مفت آٹا ،مہنگائی اور عوام

رمضان سے پہلے جب دیکھا کہ موجودہ حکومت عوام کو جو کہ رجسٹر ہے ، رمضان میں بینظر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مفت آٹا فراہم کرے گی تو بہت زیادہ خوشی ہوئی کہ چلو چند گھرانوں کا بھلا ہو جائے گا ۔ اس مہنگائی کے عالم میں یہ مفت کا لفظ سن کرہی خوشی محسوس ہوئی اور چند اتنہائی غریب گھرانے جن کو میں جانتی ہوں سوچا کہ صبح سب سے پہلے اُن کو ہی پیغام دوں گی کہ وہ اس نعمت سے محروم نہ رہ جائیں اور صبح میں نے ایسا ہی کیا لیکن پھررمضان اور گھر یلو مصروفیات کی وجہ سے وہ لوگ نہ جا سکے لیکن اچھا ہے کہ گئے بھی نہیں کیونکہ جب سوشل میڈیا پر مفت آٹے کی فراہمی کی جو صورتحال دیکھی وہ توبہ کرنے کے لائق تھی۔

صبح سے مرد و خواتین قطاروں میں کھڑے انتظار کرتے رہے اور ٹرک 10 ،11 بجے پہنچے ۔طویل انتظار اور ہزاروں سیکڑوں کا مجمع…. پھر کیا تھا کہ روزے میں اتنا انتظار کرنے کےبعد ہر کوئی پہلے یہ نعمت وصول کرنا چاہتا تھا اور ماشا الله صبر نامی خصلت تو ہم لوگوں میں اب رہی بھی نہیں ، نہ عمر کا لحاظ اور نہ جنسں کا بس یہ جا وہ جا ۔

اور خیبر پختونخوا میں تو برقع پوش خواتین کی اتنی لمبی لمبی قطاریں کھڑی ہوتی ہیں کہ ان کو دیکھ کر رونا آتا ہے.ایک طرف دشت گردی کے مارے ہوئے ہیں تو دوسری طرف یہ مہنگائی جس نے سفید پوش لوگوں کو بھی ہاتھ پھیلانے پر مجبور کر دیا ہے ۔

مختلف مقامات پر ایک آٹے کی بوری کو 2،2 مردوں نے پکڑا ہوتاہے، ایک آٹے کی بوری کے لئے ماں بہن کی گالیاں تو عام ہیں بلکہ مارپیٹ تک بھی نوبت آ جاتی ہے. اکثر علاقوں میں تو عوام آٹے کے ٹرکوں پر خود چڑھ جاتے ہیں پھر جو جس کے نصیب میں آیا زور زبردستی والامعاملہ ہوتا ہے اور اکثریت اس میں دیہاڑی دار مزدورں کی ہوتی ہیں. ایک طرف آٹا نہ ملنے کا دکھ تو دوسری طرف ایک دن کی دیہاڑی ضائع ہونے کا غم زیادہ ہوتا ہے. اس مفت آٹے کے چکر میں اب تک 11 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں، نہ جانے عید تک یہ تعداد اور کتنی بڑھ جائے گی .

اکثر خواتین و مردوں کی ہاتھ پاؤں کی ہڈیاں ٹوٹ چکی ہیں، کچھ شدید زخمی ہوئے ہیں کیونکہ جیسے ہی گیٹ کھول دیا جاتا ہے اور ٹرک آتا ہوا نظر آتا ہے تو ہر کوئی پہلے آٹا لینے کے چکر میں ایک دوسرے کو دھکے دیتا ہے اور مہنگائی کی ماری ہوئی یہ غریب عوام اپنے ہی غریب ساتھوں کی موت یا معذوری کا سبب بنتے ہیں ۔

اگر حکومت نے یہ سہولت عوام کو دینی ہی تھی تو پھر پہلے پورا انتظام تو کرتے ایک ترتیب کے ساتھ چند گھرانوں کو میسج یا کال کے ذریعے بلاتے اور اگلے روز مزید لوگوں کو یا پھر کوئی اچھی منصوبہ بندی کرتے اور پھر یہ اعلان کرتے مگر حکومت تو کرسی کے چکر میں عوام کو ہی استعمال کر رہی ہے۔ ووٹ لینے کے لئے سارے حربے استعمال کرتے ہیں ، اور بد قسمتی سے یہ بھولی اور بھوکی مہنگائی کی ماری ہوئی عوام بھی پھر سے ان مفاد پرستوں کو اپنا قیمتی ووٹ دے کر اپنے اوپر حکمرانی کرنے دیں گے، نہ جانے ہماری عوام کو کب شعور آئے گا کہ رزق کا وعدہ اللہ نے کیا ہے اور وہ ہر حال میں ہمیں ملے گا۔ اس کے لئے اپنا قیمتی ووٹ کسی بے ایمان ، مفاد پرست کو دینے کی ضرورت نہیں .

وزیر اعظم شہباز شریف صاحب نے کہا کہ ہم نے آٹا سستا ہی نہیں بلکہ مفت دیا ہے۔ بھئی آپ مفت آٹا دے رہے ہیں ؟ پر یہ مفت کہاں ہے؟ انسانی جان سے قیمتی چیز تو کوئی نہیں ہے کتنی جانیں ضائع ہوئیں، ؟ اگر ہاں تو پھر آپ کا آٹا مفت بالکل بھی نہیں ہے.

کوئی اُسے یہ بتادو کہ اس مفت آئے کے چکر میں اب تک کتنی جانیں گئی ہیں، کتنے افراد کی ہڈیاں ٹوٹ چکی ہیں اور کیا واقعی یہ آٹا ان غریبوں کو ویسے ہی ملا ہے جیسا کہ ان کو ملنا چاہئے تھا؟ نہیں تو پھر ذرا تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھاؤ اس کو کہ اس رمضان میں آپ کے اس مفت آنے کے چکر میں یہ عوام کتنی زیادہ مشکلات کا شکار ہوئی ہے۔

اس بوڑھی خاتون کا سوچ کر آج بھی دکھ ہوتا ہے، جس کی عمر 70، 80 سال ہو گی ،جس کے کان سے کسی دوسری عورت نے آٹا دینے کے بہانے سونے کی بالیاں کان سے کھینچ کر نکالی تھی جس کی وجہ سے اُس کے کان سے بہت خون بہہ رہا تھا اور ریسکیو 1122 والے اُس پر مرہم لگار ہے تھے. جب بوڑھی خاتون سے کہا گیا کہ سونے کی بالیاں آپ پہن کر ہی کیوں آئی تھی تو جواب سن کر میرے تو آنسو ہی نہیں تھم رہے تھے (یہ میرے شوہر کی نشانی تھی میں نے ساری عمر پہنی رکھی کبھی زندگی میں نہیں اتاری اور آج یہ سب ہو گیا ) بوڑھی خاتون اپنے کان کے کٹ جانے کے درد سے بے نیاز تھی مگر اُس کے مرحوم شوہر کی آخری نشانی کے چھن جانے کے درد کوبرداشت نہیں کر پا رہی تھی ،یہ خاتون بھلا اس عمر میں ایک یا آدھی روٹی سے زیادہ کھا بھی نہیں سکتی مگر اپنی اولاد کی محبت اور اس مہنگائی و غربت کی وجہ سے اس عمر میں بھی گھر سے نکلی ،آٹا ملا، نہ ملا۔۔ لیکن اپنے شوہر کی نشانی سے محروم ضرور ہوگئی ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے