عہدوں کی بے توقیری

حال ہی میں امریکہ کے سپریم کورٹ کے جج کااسکینڈل سامنے آیا ہے ۔جج صاحب کانام کلیرنس تھامس ہے اور اُن پر الزام ہے کہ وہ اپنے ارب پتی دوست کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتے رہے ہیں۔جج تھامس گزشتہ دو دہائیوں سے اپنی چھٹیاں پُر تعیش مقامات پر گزار رہے ہیں ، ذاتی جہازوں اور کشتیوں پر سفر کرتے ہیں اور مہنگے ہوٹلوں میں رہتے ہیں ،جج صاحب کا یہ سارا خرچہ ہمیشہ سے اُن کے دوست ہارلن کرو ، جو امریکہ میں رئیل اسٹیٹ کے ’قطب‘ سمجھے جاتے ہیں ، اٹھاتے ہیں۔جج صاحب نے اپنے دفاع میں موقف اختیار کیا کہ ہارلن یاروں کا یار ہے اور یہ سب کچھ ’ذاتی مہمان نوازی‘کے کھاتےمیں آتاہے۔جج صاحب نے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کی غرض سے کہا کہ جب انہوں نے اپنے جج بھائیوں (اور غالباً ایک آدھ بہن ) سےرہنمائی مانگی توانہوں نےبھی یہی مشورہ دیا کہ ’ قریبی دوستوں کی طرف سے ، جن کا عدالت کے سامنے کوئی تنازعہ یا معاملہ نہیں تھا، اس قسم کی ذاتی مہمان نوازی (سے لطف اندوزہونے)کا اعلان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔

‘یاد رہے کہ امریکی ججوں پر لازم ہے کہ وہ ہر سال اپنے تحائف کو ظاہر کریں ، کچھ ناقدین کی نظر میں چونکہ یہ پُر تعیش تعطیلات ایک قسم کا تحفہ تھیں لہٰذا جج تھامس کو انہیں ظاہر کرنا چاہئے تھا جو انہوں نےنہیں کیا،تاہم جج صاحب کا موقف ہے کہ مسٹر کرو اور اُن کی بیگم کیتھی کرو گزشتہ پچیس برس سے اُن کے بہترین دوست ہیں لہٰذا یہ ذاتی مہمان نوازی’ اُس طرح سے تحفے کے زمرے میں نہیں آتی‘جسے ظاہر کیا جانا ضروری ہو۔لیکن لوگ بڑے ظالم ہوتے ہیں۔ورجینیا کینٹر نامی ایک Ethics Lawyer( وکیلِ اخلاقیات) ہیں اورمجھے پہلی مرتبہ پتا چلا ہے کہ اخلاقیات کا بھی کوئی وکیل ہوتا ہے ،جنہوں نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اِس بات کے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ جج تھامس نے ساتھی ججوں سے کسی قسم کی کوئی با ضابطہ مشاورت کی تھی ، مس کینٹر نے کہا کہ ’عدالت کا کوئی احتساب نہیں ہوتا۔ ہر جج خود ہی یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ کس سے کیا مشورہ لے گا اور کون سے اصول اُس پرلاگو ہوں گے۔

اِس سے پہلے کہ آپ اِس اسکینڈل سے بور ہوجائیں، کہانی میں ایک دلچسپ ٹکڑا اور بھی ہے ۔ارب پتی مسٹر ہارلن نے اِس معاملے پر کہا ہے کہ جج تھامس کی ہم نے ویسی ہی میزبانی کی جیسی ہم باقی دوستوں کی کرتے ہیں، جج صاحب نے کبھی اِس کی درخواست نہیں کی ،ہم نے اپنی دعوتوں میں کبھی کسی مقدمے پر بات نہیں کی اور نہ ہی ہم کسی ایسے شخص کو مدعو کرتے ہیں جو کسی بھی طرح جج تھامس پر اُن کے زیر سماعت مقدمات کے حوالے سے اثر انداز ہونےکی کوشش کرے۔بظاہر یہ تمام بہت خوش کُن باتیں ہیں مگر کہانی میں ’ٹوئسٹ‘ یہ ہے کہ مسٹر ہارلن ریپبلکن پارٹی کولاکھوں ڈالر کے عطیات دیتے ہیں، وہی ریپبلکن پارٹی جس کی طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ صدر تھے، وہی ڈونلڈ ٹرمپ جس کی حکومت جب ختم ہورہی تھی اور ٹرمپ کے ہامی کیپٹل ہِل پر دھاوا بول رہے تھے تو جج تھامس کی بیگم صاحبہ نے وہائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف کو پیغامات بھیجے کہ ڈٹے رہو اور انتخابات کے نتائج تسلیم مت کرو۔کیپٹل ہِل فسادات پر ہونے والی تحقیقات کے نتیجے میں جب یہ بات سامنے آئی توامریکہ میں ہنگامہ مچ گیا جس کے بعد بیگم صاحبہ کو معافی مانگنی پڑی۔

یہ کہانی کسی پسماندہ افریقی ملک کی نہیںبلکہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ہےاور آج کی ہے۔اِس کہانی سے دو سبق حاصل ہوتے ہیں۔پہلا، خواہ مخواہ ہر بات میں خود کو مطعون کرنے کی ضرورت نہیں ،پاکستان دنیا کا کوئی واحد ملک نہیں جہاں بحران پیدا ہوتے ہیں ، دنیا میں ہر وقت ہر قسم کی باتیں ہوتی رہتی ہیں لہٰذا ہر معاملے میں جھٹ سے خود کو کانگو یا برکینا فاسو نہیں سمجھ لینا چاہئے، ادھر ادھر نظر دوڑا کر بھی دیکھ لینا چاہئے کہ باقی دنیامیں کیا ہورہاہے اور جب ہم نظر دوڑائیں گے تو ہمیں دوسرا سبق از خود،بولے تو Suo Motto مل جائے گا۔دوسرا سبق یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں جج سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ لگ بھگ کسی فرشتے کی طرح زندگی گزارے، یہی وجہ ہے کہ جج کی تعیناتی سے پہلے اُس کی کڑی چھان بین کی جاتی ہے ، اُس کا ماضی کھنگالا جاتا ہے ، پارلیمان کی کمیٹیاں اُس سے سوالات کرتی ہیں اور یہ کارروائی براہ راست ٹی وی پردکھائی جاتی ہے، پھر کہیں جا کر جج کو تعینات کرنے کی سفارش کی جاتی ہے ۔

امریکہ میں سپریم کورٹ کے جج کو تعینات کرنے کا یہی طریقہ ہے ، اِس کے بعد کسی جج کو ہٹانے کے لئے ایوان نمائندگان کی اکثریت اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے جو تقریباً ایک نا ممکن سی بات ہے۔اِس پورے نظام کے پیچھے یہ سوچ کارفرما ہے کہ جج کا احتساب کرنا نا خوشگوار کام ہے لہٰذا اُس کا احتساب تعیناتی سے قبل ہونا چاہئے ،جج کی تعیناتی سے پہلے جتنی چاہے پڑتال کرلو، اُس کی شخصیت کے عیب تلاش کرلو، اُس کی دیانتداری کا ریکارڈ کھنگال لو مگر جب وہ جج بن جائے تو سمجھو کہ اب ایک فرشتہ سیرت شخص عدالتِ عظمیٰ میں بیٹھا ہے۔جج تھامس کی تعیناتی خاصی مشکل سے ہوئی تھی ،موصوف پر ایک خاتون کو ہراساں کرنے کا الزام تھاجس پر کافی ہاہا کار مچی تھی۔جج تھامس کا موجودہ اسکینڈل ظاہر کرتا ہے کہ 1991 میں کی گئی اُن کی تعیناتی درست نہیں تھی۔

دوسری طرف ہم نے ججوں کی تعیناتی کے نظام کو بالکل میکانکی بناکر رکھ دیا ہے ،اِس نظام میں نہ پارلیمان کی کمیٹی کا کوئی قابل ذکر کردار ہے اور نہ ہی کوئی ایسا طریقہ ہے جس سے کسی شخص کے بارے میں مکمل چھان بین کی جا سکے کہ آیا وہ جج بننے کے قابل ہےبھی یا نہیں ، محض چند سال کی پریکٹس کرنے والا کوئی بھی وکیل جج بن سکتا ہے ۔کسی بھی ملک میں چند گنے چُنے عہدے ایسے ہوتے ہیں جن کا روایتی طریقے سےاحتساب کرنا کوئی مناسب حرکت نہیں ہوتی ، مثلاً صدر مملکت، وزیر اعظم، چیف جسٹس وغیرہ۔ وزیر اعظم کا احتساب اُس کی کارکردگی کی بنیاد پر عوام انتخابات کے ذریعے کرتے ہیں مگرہم نےیہ عہدہ ویسے ہی بے توقیر کر دیا ہے، اب جو کچھ بچا ہے اُس کی عزت بچانےکا واحد طریقہ یہی ہے کہ تعیناتی کےطریقہ کار کو درست کیا جائے۔تھوڑے کہے کو بہت جانیں ۔وما علینا الالبلاغ۔

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے