سیاسی انتہاپسندی و فرقہ واریت

وطن عزیز پاکستان میں مذہب و مسلک کی لڑائی نے فرقہ وارانہ فسادات اور انتہاپسندی کی صورت میں ہمیں بہت نقصان دیا.خون بہا، لاشے گرے، نفرتوں کو عروج ثریا تک پہنچایا گیا.ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بنے لیکن صد شکر ہے کہ اس وقت بہت حد تک لوگ سمجھدار ہوچکے ہیں. نفرتوں کے سوداگروں کو قوم اب اپنا دشمن گردانتی ہے. مذہب و مسلک کی بنیاد پر کسی سے نفرت و دشمنی کو جہالت سمجھا جانے لگا ہے.دانشوران قوم اور معتدل مزاج علماء اکرام نے اس معاملے کو یہاں تک لانے کے لیے بہت اچھا کردار ادا کیا ہے.جس ملک میں ہر سو نفرت و انتہاپسندی کی ہوا چلتی تھی وہاں الحمدللہ اب کافی حد تک امن و محبت اور مذہبی و مسلکی ہم آہنگی کی مہک پھیل رہی ہے.

افسوس مگر یہ ہے کہ اب سیاسی میدان میں وہ نفرت و انتہاپسندی کی آگ بھڑک اٹھی ہے.سیاست جو صرف اور صرف اصول، ضابطے، رواداری، برداشت، تسلیم کرنے، اخلاقیات اور بڑے پن کا نام تھا وہ اب نفرت، ضد، انا، میں نا مانوں، غصہ، چڑ اور ذاتی و گروہی انتقام کا دوسرا نام بن چکی ہے.ملکی آئین، قانون، اصول، ضابطہ اور دائرہ اخلاق کو پس پشت ڈال کر حصول اقتدار کے لیے ہر اچھے برے رستے سے کسی نا کسی طرح اقتدار تک پہنچنے یا اس کو بچانے کی جنگ جاری ہے.

دنیا بھر میں سیاسی جماعتیں اپنا منشور دیتی ہیں اور عوام کو لائحہ عمل بتا کر قائل کیا جاتا ہے کہ ہم ملکی نظام کو اس طریقے سے بہتر سے بہتر انداز میں چلائیں گے جبکہ ہمارے ہاں صرف ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور جمہوری و غیر جمہوری طریقے سے اس کے راستے روکنے کا نام سیاست ہے…

2018 میں عمران خان صاحب کو جس طرح سے اقتدار میں لایا گیا وہ اب روز روشن کی طرح عیاں ہوچکا ہے اور تقریبا اس کے سبھی کردار ننگے ہوچکے ہیں. عمران خان صاحب نے بھی کئی مرتبہ اس واردات کا اقرار کیا ہے کہ دوران حکومت میرے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں تھا، میرے ہاتھ بندھے ہوئے تھے.

ملک بھر کی تمام سیاسی جماعتوں نے اس طرز انتخاب کے خلاف گیارہ جماعتی اتحاد بنایا اور "ووٹ کو عزت دو” "بحالی جمہوریت” اور "سولین بالادستی” کی جنگ کا طبل بجا دیا.ملک بھر میں جلسے کیے گئے، ریلیاں نکالی گئیں، اجلاس منعقد ہوئے اور بھرپور عوامی رابطہ مہم چلائی گئی جس میں بتایا گیا کہ "بس بہت ہوگیا” اب مزید اس طرح سے عوامی فیصلوں پر ڈاکے نہیں ڈالنے دیے جائیں گے. کہا گیا کہ حق حکمرانی صرف عوام کا حق ہے وہ جسے بھی چنیں گے اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی.

2018 کے انتخابات پی ٹی آئی کو دھاندلی کے ذریعے جتوانے کے الزامات لگے اور اس کے چند کرداروں اور اس وقت کے اہم ترین بڑے افسروں پر بڑے بڑے الزامات لگائے گئے.
ن لیگ نے یہ سختی سے باور کروایا کہ اب ہماری جنگ لائے جانے والے "لاڈلے” سے نہیں بلکہ لانے والوں سے ہے کہ وہ کیوں اپنے ائینی دائرہ کار کے اندر خود کو محدود نہیں کرتے.

اپنی حکومت آنے کے بعد ان تمام کرداروں کے خلاف قانونی کاروائی کا عندیہ دیا گیا.

مگر ن لیگ ابھی اپوزیشن میں ہی تھی کہ ایک شخص کی مدت ملازمت کی توسیع کے لیے بغیر جوتے پہنے ان کے اراکین اسمبلی ایوان میں پہنچے اور اسی شخص کو مزید تین سال کے لیے توسیع دی گئی جس کو مسلم لیگ ن اس تمام واردات کا اصل ذمہ دار سمجھتی تھی.

نواز شریف صاحب علاج کے بہانے باہر تشریف لے گئے اور واپسی سے گریزاں رہے.

عمران حکومت کو گرا دیا گیا اور گیارہ جماعتی اتحاد برسر اقتدار آگیا.عمران خان صاحب نے اس ساری صورتحال کا وہ فائدہ اٹھایا کہ جس کام میں وہ کمال مہارت رکھتے ہیں.تبدیلی حکومت کو امریکی سازش، گیارہ جماعتی اتحاد کو لوٹ مار بچانے کی مہم اور اداروں کو ان کے سہولت کار کے طور پر عوام کے سامنے پیش کیا اور خود کو پاکستان کا سب سے بڑا مظلوم بنا کر پیش کردیا.ہماری قوم کی تمام تر ہمدردیاں اس پلڑے میں آ پڑیں اور مسلم لیگ ن کا انتہائی مقبول بیانیہ نواز شریف کے باہر جانے، واپس نا آنے، بغیر جوتے پہنے توسیع کے لیے بھاگم بھاگ پہنچنے، وقتی حکومت لینے، اپنے کیسز سے نجات پانے اور مہنگائی کا شدید طوفان لانے کی وجہ سے زمین بوس ہوگیا.کل تک جو للکارے ن لیگ مارتی تھی آج وہ پی ٹی آئی مارتی پھر رہی ہے اور کل تک الیکشن سے پی ٹی آئی بھاگتی پھرتی تھی آج ن لیگ پر وہ وقت آن پڑا ہے.صرف ایک اقتدار کے لالچ نے کہانی یکسر پلٹ ڈالی.

جو عمران خان آئینی طریقہ کار کے مطابق بدلی جانے والی حکومت کو امریکی سازش اور امریکی مداخلت قرار دیتے ہیں وہ آج اپنے ہی موقف کی حمایت کے لیے یورپین یونین اور امریکی حکام سے درخواستیں کرتے پھر رہے ہیں.
امریکی سینیٹر، بدنام زمانہ زلمے خلیل زاد اور امریکی وزارت خارجہ نے عمران خان کے حالیہ بیانیے کے حق میں بیانات داغے ہیں اور کھل کر عمران خان کی حمایت میں کھڑے نظر آرہے ہیں.پاکستان کے اندرونی معاملات میں یوں ٹانگ اڑانا مگر اب مداخلت، سازش اور امریکی غلامی نہیں کہلوا سکتا کیونکہ یہ سب عمران خان صاحب کے حق میں ہورہا ہے.

امریکہ نے اگر یہی کچھ پی ڈی ایم کے حق میں بولا ہوتا تو عمران خان اتنا شور مچا دیتے کہ آج پی ڈی ایم کو منہ چھپانے کے لیے کہیں جگہ نا ملتی.

اقتدار کی اس رسہ کشی نے نفرت کو مگر اتنا پروان چڑھا دیا ہے کہ عمران خان صاحب کی صفوں میں کھڑے چھوٹے چھوٹے بچے بھی عمران خان کے سیاسی مخالفین کے لیے آتش فشاں پہاڑ بنے کھڑے ہیں.
کئی مرکزی رہنماء سیاسی مخالفین کے ٹولے میں جا کر خودکش حملہ تک کردینے کا برملا اظہار کرچکے ہیں.

وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ صاحب اس ساری صورتحال کو اپنے وجود کے لیے خطرہ محسوس کرتے ہیں اور کیمرے کے سامنے فرماتے ہیں کہ اب یا تو عمران رہے گا یا پھر ہم رہیں گے اور ہم نہیں دیکھیں گے کہ کیا اصولی ہے اور کیا بے اصولی. کیا آئینی ہے اور کیا غیر آئینی.

وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر مقدس ایوان میں کھڑے ہوکر عمران خان کو ماں کی غلیظ گالی دے رہے ہیں. مریم نواز شریف صاحبہ اپنے جلسوں میں سیاسی حریف کو گیڈر، منافق، نشئی، زانی، گھٹیا، بدبودار اور کئی طرح کے قابل مذمت الفاظ سے پکارتی نظر آتی ہیں.مینار پاکستان جلسے میں عمران خان کے دس نکاتی ایجنڈے کے جواب میں وفاقی وزیر مریم اورنگزیب عمران خان کو دس چپیڑیں مارنے کی خواہش کا اظہار کرتی نظر آتی ہیں. سیاست اس وقت شدید فرقہ واریت اور انتہاپسندی کے نرغے میں ہے خدارا اس کو ابھی سے حل کرلیں اور بین السیاست ہم آہنگی کے لیے کردار ادا کرنا شروع کریں اس کے پہلے کہ ہمیں کسی خونریزی کا سامنا ہو.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے