میں یہاں تک کیسے پہنچا!!! کینسر کے ایک مریض کی کہانی

یہ ایک مزے کی داستان ہے جس میں ہر مریض کے لئے بہترین مشورہ اور سوچنے کا انداز ہے. چاہے کوئی بھی بیماری ہو ان اصولوں کو مدنظر رکھیں کیونکہ میں نے زندگی کے میدان جنگ میں یہ انداز سیکھے ہیں.

مجھے کینسر کے بارے میں nibd کے ڈاکٹر علی نے بتایا. تب ان کے چہرے پر یاس تھا. میں نے ان سے کہا کیوں پریشان ہو رہے ہیں سب ٹھیک ہو جائے گا. وہ ہر مریض کے لئے دکھی ہوتے ہوں گے یا شاید یہ ان کی پروفیشنل ٹریننگ کا حصہ ہو، لیکن مریض ہوتے ہوئے آپ کو یہ والا انداز اپنانا چاہئے یا کم از کم اس کی اداکاری کرنی چاہئے تاکہ ڈاکٹر آپ کو کھل کر سب معلومات دے سکے. یہ نہ ہو کہ آپ کے چہرے کے رنگ اڑتے دیکھ کر وہ رک جائے اور آپ کے کسی گھر والے سے رازداری میں سب کہے. یہ رازداری اور اپنی بیماری سے لاعلمی بیمار کا پہلا نقصان ہوتا ہے.

[pullquote]اصول نمبر 1 خود سے لاعلم نہ رہیں[/pullquote]

اگلا مرحلہ ریسرچ ہے. بیماری کوئی بھی ہو اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات جمع کریں. دنیا میں کتنے لوگوں کو ہوئی ہے کتنے ٹھیک ہوتے ہیں. علاج میں پرہیز کا اور دوا کا کیا تناسب ہوتا ہے. اگر جان کا خطرہ ہے تو کن چیزوں سے ہے.

میں نے nibd کی ڈاکٹر ندا سے پوچھا کہ جان کا خطرہ تو نہیں، انہوں نے بتایا کہ بیماری تو جان لیوا ہے لیکن اس میں اصل خطرہ بیماری نہیں بلکہ انفیکشن ہے. کیونکہ دفاعی نظام کام چھوڑ دیتا ہے تو بیکٹیریا، وائرس اور فنگس جسم کو شدید نقصان دیتے ہیں. ان کی بات سن کر میں نے اگلے بیس دن کراچی میں اپنے گھر میں مکمل ائسولیشن اختیار کی کمرے میں بند رہا. نتیجتاً مجھے بخار، نزلہ اور کھانسی تک نہ رہی حالانکہ گھر میں والدہ اور بھائی کو زکام تھا.

[pullquote]اصول نمبر 2 بیماری کے ممکنہ نقصانات جانیں تاکہ ان چیزوں سے بچ سکیں[/pullquote]

طریقہ علاج ہومیوپیتھک، ایلوپیتھک، یونانی حکمت، چینی حکمت اور ائیوروید سبھی کو تھوڑا تھوڑا دیکھ لیں. ممکن ہے کوئی نئی بات سیکھ لیں. یہ سب معلومات انٹرنیٹ پر بآسانی دستیاب ہیں.میں نے یونانی حکمت ترک کی کیونکہ وہ جڑی بوٹیوں سے علاج کرتی ہے، دھماسہ بوٹی کو چار حرف بھیجے اس میں کیموتھیراپی کی طرح خلیے مارنے کی استعداد تو ہے لیکن یہ شدید uncontrolled ہے. سو میں سے دو بندے اتفاق سے ٹھیک ہو جاتے ہیں جو انٹرنیٹ پہ ادھم مچا دیتے ہیں. حالانکہ خون، جگر، آنت اور گردے کے کینسر میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن نیم حکیم اس فرق کو بالائے طاق رکھ کر دھماسہ کا فیصلہ سناتے ہیں. ٹشو اور خون کے سفید خلیے کی پیدائش اور ساخت میں فرق ان کو معلوم ہو جائے تو کبھی دھاسہ کا نام نہ لیں گئے.

ان ظالم لوگوں سے گزارش ہے کہ لوگوں کی زندگی سے نہ کھیلیں اور مریضوں کو موت لے گھاٹ نہ اتاریں. لوگ مر جائیں تو خدا کی مرضی اور اتفاق سے صحت یاب ہوئے تو دھماسہ کا جادو نہ بتائیں. ظلم نہ کریں. اگر اتنا یقین ہے تو ہسپتال کھولیں علاج خود کریں ڈیٹا جمع کریں میں آپ کو کامیابی پر نوبل انعام دلواؤں گا.

میں نے ہومیوپیتھی ترک کی، میری محسنہ Anum Fatima جن کی تصویر تین دن پہلے لگا چکا ہوں، وہ خود ایک کامیاب ہومیوپیتھک ڈاکٹر ہیں اور بارہ سال کا تجربہ رکھتی ہیں. اسلام آباد کے مشہور اور کامیاب ترین اویس ہسپتال کا حصہ رہی ہیں ان سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ہومیو علاج موجود ہے. میں نے کہا کہ سو فیصد علاج کی گارنٹی ہے اور کیا کامیابی کے تناسب کا ڈیٹا دے سکتی ہیں تو وہ چپ ہو گئیں. پھر پوچھا کہ اگر اس علاج سے مجھے کچھ ہو گیا تو خود کو معاف کر سکیں گی، یہ سن کر کہنے لگیں ایلوپیتھک کیموتھیراپی اب تک کا سب سے کامیاب ترین علاج ہے جس کے ثبوت اور ڈیٹا ہر جگہ موجود ہے میں چار دن سے یہی ریسرچ کر رہی تھی. اس گفتگو کے بعد مزید کسی بات کی ضرورت ہی نہیں رہی.

چینی اور ائیوروید پاکستان میں موجود نہیں اس لئے ان کو بس آدھا گھنٹہ پڑھ کر چھوڑ دیا.

[pullquote]اصول نمبر 3 کسی کہی سنی اور myth پر نہ جائیں. مکمل کلئر رہیں اور ہر چیز کی شماریات statistics جانیں یہ آپ کی جان کا معاملہ ہے[/pullquote]

کئی دن اپنی بیماری کو پڑھنے اور اندازاً پچیس کامیاب لوگوں کی ویڈیوز دیکھنے سمجھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ علاج میں دو چیزیں ضروری ہیں. صفائی جس سے انفیکشن کا خطرہ صفر تک آ سکے اور کیموتھیراپی کی دوا کا اوریجنل ہونا، جو کہ بنیادی چیز ہے جس پر ہر نتیجے کا انحصار ہے. اس میں عمارت، ڈاکٹر، قیمت وغیرہ ثانوی چیزیں ہو جاتی ہیں. یہ جان کر آغا خان، ڈاؤ یونیورسٹی، انڈس، شوکت خانم، nibd اور bmtc سبھی کو پرکھنا شروع کیا. یہ سچ ہے کہ صفائی کا جو معیار bmtc میں ملا وہ دوسری کسی جگہ نہ تھا. دوا کے اصلی ہونے کا اعتبار آغا خان bmtc پر کیا جا سکتا تھا. باقی ہسپتال بےشک درست ہیں لیکن اپنے ذاتی رجحان کی بدولت ان کی طرف کچھ بال برابر شکوک تھے. (جن کا کوئی ثبوت تو نہیں بس ذہن بنا ہوا تھا)

آغا خان بہت مہنگا ثابت ہو رہا تھا اور وہاں کے سپیشلسٹ سے بات کر کے بالکل اچھا نہیں لگا. معالج کی زبان اچھی نہ ہو تو چاہے وہ کتنا ہی تجربہ کار اور کامیاب کیوں نہ ہو اپنی گردن اس کے حوالے نہیں کی جا سکتی. نتیجتاً bmtc کا انتخاب کیا جو بہترین تھا. وجہ سنیئے.

شوکت خانم کے بہت برے ریمارکس ان لوگوں سے سنے جو وہاں سے دھتکارے گئے اور یہاں bmtc میں مکمل شفایاب ہوئے. ملتان کی خاتون جن کا نام ___ تھا انہوں نے اپنی کہانی اپنی زبانی بتائی مرض ان کا اور میرا ایک ہی یعنی AML تھا. وہ شوکت خانم میں اتنی خراب ہو چکی کہ انہیں کوئی ہسپتال لینے کو تیار نہ تھا وہ یہاں آئیں اور چھ ماہ میں بالکل ٹھیک ہو گئی. جس دن میں یہاں داخل ہوا اسی دن وہ ڈسچارج ہو رہی تھیں. شوکت خانم بلاشبہ آرگن کینسر جیسے بریسٹ کینسر، جگر، کڈنی وغیرہ کا اچھا ہسپتال ہو گا لیکن بلڈ کینسر کے لئے بہت نامناسب ہے. مشاہدے کی بات ہے. وجہ سمجھیں. دیگر تمام کینسر ONCOLOGY سے متعلق ہیں جبکہ بلڈ کینسر Hematology کا کیس ہے. عمومی طور پر لوگ یہ فرق نہیں سمجھ پاتے اور ہر قسم کے کینسر کو فقط "کینسر” ہی سمجھتے ہیں.

انڈس ہسپتال کی صفائی اور ائسولیشن پسند نہیں آئی.. وہاں oncology بہترین ہے. دیکھیں جس کا بریسٹ کینسر ہے اسے کیموتھیراپی یا ریڈی ایشن ملتی ہے باقی وہ نارمل ہوتا ہے اسے کسی isolation کی ضرورت نہیں ہوتی کیموتھیراپی اس کے بریسٹ کو جلا رہی ہوتی ہے . بلڈ کینسر میں سفید خون جلایا جا رہا ہوتا ہے ایسے میں ایک بیکٹیریا، فنگس یا وائرس بھی انسان کو موت کے پاس لیجا سکتا ہے. فنگس.. جو تیسرے دن کی ڈبل روٹی میں بھرا ہوا ہوتا ہے. ہفتے پرانے پانی میں جس کی بھرمار ہوتی ہے .

مجھے انبکس میں دسیوں لوگ ہسپتال بدلنے اور طریقہ علاج بدلنے کا مشورہ دے رہے ہیں ان سے ہاتھ جوڑ کر گزارش ہے کہ میرے معاملے میں عمومی رویہ نہ اپنائیں. میں یہاں آنکھوں پر پٹی باندھ کر نہیں پہنچا ہوں. میرے پاس اپنے ہر انتخاب کی معقول وجہ موجود ہے. دھماسہ بوٹی والے اپنی زبان لپیٹ لیں. بلڈ کینسر میں جہاں پھل اور سلاد تک کھانے سے بیمار موت کے گھاٹ اتر سکتا ہے وہاں آپ جڑی بوٹی سے علاج ہونے کا سوچ رہے ہیں.

مرض اور مریض دونوں پر رحم کریں. ہومیوپیتھک علاج کرنے والے پہلے اپنا ڈیٹا بیس بنائیں دنیا کو یہ بتائیں کہ سو میں کتنے کیسز کامیاب ہوئے ہیں تب ان پر اعتماد کیا جا سکے گا. ہم کہانیوں اور مفروضوں پر نہیں چل سکتے.

عام. انسان کے 46 کروموسوم ہوتے ہیں. جن میں 23 والد اور اتنے ہی والدہ سے ملتے ہیں. میری بیماری میں یہ 47 ہو چکے ہیں والد کی طرف سے ملنے والا گیارہواں کروموسوم ٹوٹ گیا ہے. جس سے خون بننے کی پروگرامنگ ڈسٹرب ہو چکی ہے. اب آپ شعور رکھتے ہونگے تو لازمی سوچیں گے کہ ہومیوپیتھی کا مدر ٹنکچر یا نیم حکیم کی دھماسہ بوٹی خلیے کے کروموسوم میں dna کی میوٹیشن کو کیسے روکے گی!

کیموتھیراپی کی میڈیسن سیدھا شہہ رگ میں لگتی ہے اور اس کی پہلی ہاف لائف دس منٹ ہے. یعنی یہ دوا کسی بھی دوسرے آرگن میں پہنچنے سے پہلے اثر کھو دیتی ہے. اور صرف خون پہ کام کرتی ہے. سوچیں جو دھماسہ پہلے معدے پھر آنتوں پھر خون میں جائے گی اس کا اثر اگر ہوا بھی تو کس کس چیز پر ہو گا؟

آخر میں مشورہ خانم افراد کو اقبال کا ایک شعر سنانا ہے

دیکھتا ہے تُو فقط ساحل سے رزمِ خیر و شر
کون طُوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے، مَیں کہ تُو

مجھے آپ کے مشورے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ سپیشلسٹ نہیں، آپ کی محبت کی ضرورت ہے، چاہے وہ الفاظ کی صورت ہو، دعاؤں کی صورت ہو، مناجات ہوں یا پازیٹو انرجی کی صورت ہو. یقین کیجئے آپ کی مسکراہٹ میرے لئے ان مشوروں سے ہزار گنا بہتر ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے