چین کا نظریہ ترقی

[pullquote]یورپ خوشحال کیسے ہوا؟ [/pullquote]

سترہویں صدی میں یورپ میں شروع ہونے والے صنعتی اور زرعی انقلاب نے یورپ اور امریکا کی خوشحالی میں کلیدی کردار ادا کیا. اس صنعتی اور زرعی انقلاب نے سوسال سے کم عرصے میں یورپ اور امریکا کی تقدیر بدل دی۔ صنعتی اور زرعی شعبے میں نئی ایجادات سے پیداوار میں اضافہ ہوا، روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا ہوئے، لوگوں کی اوسط آمدن بڑھی اور یہاں تک کہ آبادی میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ یوں اٹھارہویں صدی میں برطانیہ دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت بن گیا اور عالمی تجارت پر اس ملک کی اجارہ داری قائم ہوگئی۔یہ انقلاب جہاں کروڑوں لوگوں کی زندگیوں میں خوشحالی لے کر آیا وہیں اس نے دنیا میں سرمایہ دارانہ معیشت کو بھی قائم کیا، یوں دنیا کا معاشی نظام ریاست کے ہاتھ سے نکل کر افراد کے ہاتھوں میں چلا گیا اور منافع کے نام پر دولت کا حصول اور ارتکاز معیشت کا محور قرار پایا۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کے ذریعے افراد نہ صرف ریاست سے زیادہ طاقتور ہوگئے بلکہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم سے ترقی اور خوشحالی کا یہ سفر یورپ اور امریکا میں ایک خاص دائرے میں جاری رہا لیکن باقی دنیا اس سے خاطر خواہ استفادہ نہ کرسکی۔

دنیا کے دیگر خطوں کے عوام کو غربت کی تاریکیوں سے نکال کر آسودگی اور خوشحالی کے سفر پر گامزن کرنے کےلئے اگرچہ عالمی بینک، آئی ایم ایف اور اس طرح کے دیگر ادارے وجود میں لائے گئے لیکن یہ تلخ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آج دو طرح کی دنیائیں آباد ہیں۔ ایک یورپ اور امریکا پر مشتمل دنیا، جہاں یہ مسائل نہیں ہیں کہ عالمی کسادبازاری کے اس دور میں وہاں بسنے والے افراد کو دو وقت کی روٹی کیسے میسر کی جائے بلکہ وہاں حکمران اور سرمایہ دارانہ طبقے کے مسائل یہ ہیں کہ نو آبادیاتی نظام ختم ہونے کے باوجود دنیا کے مختلف خطوں پر اپنا سفارتی غلبہ کیسے قائم رکھا جائے اور خوشحالی اور معاشی آزادی کے عمل کو کیسے روکا جائے۔

وطن عزیز پاکستان کی مثال سب کے سامنے ہے،قرضوں میں ڈوبے اس ملک پر مزید قرضوں کا بوجھ ڈالا جارہا ہے مگر عوام کو ایک روپے کا ریلیف دینے کےلئے بھی حکومت آئی ایم ایف کی اجازت کی محتاج ہے۔ اب یہ بحث جاری ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کو آگے بڑھانے کےلئے پاکستان کو شائد اپنے دفاعی پروگرام پر سمجھوتہ کرنا پڑے۔ اس حساس معاملے پر بحث کی گنجائش بھی اس لئے پیدا ہوئی ہے کہ اس میں ہمارے حکمران طبقے کی نااہلی اور کرپشن کا عمل دخل ہے۔اس کے برعکس دوسری جانب وہ دنیا ہے جہاں غربت، افلاس، بے روزگاری، بیماریاں اور جہالت ابھی تک اپنی ہولناک شکل میں موجود ہے۔ دنیا میں رائج سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے تیسری دنیا کے ان ممالک میں ریاستیں کمزور اور سرمایہ دار طاقتور ہیں۔ایسے میں دنیا ایک بار پھر بدل رہی ہے لیکن اس بار آغاز مغرب سے نہیں بلکہ شروعات مشرق سے ہو رہی ہیں۔

مشرق بعیدکے ملک چین نے نہ صرف ایک نئی دنیا تشکیل دینے کی ٹھان لی ہے بلکہ طاقتور سرمایہ دارانہ نظام کی شدید مخالفت کے باوجود اس راستے پر گامزن بھی ہے۔ عوامی جمہوریہ چین ایک ایسی دنیا تشکیل دینا چاہتا ہے جس میں دنیا کے تمام ممالک کا مستقبل مشترک ہو اور یہ ترقی و خوشحالی کے عمل میں برابر کے حصہ دار ہوں۔چین اپنے عوام کےلئے اس خواب کو پہلے ہی شرمندہ تعبیر کر چکا ہے۔ محض چند دہائیوں کی جدوجہد کے نتیجے میں سترہ کروڑ لوگوں کو غربت کے منحوس دائرے سے باہر نکال لانے میں کامیاب ہو گیا، چین نے اپنی سرزمین سے غربت جیسے اس عفریت کا مکمل خاتمہ کر دکھایا۔

صدر شی جنگ پنگ کی سربراہی میں چین کی نئی قیادت نے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی 20 ویں نیشنل کانگریس میں مستقبل کا روڈ میپ دیا ہے، اس روڈ میپ کے مطابق ایک ایسے خواب کی تکمیل ہے جس میں مشترکہ مستقبل کے ساتھ ایک عالمی برادری کو وجود میں لایا جائے کیونکہ یہی بہترین راستہ ہے اور شائد یہ خیال چینی عوام کے خمیر میں پہلے سے ہی گوندھا ہوا ہے۔ قدیم چینی فلاسفرکا مقولہ ہے۔” تمام جاندار ایک دوسرے کو نقصان پہنچائے بغیر پروان چڑھ سکتے ہیں اور دو مختلف راستے ایک دوسرے کو کاٹے بغیر ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں‘‘۔ چین کی خارجہ پالیسی کا محور اب عالمی امن اور مشترکہ مستقبل کے ساتھ مساوی ترقی ہے جو اسے ماضی کے کسی بھی ترقی کے خیال سے منفرد وممتاز بناتا ہے۔

چین کے صدر شی جن پنگ نے 2013 میں روس کے دارالحکومت ماسکو میں اسٹیٹ انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلشنز میں خطاب کے دوران سب سے پہلے یہ خیال پیش کیا۔ بلاشبہ صدر شی نے درست کہا کہ “گلوبل ویلیج کی اس دنیا میں جہاں ایک ہی ساعت میں سب ایک ساتھ جی رہے ہیں، جہاں ماضی اور حال ایک دوسرے سے مل رہے اور ایک ایسی عالمی برادری وجود میں آرہی ہے جن کی منزل ایک اور ہر کوئی اپنے اندر دوسرے کو محسوس کررہا ہے”۔ اس میں کوئی شک نہیں عالمی بحرانوں سے پیدا ہونے والے چیلنجز نے مختلف قوموں کا مستقبل ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے۔

کووڈ 19 کی جان لیوا وبا ہو جس میں 70لاکھ افراد لقمہ اجل بنے یا پھر ماحولیاتی تبدیلی جس نے یورپ میں لاکھوں ایکڑ پر پھیلے جنگلات اور جنگلی حیات کو خاکستر کیا ،امریکا میں ہولناک طوفانوں سے ہزاروں لوگ بے گھر ہوئے اور پاکستان میں سیلاب سے ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب، سینکڑوں افراد ہلاک اور اٹھارہ لاکھ گھر تباہ ہوئے۔ان مسائل سے نمٹنے کے لئے مشترکہ جدوجہد ناگزیر ہو چکی ہے۔ 2013 میں شروع ہونے والے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے نے بلاشبہ اس خیال کو سچ کر دکھایا ہے۔ اس منصوبے سے نہ صرف دنیا میں تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا بلکہ چین اور بی آر ٹی میں شامل 150ملکوں کے درمیان تجارت 1.04کھرب ڈالر سے بڑھ کر 2021 میں 1.8 کھرب ڈالر ہوگئی۔ گویا صرف آٹھ برسوں میں 73 فی صد اضافہ ہوا۔ چین نے اس دوران مینوفیکچرنگ ، ٹیلی کمیونیکیشن ، انفراسٹکچر کی ترقی اور دیگر شعبوں میں اپنا تجربہ دوسرے ملکوں اور ریجنزکو منتقل کیا جس سے ان ممالک میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے۔

عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق بی آر ٹی منصوبہ 7.6ملین افراد کو انتہائی غربت اور 32 ملین لوگوں کو درمیانے درجے کی غربت سے نکالنے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ منصوبے میں شریک ممالک کے مابین تجارت میں 2.8 سے 9.7 فی صد اور عالمی تجارت میں 1.7 سے 6.2 فی صد اضافہ ممکن ہے۔گزرے دس برسوں پر نظر ڈالیں تو بی آر ٹی اب ایک عالمی منصوبہ بن چکا ہے جس میں دنیا کے تین چوتھائی ممالک شامل ہوچکے ہیں اور یہ منصوبہ راستے میں آنے والے ممالک میں روزگار کے 4 لاکھ 20ہزار مواقع پیدا کر چکا ہے اور 40ملین عوام کو غربت سے نجات دلاچکا ہے۔ بی آر ٹی کے علاوہ دو اور منصوبے بھی ہیں جن میں دنیا بھر کے ممالک کو عالمی ترقی اور عالمی سلامتی Global Security Initiative میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی ہے۔

صدر شی کے مطابق چین انسانوں کا ایک ایسا معاشرہ یا عالمی برادری تشکیل دینا چاہتا ہے جو مشترکہ مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی امن، ترقی، شفافیت ، انصاف اور جمہوریت کے آزادانہ تحفظ کی ضمانت دے۔ چین اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی 2030 کے ایجنڈا پر عمل درآمد کےلئے دوسرے ممالک بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں زراعت کی ترقی، غربت کے خاتمے ، تعلیم کے مساوی مواقع، انفراسٹرکچر میں بہتری اور صنعتی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کررہا ہے۔ چین نے ساؤتھ کوآپریشن اسسٹنس گلوبل ڈویلپمنٹ فنڈ میں مجموعی طور پر 4 ارب ڈالر فراہم کئے جبکہ چینی قیادت اقوام متحدہ کے امن و ترقی ٹرسٹ فنڈ میں اضافے کی خواہاں ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 2021کے سالانہ اجلاس گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹیو کا خیال بھی چین نے پیش کیا جس کا مقصد ترقی کے متوازن اور مربوط عمل میں سب کو شامل کرنا ہے اور اس پروگرام کا مرکزی خیال تیزی سے بدلتی اس دنیا میں سکیورٹی سے جڑے مسائل کو حل کرنا ہے۔

چین نے اپریل 2022 میں گلوبل سیکیورٹی انیشیٹیو کو آگے بڑھانے کے لئے کوششیں کیں تاکہ پائیدار امن کا نیا راستہ تلاشا جائے اور تنازعات کے خاتمے کےلئے اتحاد پر شراکت داری کو ترجیح دی جائے جبکہ نئی دنیا کو zero sum کی بجائے سب کے فائدے کے اصول پر استوار کیا جائے۔چین کا مقدمہ ہی یہی ہے کہ وہ دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ دوطرفہ اور کثیرالملکی سکیورٹی تعاون کا خواہش مند ہے اور یہ کہ نہ صرف ممالک بلکہ علاقائی اور عالمی تنظیموں کے ساتھ بھی کیونکہ چین کے خیال میں مشترکہ مفادات کے ذریعے ہی عالمی سلامتی کے خیال کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔صدر شی نے خوب کہا کہ وہ ممالک جو امن کے خواہش مند اور سلامتی سے جڑے روایتی اور غیر روایتی مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں، امن و خوشحالی کے تحفظ کی خواہش مند ہیں تاکہ امن کی مشعل ایک نسل سے دوسری نسل کے ہاتھ میں تھمائی جائے چین ان کے لئے بازو کھولے کھڑا ہے۔

امریکا اور مغرب اپنی معاشی اجارہ داری کا سورج غروب ہوتے دیکھ کر چین کے خلاف صف آرا ہونے کے ساتھ ساتھ بے بنیاد پروپیگنڈا بھی کررہے ہیں اور جس طرح ترقی یافتہ ممالک نے خود تیسری دنیا کے ممالک کو قرضوں کے جال میں پھانس کر ان کی آزادیاں سلب کیں اب چین پر الزام لگا رہے کہ بی آر ٹی کے نام پر دنیا کے ممالک کو قرضوں کے جال میں جکڑ رہا ہے جبکہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ چین نہ صرف دنیا کے ممالک کو معاشی دباؤ سے نکلنے میں مدد کررہا ہے بلکہ جی 20 ممالک کے قرضے موخر کرنے کے پروگرامGlobal debt suspension initiative میں سب سے بڑا حصہ دار ہے۔

پاکستان ہی کی مثال لے لیجئے، کووڈ کی وبا ہو یا پھر معاشی مشکلات پاکستان کی مدد کے لئے سب سے پہلے چین نے ہمارا ہاتھ تھاما۔ چائنا پاکستان اکنامک کوری ڈور(سی پیک) اس کی ایک اور جیتی جاگتی مثال ہے جس کے ذریعے اب تک چین کی جانب سے پاکستان میں 25.4 ارب ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری کی جاچکی ہے جبکہ 17.55 ارب ڈالر ریونیو اور 2.12 ارب ڈالر ٹیکسوں کی مد میں حاصل ہوئے ہیں۔ سی پیک سے روزگار کے ایک لاکھ 92 ہزار نئے مواقع پیدا ہوئے، پاکستان کے بجلی کے نظام میں 6 ہزار میگا واٹ کا اضافہ ہوا، 510 کلومیٹر ہائی ویز اور 886 کلومیٹر نیشنل کور ٹرانسمیشن نیٹ ورک کی تعمیر سے پاکستان میں پائیدار معاشی وسماجی ترقی کی بنیاد رکھی گئی ہے۔

سی پیک نے درحقیقت پاکستان اور چین کے درمیان تجارت ، انفارمیشن ٹیکنالوجی، سائنس ، توانائی، دفاع اور صنعت سے لیکر زراعت تک تمام شعبوں میں تعاون کا ایک نیا مضبوط پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی بیسویں سالانہ کانگریس پر پاکستان کی 20 سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کی جانب سے مبارکباد کے خطوط اس بات کی غمازی کرتے ہیں پاکستان اور چین کے عوام کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں اور گرم سرد موسموں میں آزمودہ یہ تعلقات آنے والے وقتوں میں حقیقتاً سمندروں سے گہرے اور ہمالیہ سے بلند نظر آئیں گے کیونکہ دو قومیں اور ایک مستقبل کے نعرے سے جڑے ان دونوں ملکوں کا اب یہی مقدر ہے۔ چین کے صدر شی چنگ پنگ کے الفاظ میں مشترکہ منزل کے خیال کے ساتھ پاکستان چین کمیونٹی کے قیام کا دونوں ملکوں کی حکومتوں اور عوام کا اسٹریٹیجک فیصلہ ہے جسے عملی جامہ پہنا کر نہ صرف چین اور پاکستان بلکہ دنیا بھر کے عوام کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔

اگرچہ سی پیک پر کام آگے بڑھ رہا ہے لیکن اسے حقیقی معنوں میں گیم چینجر ثابت کرنے کے لئے پاکستان کو اپنے دروازے پر کم وبیش ایک دہائی سے ہونے والی دستک کو نہ صرف غور سے سننا چاہئے بلکہ اسے بانہیں کھول کر سمیٹ لے کہیں ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہوجائے کیونکہ نہ تو وقت کی رفتار تھمتی ہے، نہ گھڑی کی سوئیاں رکتی ہیں اور نہ ہی بند دروازوں پر قسمت کی دیوی کسی کا طویل انتظار کرتی ہے۔ ترقی کی اس راہ پر چلنے کیلئے نہ تو مطالبہ کیا جائے گا اور نہ ہی آپ کی معاشی و خارجی پالیسی کسی کے ہاتھ میں جائے گی، ہاں ایک شرط ضرور ہو گی کہ خوشحالی کے اس سفر میں دوسروں کو بھی شراکت دار بنائیں، دنیا میں شاہد ہی کوئی ایسا ملک ہو گا جو اس شرط کو قبول کرنے سے انکار کرے۔
بقول حضرت اقبال
کھول آنکھ،زمیں دیکھ، فلک دیکھ،فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے