تدریس میں کثیر ذہانتوں کا استعمال

امریکی ماہر نفسیات ہاورڈ گارڈنر نے ۳۸۹۱ء میں کثیر ذہانتوں کا نظریہ پیش کیا۔ جسے نوے کی دہائی میں تعلیم و تدریس کے شعبے میں پذیرائی ملی اور آج تک دنیا بھر کے ماہرین تعلیم اس نظریئے کو تدریس، آموزش، جائزے،جانچ اور امتحانات میں قابل عمل اور مفید نظریہ قرار دیتے ہیں۔زیر نظر مضمون میں ان ذہانتوں کی تدریس کے طریقہ کار میں افادیت کو بیان کیا جائے گا۔اس نظریے سے قبل صرف تعلیمی ذہانت (آئی کیو) کو ہی تعلیم و تدریس کی دانش کا محور جانا جاتا تھا۔ کثیرذہانتوں کے نظریئے نے اس محدودیت کو وسیع پیمانے پر رد کیا اور انسانی ذہانت کے وسیع تر پہلوؤں سے واقف کروایا۔ آئی کیو ماڈل صرف دو طرح کی ذہانتوں یعنی لسانی ذہانت اور منطقی یا حساب کتاب کی ذہانت تک محدود ہے جبکہ گارڈنر کے ماڈل میں آٹھ قسم کی ذہانتوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔اس وقت تعلیم کے شعبے میں تعلیمی نصاب،تدریسی طریقہ ہائے کار،آموزشی طریقے اور تعلیمی جانچ میں کثیر ذہانتوں کا ماڈل ایک مضبوط،معروف اور بہترین ماڈل کا درجہ حاصل کرچکا ہے۔آئیے ہم ان آٹھ ذہانتوں کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ ذہانتیں کیا ہیں، ان ذہانتوں کے حامل بچوں میں کیا خصوصیات ہوتی ہیں اور یہ کن شعبوں میں بہتر کارکردگی دکھانے کے قابل ہوں گے۔

[pullquote]۱۔ فطرت شناس ذہانت Naturalistic Intelligence [/pullquote]

ایسے بچوں میں فطری اشیا سے بہت لگاؤ اور میلان ہوتا ہے۔ پودوں اور جانوروں کی دیکھ بھال، قدرتی مناظر کی سیروسیاحت، ماحول کی حفاظت اور دیکھ بھال کا بہت شوق ہوتا ہے۔ایسے لوگ فطرت اور قدرت سے ایسے قریب رہتے ہیں جیسے کسی رشتے داروں سے الفت اور قربت ہوتی ہے۔ان کے اندر دوسرے جانداروں سے متعلق جاننے اور کھوج لگانے کی قابلیت بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔وہ باغبانی، کیمپ لگانا، ہائیکنگ اور سیروسیاحت کے دلدادہ ہوتے ہیں۔ایسے افراد کاشت کاری، سیروسیاحت اور بائیولوجسٹ جیسے پیشوں میں نمایاں کاکردگی دکھاسکتے ہیں۔

[pullquote]۲۔ سماجی ذہانت Interpersonal Intelligence [/pullquote]

اس ذہانت میں دوسروں کے ساتھ موئثر تعلقات استورا کرنے کی قابلیت پائی جاتی ہے۔اس کے لیے ابلاغ اور باہمی تعلقات کی بہترین مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جن افراد میں یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے وہ گروہی یا اجتماعی امور میں دوسروں کے رجحانات، میلانات، جذبات و احساسات، تحریکات اور ان کے کام کرنے صلاحیتوں کو بہتر طور جانچ سکتے ہیں اور ان کے مطابق حکمت عملی اور منصوبہ بندی کرتے ہیں۔

اسلام میں حقوق العباد پر بہت زور دیا گیا ہے۔جن میں ماں باپ، رشتہ داروں، ہمسائیوں، دوستوں، یتیموں اورضرورت مندوں کے حقوق سے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں احکامات دیئے گئے ہیں۔حقوق العباد سے متعلق بچوں میں شعور اور آگہی کے لیے تعلیمی اور تدریسی مواد کے ساتھ ساتھ مختلف سرگرمیوں کا اہتمام کیا جائے۔ جیسے شائستہ گفتگو اور مکالمہ، شراکت داری (دوسروں کی مدد کرنا)، دوسروں کی معاونت اور دیکھ بھال (مریضوں کی عیادت کے لیے ہسپتال جانا، رضاکارانہ سرگرمیا ں وغیرہ) اور باہمی احترام (بڑوں کی عزت کرنا اور چھوٹوں پر شفقت کرنا) وغیرہ۔ یہ بچے مستقبل میں اچھے ماہر نفسیات، سیاست دان، فلسفی، استاد، سماجی کارکن بنیں گے۔

[pullquote]۳۔ خود شناس ذہانت Intrapersonal Intelligence[/pullquote]

ایسی ذہانت کے حامل افراد ذاتی خوبیوں اور خامیوں سے واقف ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی قابلیتوں و صلاحیتوں کا ادراک بھی رکھتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہر انسان کو ایک انفرادی شخصیت سے نوازا ہے۔جس نے خود کو پہچان لیتا ہے وہ خدا کی ذات کی معارفت بھی حاصل کرلیتا ہے۔جسے اقبال نے خودی سے تعبیر کیا ہے۔اپنی ذات سے شناسا ہونا انسان میں بہتری اور ترقی کے سفر میں آسانیا ں لاتا ہے۔اس ذہانت کے حامل بچے اپنے جذبات اور احساسات کا بہتر ادراک کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔یہ اچھے لکھاری، سائنس دان اور نظریہ دان ثابت ہوں گے۔

[pullquote]۴۔ موسیقیت یا غنائی ذہانت Musical Intelligence[/pullquote]

اس ذہانت کے حامل موسیقیت، دھُن، سُر تال، صوتی آہنگ اور آواز کے زیروبَم کے فہم و ادراک، اس کو ردعمل اور ترتیب دینے کی قابلیت رکھتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے انسان میں حواسِ خمسہ کے ساتھ حسِ جمالیات سے بھی نوازا ہے،جمالیات میں ایک صوتی جمالیات ہے۔پرندوں کی چہچاہٹ،ہواؤں کی سرساہٹ،سمندر کی اچھال اور جھرنوں میں بہتے پانی کی آواز انسان کو محسور کردیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلا م کی سُریلی اور خوب صورت آواز میں اس قدر تاثیر تھی کہ جب آپ زبور کی تلاوت فرماتے تھے تو انسانوں کے ساتھ چرند پرند بھی وجد میں آجاتے تھے۔اس طرز کی تلاوت کو لحنِ داؤدی کہا جاتا ہے۔یہاں ہم عمومی موسیقی کا ذکر نہیں کررہے ہیں۔ اسلام میں ایسے تمام اعمال کو ناپسند کیا گیا ہے جس میں شرک،بداخلاقی،فحاشی اور حق تلفی کے عناصر پائے جاتے ہیں۔ایسے بچے شاعری، قرات اور نعت خوانی میں بہتر صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔

[pullquote]۵۔تخیلاتی یا تصوراتی ذہانت Visual Intelligence [/pullquote]

یہ ذہانت تخیلاتی دنیا کو تصویری انداز میں پیش کرنے اور ترتیب دینے میں معاون ہوتی ہے۔ایسے افراد اپنے باطن کو کاغذ یا کینوس پر لکیروں اور رنگوں کی مدد سے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔آپ نے دن میں خواب دیکھنے کا محاورہ تو سنا ہوگا، یوں سمجھیے کہ جاگتی آنکھوں سے تخیلاتی دنیا اور تصورات کو مصوری (پینٹنگ، ڈرائنگ، سکیچننگ)، نقش و نگار سے دوسروں دیکھانا تصویری ذہانت کے مظاہر ہیں۔اپنے اہداف اور پروجیکٹس کی تکمیل کے لیے تخیلاتی اور تصویری قوت فیصلہ کی قابلیت کو استعمال کرتے ہیں۔ایسے بچے تعمیرات، انجینیرنگ اور آرٹ میں نمایاں کارکردگی دکھاتے ہیں۔

[pullquote]۶۔ لسانی ذہانت Linguistic-Verbal Intelligence [/pullquote]

یہ ذہانت کسی فرد میں الفاظ اور زبان کے مناسب، بروقت اور قابل فہم استعمال کی قابلیت کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ قابلیت بول چال، مطالعے،لکھنے، سماعت اور زبان کے دیگر پہلوؤں کے استعمال سے نکھرتی ہے۔اس ذہانت کا حامل فرد زبان دانی، الفاظ کے استعمال میں محتاط اور ماہر ہوتا ہے۔ان کی یادادشت کی قابلیت اچھی ہوتی ہے اور کسی بھی چیز کوجزئیات کے ساتھ وضاحت کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔اس ذہانت کے حامل بچے اچھے وکیل،سیاست دان،استاد، لکھاری، صحافی، سٹیج کمپیئر اور ادیب بننے کے قابل ہوتے ہیں۔

[pullquote]۷۔ منطقی/ حساب کتاب کی ذہانت Logical-Mathematical Intelligence[/pullquote]

اس ذہانت سے طلبہ میں استدلال، منطقی اور تنقیدی طرزِ فکر اور تدبر و تفکر کی قابلیت پختہ ہوتی ہے۔ روزمرہ زندگی کے مسائل،حقیقی زندگی کے معاملات منطقی اور استدلال کے ساتھ تجزیہ کرنا اور ان کو حل کرنا اس ذہانت کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ایسے لوگ سائنسی تحقیق اور مختلف اشیا کے درمیان تعلق کی کھوج لگانے میں بہترین مہارت رکھتے ہیں۔ روزمرہ زندگی کے مسائل کا تجزیہ کرنے اور ان حل نکالنے (پرابلم سولوِنگ) کی بہترین قابلیت حاصل ہوتی ہے۔یہ بچے مستقبل کے سائنس دان، ریاضی دان، کمپیوٹر پروگرامر اور اکاؤنٹنٹ بنیں گے۔

[pullquote]۸۔ حرکی ذہانت Bodily-Kinesthetic Intelligence[/pullquote]

لاطینی محاورہ ہے کہ صحت مند جسم میں صحت مند ذہن ہوتا ہے۔اگر جسم کی حرکات اور اس کی صحت کو خیال رکھا جائے تو سوچنے، سمجھنے جیسے ذہنی عوامل بھی صحت مند رہیں گے۔حدیث مبارکہ ہے کہ طاقت ور مومن، کمزور مومن سے بہتر اور اللہ کے زندیک زیادہ پسندیدہ ہے۔تاہم خیر دونوں میں ہی ہے۔چنانچہ ایک مسلمان جسمانی طور پر طاقت ور ہوگا تو وہ خدا کے احکامات کو بجا لانے میں سبقت لے جائے گا۔جو اس ذہانت میں ماہرہوتا ہے وہ سپورٹس، جسمانی سرگرمیوں اور ہاتھ سے بہتر کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔سپورٹس(کھیل)، سکاؤٹنگ (بوائز سکاؤٹس، گرلز گائیڈ)، کُشتی، باکسنگ، مارشل آرٹس اور اگر وسائل موجو د ہوں تو نشانہ بازی (شوٹنگ)، تیراکی، گھڑسواری کو بھی تعلیمی سرگرمیوں میں شامل کیا جائے۔

[pullquote]ماحصل[/pullquote]

اللہ تعالیٰ نے انسان کو ہمہ جہت صلاحیتوں اور قابلیتوں سے نوازا ہے۔ہر فرد میں قابلیت اور ذہانت مختلف ہوتی ہے۔ایک استاد کو چاہیے کہ وہ بچوں کے رجحانات، احساسات اور جذبات کی شناخت کرے اور اس کے مطابق ان کی تربیت کا اہتمام کرے۔ہمارے موجودہ نظام تعلیم میں کثیر ذہانتوں کے ماڈل پر عمل درآمد ہونا ایک خواب لگتا ہے۔۔۔لیکن عزم مصمم، محنت،قوت ارادی اور خدا کی توفیق سے اسے حقیقت کا روپ دینا ممکن ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے