90 فیصد سے زیادہ پاکستانی خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں

اسلام آباد : گھریلو تشدد کے خلاف وسیع مہم میں اپنا بھر پور کردار ادا کر نے کیلئے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) نے یو این ویمن کے ساتھ مل کر بروز منگل سے ”گھریلو تشدد پر پالیسی بریف“ لانچ کی ۔

پالیسی بریف اس بات کا تفصیلی احاطہ پیش کرتی ہے کہ گھریلو تشدد پاکستانی شہریوں بالخصوص خواتین کو کس طرح متاثر کرتا ہے۔ مزید برآں اس بریف میں گھریلو تشدد کے خلاف حکومت کی طرف سے عالمی سطح پر کی گئی یقین دہانیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے اس مسئلے کے فوری حل کے لیے متعلقہ قانون سازی کرنے کو ایک اہم قدم قرار دیا گیا ہے ۔

اس موقع پر این سی ایچ آر کی چیئرپرسن رابعہ جویری آغا نے کہا کہ ہم نے ملک گیر مشاورت ، سول سوسائٹی اور ریاستی اداروں کے مختلف اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد ملک میں گھریلو تشدد کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافے اور خواتین کو تحفظ نہ ملنے کا نوٹس لیا ہے ۔ پاکستان ایک غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے کورونا کے بعد تباہ کُن سیلاب اور بڑھتی ہوئی مہنگائی مردوں کے مقابلے میں خواتین کو کہیں زیادہ متاثر کر رہی ہے ۔

انھوں نے مزید کہا کہ پالیسی بریف پر کام کرنے کے علاوہ کمیشن نے پنجاب میں خواتین کی شادی کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہیلپ لائن (1413) کا آغاز کیا ہے جبکہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے پاس شکایت کے ازالے کا منظم نظام بھی موجود ہے جس کے تحت سندھ اور بلوچستان میں صوبائی گھریلو تشدد کے ایکٹ کے نفاذ پر مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں ۔

پالیسی بریف ریسرچ ٹیم کے ذریعے جمع کی گئی معلومات سے یہ حقائق سامنے آئے کہ 90 فیصد سے زیادہ پاکستانی خواتین کو اپنی زندگی میں گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے (COVID-19 لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد پر HRCP فیکٹ شیٹ) اور لاک ڈاؤن کے دوران خواتین کے خلاف تشدد کے 10,000 سے 11,000 واقعات رپورٹ ہوئے (عورت فاؤنڈیشن، ایس ایس ڈی او اور نادرا)۔

قانونی فریم ورک کے حوالے سے بریف میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ اس وقت صو بوں میں پنجاب پروٹیکشن آف ویمن اگینسٹ وائلنس ایکٹ 2016، ڈومیسٹک وائلنس پریونشن اینڈ پروٹیکشن ایکٹ سندھ 2013 اور ڈومیسٹک وائلنس پریونشن اینڈ پروٹیکشن ایکٹ بلوچستان 2014 سمیت تین قوانین موجود ہیں جبکہ وفاقی سطح پر ایکٹ 2020 زیر التوا ہے۔

بریف میں وفاقی سطح پر گھریلو تشدد کے خلاف قانون سازی، گھریلو تشدد کے متاثرین کی مدد اور انھیں مختلف خدمات کی فراہمی، اس مسئلے کے بارے میں آگاہی و تعلیم دینے ، اسٹیک ہولڈرز خصوصاً عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اس مسئلے کے بارے میں حساسیت بڑھانے اور صلاحیتو ں میں اضافہ کر نے کے حوالے سفارش کی گئی ہے۔

اپنے ابتدائی کلمات میں وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے کہا کہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں 90 فیصد خواتین کو کسی نہ کسی طرح کے گھریلو تشدد کا سامنا ہے لیکن ان میں سے 50 فیصد اس کی اطلاع نہیں دیتیں۔ بدقسمتی سے یہ تمام اعداد و شمار بھی ہمارے سامنے بہت قلیل تعداد میں سامنے آئے ہیں معاملات کی نو عیت اس سے کہیں زیادہ سنجیدہ ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ گھریلو تشدد کیلئے قانون سازی اہم ہے لیکن اسکے سدباب کا زیادہ تر انحصار اس بات پر ہے کہ معاشرہ اپنے کمزوروں کو کس طرح دیکھتا ہے۔ انھو ں نے اس حوالے سے چلائی گئی مہم #GharKiBaatNahi کی تعریف کی اور کہا کہ یہ ایک مناسب ہیش ٹیگ ہے جو دنیا کے ہر سماجی طبقے اور ہر ملک پر لاگو ہوتا ہے اور تشدد کے حوالے سے ہمارے رویئے کو تبدیل کر نے کا سبب بھی ہے ۔

اپنے کلیدی خطاب میں وفاقی وزیر برائے تخفیف ِغر بت اور سماجی تحفظ شازیہ مری نے کہا کہ گھریلو تشدد کبھی بھی اُن کے لیے ایک غیر سنجیدہ مو ضو ع نہیں رہا بلکہ یہ پاکستان کی بہت سی خواتین کا ایک حقیقی مسئلہ ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ گھریلو تشدد سے بچ جانے والی خاتون کے درد کا تصور کر سکتی ہیں کیونکہ وہ خود بھی ان میں سے ایک ہیں اور گھریلو تشدد گھر یا خاندان کا مسئلہ نہیں ہے، یہ معاشرے اور قوم کا مسئلہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہر کسی کو شریعت کورٹ کا فیصلہ پڑھنا چاہیئے جس میں کہا گیا ہے کہ اسلام میں گھریلو تشدد کی اجازت نہیں ہے۔ ہمیں اس کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی ضرورت ہے۔ یہ غلط تاثر کہ اسلام خواتین کے خلاف تشدد کی اجازت دیتا ہے ۔ ہمیں لوگوں کو اسلام کے حقیقی پیغام سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔

یو این ویمن کی ڈپٹی کنٹری کی نمائندہ جیکی کیٹونتی نے این سی ایچ آر کی کوششوں کو سراہا اور گھریلو تشدد کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔

اپنے اختتامی خطاب میں چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت، جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور نے کہا کہ اسلام میں گھریلو تشدد کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ گھریلو تشدد کا خاتمہ ایک مسلسل اور مستقل عمل ہے۔ ایک متنوع معاشرے میں بہت سے مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور اکثر ثقافت کو مذہب کے ساتھ الجھایا جاتا ہے۔ گھریلو تشدد کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ لوگوں کو یقین تھا کہ گھریلو تشدد کا اسلام سے کوئی تعلق ہے، اس کے برعکس اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے قرآن مجید کا حوالہ دیا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے ہر قسم کے گھریلو تشدد سے منع فرمایاہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے