کیا یہ عورت مارچ پسماندہ خواتین لیئے بھی ہے؟

نسیمہ بی بی (فرضی نام) سڑک پر کپڑا بچھائے چھوٹا موٹا سامان بیچ رہی تھی ، میرا ادھر سے گزر ہوا ،میں انجانے میں اس کے پاس چلی گئی، ایک دو چیزیں خریدیں تا کہ اس کی کچھ مدد ہو جائے ۔اسی دوران میں نے اس سے استفسار کیا کہ آپ 8 مارچ کو ہونے والے عورت مارچ چلیں گی ؟ توکچھ دیرانہوں نے مجھے حیرت سے دیکھا اور پھر بولی ارے باجی یہ سب امیروں کے چونچلے ہیں ،غریب عورت تو آج بھی ویسے ہی جبر کی چکی میں پس رہی ہے، اپنے حقوق کے لیے لڑ رہی ہے لیکن اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ پھر بولیں کہ ”کہاں کے حقوق، کہاں کا عورت مارچ ،آپ کا کیا خیال ہے یہ عورت مارچ ہمارے لیے ہے؟ اور خود ہی اپنے سوال کا جواب بھی دیتے ہوئے کہا کہ ”نہیں یہ تو صرف دکھاوا ہے اس کاخواتین کے حقوق سے کوئی لینا دینا نہیں“یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے اور پھر وہ خاموش ہو گئیں۔

ایک دوسری خاتون کا کہنا ہے کہ عورت مارچ پر اعتراض کرنے والے لوگوں کو یہ خطرہ ہے کہ کہیں ایسے حقوق کی بات ہمارے اپنے گھر سے نہ آ جائے جس کی وجہ سے وہ اس مارچ کی مخالفت کرتے ہیں۔ کچھ خواتین کو تو شرکت کی اجازت ہوتی ہے مگر کچھ چھپ کر اس میں شرکت کرتی ہیں کیونکہ ان کے گھر والوں کو اس بات کا خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں ان میں حقوق مانگنے کا شعور پیدا نہ ہو جائے۔

پاکستان کے پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین جن میں بلوچ، پشتون اور سندھی جیسے نسلی اقلیتی گروہوں کی خواتین کو ان کے ثقافتی رویوں اوررجعت پسندی کے باعث ان گنت چیلنجز کا سامنا ہے۔ انہیں تعلیم، ملازمت اوردیگر شعبہ ہائے زندگی میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑ تا ہے۔ ان خواتین کو گھریلو تشدد، غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے اور جنسی اور جسمانی تشدد کا بھی سامنا ہے کیونکہ ان کی پسماندہ حیثیت کی وجہ سے انہیں قانون تک رسائی حاصل نہیں ہوتی ہے اور مقامی رسم و رواج کے مطابق علاقائی جرگے یا پنچائت ان کا فیصلہ کرتے ہیں جن کی نظر میں انصاف سے زیادہ علاقائی رسوم مقدم ہوتی ہیں۔ ایسے میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین متعارف کرانا اور خواتین کی سیاسی نمائندگی میں اضافے، مساوی حقوق اور مواقع کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے بہت کام باقی ہے۔

اس سے قبل بھی حقوق نسواں کی تحاریک چلتی رہیں لیکن وہ فرقہ ورانہ، سیاسی اور تاریخی سیاق وسباق میں چل رہی تھیں تاہم عورت مارچ 2019 حقوقِ نسواں کی ایک نئی تحریک کا آغاز تھا۔ جس نے پاکستان کی تاریخ میں ایک نئی بنیاد رکھی اور یوں معاشرے ،گھر اور خاندان کے حقوق کی جنگ شروع ہوئی۔کبھی کبھار جو چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں لائی گئیں تو ان کے خلاف آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا اور مخالف اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتے جب تک یہ منسوخ نہ ہو جاتی۔ اس لئے عورت نے ان اصلاحات کا مطالبہ کیا کہ جہاں جہاں عورت کے حقوق سلب کرنے کی کوشش کی جاتی ان کے لیے آواز بلند کی جانی چاہئیے ۔ مثلا بیوی کے حقوق ادا نہ کرنا ،جسمانی تشدد، ایک سے زیادہ شادیاں،جبری پردہ، بچپن کی شادی، وارثت،غیرت کے نام پر قتل، طلاق اور تعلیم کے حقوق ، جنسی تشدد اور اپنی مرضی سے ماں بننے یا نہ بننے کے فیصلے کو احترام دینے سے تعبیر ہے۔

چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ، مردوں کے لیے شادی کی کم از کم عمر 18 سال اور خواتین کے لیے 16 سال مقرر کرتا ہے۔ تاہم، قانون کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے، اور ملک کے کچھ حصوں میں اب بھی بچپن کی شادیاں رائج ہیں۔وراثت کے قانون کے تحت خواتین کو اپنے باپ اور شوہر سے وراثت کا حق حاصل ہے۔ تاہم، قانون کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے، اور خواتین کو وراثت میں ان کے جائز حصے سے محروم کر دیا جاتا ہے۔

عام لوگوں کو خواتین کے حقوق کے بارے میں ان قوانین کے بارے میں آگاہی دینے کے لیے عوامی بیداری کی مہم چلائے جانے کی ضرورت ہے ۔ اس میں خواتین کے حقوق کے بارے میں معلومات پھیلانے کے لیے سول سوسائٹی کی تنظیموں، میڈیا اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرنا شامل ہے تا کہ خواتین اپنی زندگی کے تمام پہلووؤں میں مکمل اور مساوی طور پر اپنے حقوق سے لطف اندوز ہو سکیں۔

مرد ہمیشہ یہی سوال اٹھاتے آئے ہیں کہ آخر وہ کون سا حق ہے،جو آج تک اسلام اور آئین پاکستان نے عورتوں کو نہیں دلوایا اور خواتین آج سڑکوں پر بین کئے جا رہی ہیں؟صدیوں سے عورت مر د کے بنائے قوانین اور اصولوں پر ہی تو چل رہی ہے ۔ عورت اپنے اوپر ہونے والے جبر کو روکنے کی اپنے تئیں پوری کوشش کرتی ہے، اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیئے آواز بھی بلند کرتی ہے مگر اس کی آواز کو جبرا دبا دیا جاتا ہے۔ ہر سال عورت مارچ کا منشور اس سال سب سے نمایاں رہنے والے معاشرتی مسائل کو دیکھتے ہوئے تیار کیا جاتا ہے۔

ہم برسوں سے دیکھتے آ رہے ہیں کہ عورت پر ظلم ہوتا ہے لیکن اسے انصاف نہیں دیا جاتا۔ حال ہی میں پاکستان کے دارالحکومت کے ایک پارک میں سرشام ایک لڑکی کے ساتھ زیادتی کے بعد عمومی رائے یہی پائی گئی کہ شام کی تاریکی کے بعد عورتوں کو گھر سے نکلنے پر پابندی لگادی جائے اور قصوروار بھی عورت کو ہی ٹھہرا دیا گیا ، آئے روز ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جس کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے ، المیہ یہ ہے کہ مرد جب چاہے باہر جائے اور جس وقت چاہے واپس آئے اور عورت آزاد ہوتے ہوئے بھی گھر کی چاردیورای میں قید رہے۔اسی طرح سے پاکستان میں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل، ریپ یا خواتین پر تشدد کے واقعات اکثر و بیشتر پیش آتے رہتے ہیں۔

ان واقعات میں سر فہرست جولائی 2021 میں اسلام آباد میں نور مقدم کا قتل، ستمبر 2020 کا لاہور سیالکوٹ موٹروے ریپ کیس، جنوری 2018 میں کم سن زینب انصاری کا جنسی تشدد کے بعد قتل، سنہ 2016 میں ماڈل قندیل بلوچ کا غیرت کے نام پر قتل شامل ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ ہمیں معاشرتی پہلووؤں کو بھی مد نظر رکھنا چاہیئے ، احتجاج کرنا ہر شخص کا حق ہے لیکن ہمیں اپنی معاشرتی اقدار کا بھی خاص خیال رکھنا چاہیے ،جو ہمارا معاشرہ باآسانی قبول کر سکے۔مثلا عورت مارچ میں بلند کیے جانے والے نعروں پر اعتراضات کیا جاتا ہے ،کچھ نعرے نامناسب الفاظ پر مبنی ہوتے ہیں جو کہ غلط طریقہ ہے لیکن کچھ نعروں کا مطلب غلط لے لیا جاتا ہے جیسے کہ "میرا جسم میری مرضی ” کا نعرہ ہی لے لیں۔

اس نعرے کا اکثر غلط مطلب لے لیا جاتا ہے اور اس پر میمز بھی بنائی گئیں اس کا اصل مطلب تو یہ ہے کہ اگر میرا جسم ہے تو اس پر مرضی بھی میری ہونی چاہیے۔ کوئی ہمارا ریپ نہ کرے، کوئی اسے میری مرضی سے بغیر ہاتھ نہ لگائے،کوئی ہمیں ہر سال ہماری مرضی کے بغیر بچے پیدا کرنے کو نہ کہے۔ اسی طرح "اپنا کام خو د کرو” کا مطلب یہ ہے کہ اس دور میں میاں بیوی دونوں کو ہی جاب کرنی پڑتی ہے، ایسے میں گھر کی زمہ داری دونوں کو برابر اٹھانی پڑتی ہے اس لیئے یہ نعرہ بنا کہ اپنا کام خود کرو۔

عورت مارچ کو روکنے کے لئے گزشتہ سال ایک خطرناک حربہ آزمایا گیا ، عورت مارچ کے ایک پوسٹر اور ایک ویڈیو کو بنیاد بنا کر توہین مذہب کے الزامات سامنے لائے گئے۔ اس پوسٹر پر بظاہر ایک کم عمر لڑکی نے مذہبی شخصیت کے ہاتھوں جنسی استحصال کی کہانی بیان کی تھی اور جس وڈیو کو توہین مذہب کا رنگ دے کر پیش کیا گیا وہ بھی اصل نہیں ہے بلکہ وہ بھی کسی ویڈیو ایڈیٹر کی مہارت کا کمال تھا۔ویڈیو میں لگائے جانے والے نعروں میں توہین مذہب ہرگز نہیں بلکہ مخالفین کی جانب سے بغض شامل تھا۔

اس بار خواتین کی مارچ میں مردوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔ مارچ کے شرکا نے ایران اور افغانستان کی خواتین کے حقوق کے لیے بھی زن، زندگی اور آزادی کے نعرے بھی بلند کیے۔جناح ایوینو پر منعقد کی گئی ریلی میں بڑی تعداد میں جمع ہو کر خواتین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کے حقوق خصوصا بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی خواتین کو مذہب اور آئین میں دیئے گئے حقوق فراہم کیے جانے چاہیئیں۔

خواتین کا عالمی دن خواتین کے لیے اپنی جدوجہد کے بارے میں شعور اجاگر کرنے، اپنے حقوق مانگنے اور ان کی کامیابیوں کا جشن منانے کے لیے ایک پلیٹ فارم کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ صنفی مساوات کے لیے جاری لڑائی اور دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کو آگے بڑھانے میں مسلسل پیش رفت کی یاد دہانی ہے۔

ہم تو فقط ایک ایسے سماج کی تشکیل چاہتی ہیں جہاں انسانوں کے درمیان برابری ہو اور ایک انسان دوست ماحول ہو،جہاں بچیوں کا ریپ نہ ہو، اخلاقی پستی نہ ہو ،جہاں عورتوں کی جبری شادی نہ ہوں، ان کا قتل نہ ہو، ان کے خلاف جنسی تشدد اور تیزاب کے حملے نہ ہوں، انہیں کوئی ہراساں نہ کرے اور وہ جس وقت چاہے آزادی کے ساتھ باہر جا سکے۔ اس مارچ کا مقصد عورت سے جڑے تمام جبر، عدم مساوات اور استحصال کے خلاف آواز اٹھانا ہے۔ فرسودہ نظام کے خاتمے کے بغیر عورت کی آزادی ممکن نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے