عدالتی اصلاحات سے متعلق بل 2023 قائمہ کمیٹی سے منظور

اسلام آباد: عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 قائمہ کمیٹی نے منظور کر لیا۔

قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے اضافی ترامیم کے ساتھ بل متفقہ طور پر بل منظور کیا، قائمہ کمیٹی سے منظوری کے بعد آج قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔

بل میں تجویز دی گئی کہ سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز پر مشتمل کمیٹی از خود نوٹس کا فیصلہ کرے گی جبکہ از خود نوٹس کے فیصلے پر 30 دن کے اندر اپیل دائر کرنے کا حق ہوگا۔اپیل دائر ہونے کے 14 روز کے اندر سماعت کے لیے مقرر کرنی ہوگی اور از خود نوٹس لینے کے بعد سماعت بھی تین رکنی بینچ کرے گا جبکہ اس حوالے سے اکثریت کا فیصلہ قابل قبول ہوگا۔

قانون کی منظوری کے بعد سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کا کوئی بھی فیصلہ یا دیگر کوئی بھی قانون اس پر اثر انداز نہیں ہو سکے گا۔

اضافی ترامیم کے تحت اپیل کا حق زیر التوا مقدمات پر بھی حاصل ہوگا جبکہ اضافی ترمیم کے تحت آئینی اور قانون معاملات پر تشکیل بینچ کم سے کم پانچ ججز پر مشتمل ہوگا۔

قبل ازیں، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کا اجلاس محمود بشیر ورک کی زیر صدارت ہوا، کمیٹی اجلاس میں عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 پر غور کیا گیا۔

چیئرمین کمیٹٰی نے کہا کہ اس بل میں آئین کی کنٹریکشن تو نہیں۔ ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ اس میں کوئی شق نہیں کہ اس کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے، کل اس بل پر دوبارہ سوموٹو آجائے تو کیا حکمت عملی ہوگی۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ بل کو کل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا جس کا مقصد پروسیڈنگ کے عمل کو شفاف بنانا ہے، 184/3 میں اپیل کا حق نہ ہونا آئین کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے اور فوری نوعیت کے مقدمات کی فوری طور پر شنوائی نہیں ہوتی۔ سپریم کورٹ میں فوری نوعیت کے مقدمات پر 6، 6 ماہ کیس نہیں لگتا۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اندر سے بھی اس معاملے پر رائے کا اظہار کیا گیا ایک فیصلے پر اختلافی نوٹ کی شکل میں اور یہ محسوس کیا گیا کہ وقت ہے پارلیمان اپنا کردار ادا کریں۔

انہوں نے بتایا کہ 184/3 کا 2008 سے 2010 تک بے دریغ استعمال شروع ہوا جبکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سوموٹو لینا شروع کیا اور بے دریغ استعمال کیا۔ پاکستان بار کونسل اور لاء کنوینشن نے بھی قانون سازی کا مطالبہ کرتی رہی، اس بل کی ڈرافٹ پر وزارت قانون میں کام پہلے سے جاری تھا۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ دو ججز کے فیصلے سے کافی اضطرابی کیفیت پیدا ہوئی اور یہ بھی کہا گیا کہ سوموٹو میں ون مین شو نہیں ہونے چاہیے، بار کونسل سمیت حامد خان نے بھی کہا کہ یہ قانون وقت کی ضرورت ہے۔ ایک چیف جسٹس آکر 300۔400 سومٹو لیتے ہیں اور ایک چیف جسٹس دو تین لیتا ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بعد کسی چیف جسٹس نے سامان سے شیشی نکلنے یا گلی میں پانی کھڑا ہونے پر سوموٹو نہیں لیا۔

انہوں نے کہا کہ سینیئر ججز کی کمیٹی اس کو ریگولیٹ کرے گی اور اس وقت سپریم کورٹ میں سینیئر ترین ججز کسی بینچ میں شامل نہیں، یہ اضطرابی کیفیت قانون دانوں میں بھی پائی جاتی ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ کل قومی اسمبلی نے کہا کہ کوئی ایسا قانون نہ بنائیں جس کو چیلنج کیا جائے، بل کو غور کے لیے کمیٹی کے سپرد کیا گیا اور بل کا مقصد ہے کہ اعلٰ ترین عدالت میں شفاف کارروائی ہو۔ یہ بل بار کونسلز اور شراکت داروں کا پرانا مطالبہ تھا، بار کونسلز کا کہنا تھا کہ 184 تین کے بے دریغ استعمال کو روکا جائے۔ پہلے اپیل کے حق سے افراد محروم تھے اب اسے بل میں شامل کیا گیا ہے۔

چئیرمین کمیٹی نے سوال اٹھایا کہ بل کیا آئین سے متصادم تو نہیں۔ نفیسہ شاہ نے کہا کہ ہم سب اس موجودہ صورت حال سے پریشان ہوئے، آئے دن از خود نوٹس ہوئے اب اسے ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ سوال اٹھ رہے ہیں کہ کل سو موٹو کے ذریعے اس بل کو ختم کر دیا جائے گا، سوال کیا جا رہا ہے کہ قانون کس وقت آ رہا ہے اور قانون کی ٹائمنگ پر بھی سوال اٹھ رہا ہے۔ سوال ہے کہ 184 تھری پر کیا آئینی ترمیم کرنا ہوگی یا سادہ قانون کے ذریعے معاملہ حل ہو سکتا ہے۔

محسن شاہ نواز رانجھا نے کہا کہ قانون سازی پارلیمان کا صوابدید ہے اور پارلیمان کو اپنا کام کرنے دیں باقی ادارے اپنا کام کریں۔

رمیش کمار نے کہا کہ یہ بل وقت اہم کی ضرورت ہے لیکن کہاں جا رہا ہے یہ وقت اس قانون سازی کے لیے مناسب نہیں، بہتر ہے اس معاملے پر سپریم کورٹ سے مشاورت کی جائے اور انہیں باور کروایا جائے یہ بل وقت کی اہم ضرورت ہے، بہتر ہے اعلیٰ عدلیہ کو یہ فیصلہ خود کرنے دیں۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ بل میں ترمیم کی گئی عدالتوں میں زیر التوا کیسز پر بھی اپیل کا حق حاصل ہوگا، بل میں نئی ترمیم کے تحت آئینی قانونی معاملات میں بینچ کم سے کم 5ججز پر مشتمل ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے