن گیا۔
پاکستان کے ان دونوں ملکوں سے ہی نہیں ان کے عوام سے بھی قریبی تعلقات ہیں اور ایرانی ہوں یا سعودی دونوں ملکوں کے عوام ہمارے دلوں کے قریب ہیں اور ہم ان کے اور وہ ہمارے دکھ سکھ کے ساجھی ہیں۔ علاوہ اس ذاتی اور غیر عربی و عجمی تعلق کے ہم نہ صرف پڑوسی ہیں بلکہ نظریے اور عقیدے میں بھی ایک ہیں اور ماشاء اللہ سب مسلمان ہیں۔

مقامات مقدسہ کے خادم سعودی حکمران ہوں یا ایرانی اسلامی تاریخی ورثے کے نگران ایرانی حکام ہوں یہ سب ہمارے لیے محترم ہیں اور ہم ان کے احترام میں اپنی عزت سمجھتے ہیں۔ ان دنوں جب ان دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست تلخی پیدا ہو گئی ہے جو بڑھتی جا رہی ہے تو ہم پاکستانی جو بظاہر اس سے دور ہیں لیکن حقیقت میں اس سے پریشان ہیں اور اسے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ آج آپ کسی بھی پاکستانی سے بات کریں وہ آپ کو اس عرب و عجم چپقلش سے پریشان دکھائی دے گا کیونکہ اس کے نتائج دوررس اور سخت خطرناک بھی ہو سکتے ہیں۔ شروع سے ہی اندازہ ہو گیا ہے کہ بعض عرب ابھی تک اپنے آپ کو عرب و عجم والا عرب سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ بھی عجم یعنی ایران کے خلاف سفارتی کارروائیاں کر رہے ہیں۔

سعودی عرب نے حال ہی میں 34 ملکوں پر مشتمل جو اتحاد بنایا ہے اگر یہ چپقلش بڑھی تو یہ اتحاد بھی سرگرم ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے عرب و عجم کے درمیان سچ مچ کی بدامنی ہو سکتی ہے۔ پاکستانی یہ بدامنی برداشت نہیں کر سکتے جو ہمارے دروازے کے ساتھ ہی ہو گی اور ہم اس سے گزرے بغیر کہیں بھی آ جا نہیں سکیں گے۔ پاکستان جب قائم ہوا تھا تو عرب دنیا نے اور پوری اسلامی دنیا نے اس کا نہایت خوشی کے ساتھ جذباتی خیرمقدم کیا تھا۔

پرانی خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ عالم اسلام نے اسے اپنی ایک بڑی طاقت سمجھا اور حقیقت بھی یہی تھی پھر جب اس طاقت نے ایٹم بم بھی بنا لیا تو پورے عالم اسلام نے اس پر جشن منایا اور مساجد میں خطیبوں نے مسلمانوں کو مبارک باد دی کہ اب وہ بھی اس دنیا کی ایک قوت ہیں۔ پاکستان کی حکومتیں اور ہمارے حکمران اگر اپنے مقام کو قائم رکھتے تو آج ان کی بات عرب و عجم میں کوئی بھی ٹال نہیں سکتا تھا مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے اور اب مسلمان امن کے لیے غیر مسلم قوتوں کی طرف دیکھ رہے ہیں جو یقینی طور پر مسلمانوں میں امن کو پسند نہیں کرتیں مگر کچھ بھی ہو مسلمانوں کو ایران اور عربوں کی اس بے سود کشمکش سے جان چھڑانی ہو گی۔ خدا کرے اب وہ دن جلد آ جائے جب عرب و عجم کی صلح پر خوشی منائی جائے۔

بشکریہ ایکسپریس

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے