رمضان کے مبارک مہینے میں پاکستانیوں کے ارد گرد گھمسان کا رن ہے۔ عوام مہنگائی سے لڑ رہے ہیں، سیاستدان ایک ایسے اقتدار کی لڑائی میں مصروف ہیں جس میں اختیار کسی اور کے پاس ہوتا ہے۔ اور تو اور جج صاحبان بھی لنگوٹ کس کر ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ چکے ہیں اور سب سے زیادہ تشویش والی خبر یہ ہے کہ نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے حالیہ اجلاس کے بعد اعلان کیا گیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ازسر نو ایک نیا آپریشن منظم کیا جائے گا۔ غور فرمایئے! سعودی عرب اور ایران اپنی لڑائی ختم کر رہے ہیں اور ہم ابھی تک انہی پرانی لڑائیوں میں الجھے ہوئے ہیں جو اس خطے میں امریکہ نے شروع کی تھیں۔ امریکہ اس خطے سے واپس جا چکا ہے لیکن ہم ابھی تک ان لڑائیوں میں اپنے وسائل اور جانیں قربان کر رہے ہیں جو امریکہ کی وجہ سے شروع ہوئیں۔
ان لڑائیوں میں الجھے رہنا بطور ریاست بہت بڑی ناکامی ہے اور اس ناکامی کی وجہ صرف سیاستدان نہیں بلکہ تمام اہل اختیار اور اہل فکر و دانش بھی ہیں۔ آج ہم جس سیاسی انتشار اور افراتفری کا شکار ہیں اس کی اصل وجہ فکری انحطاط ہے۔ اہل سیاست سے لے کر اہل فکر تک پوری قوم اندھی محبت اور اندھی نفرت کا شکار ہے۔ اس فکری انحطاط کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ ایک دانشور صاحب فرماتے ہیں کہ عمران خان کو وہ مقبولیت ملی ہے جو قائد اعظمؒ کو بھی نہیں مل سکی۔ میرے خیال میں عمران خان کو قائداعظمؒ کے مقابلے پر کھڑا کر دینا عمران خان کے ساتھ دوستی نہیں بلکہ دشمنی ہے۔ خود خان صاحب بھی قائداعظمؒ کے ساتھ اپنے تقابل کو پسند نہیں کریں گے کیونکہ قائداعظمؒ نے تو ہمیں ایک علیحدہ وطن بنا کردیا۔ عمران خان نے پاکستان کو کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت کر ضروردیا لیکن بطور سیاستدان ان کا کوئی کارنامہ قائداعظمؒ کے پائوں کی جوتی کے برابر بھی نہیں ہے۔
ہاں وہ پاکستان کے بڑے شہروں میں رہنے والی مڈل کلاس میں کچھ عرصہ سے ضرور مقبول ہیں لیکن اس مقبولیت کے پیچھے ان کا اپنا کوئی کمال نہیں ہے۔ انہیں مقبول بنانے میں حکومت وقت کی ان غلطیوں کا کمال ہے جن کے باعث عمران خان کی حکومت بھی اپنے پہلے چھ ماہ میں بہت غیر مقبول ہوگئی تھی۔قائداعظمؒ نے مقبولیت کی سیاست نہیں کی تھی۔ انہوں نے اصول کی سیاست کی۔ برطانوی سامراج نے انہیں متحدہ ہندوستان کی وزارت عظمیٰ پیش کی جسے انہوں نے ٹھکرا دیا۔ وہ ایک سادہ سے مسلمان تھے لیکن جب ان کی بیٹی نے ایک غیر مسلم سے شادی کی تو بیٹی سے قطع تعلق کرلیا۔ عمران خان کو بانی پاکستان کے مقابل کھڑا کرنے والے دانشور نے مجھے ابن خلدون کی یاد دلا دی ہے۔
ابن خلدون نے قوموں کی شکست و زوال کے اسباب پر اپنی کتاب ’’مقدمہ‘‘ میں کچھ ’’مورخین کی خرافات‘‘ کا ذکر کیا ہے جنہوں نے تاریخ نویسی کے نام پر مقتدر شخصیات کی خوشامد کی۔ ابن خلدون کے بارے میں مصر کے مشہور مفکر ڈاکٹر طہٰ حسین نے ایک کتاب لکھی تھی ،مولانا عبدالسلام ندوی نے علامہ سید سلیمان ندوی کی فرمائش پر اس کتاب کا عربی سے اردو میں 1940ء میں ترجمہ کیا تھا۔ اس کتاب میں بتایاگیا کہ ابن خلدون کئی بادشاہوں کے درباروں سے وابستہ رہا۔ وہ بطور وزیر اور مشیر درباری سازشوں کا ماہر تھا اور ان سازشوں کی وجہ سے وہ کبھی جیل گیا کبھی جلا وطن ہوا۔شاطر ایسا تھا کہ امیر تیمور (تیمور لنگ) جیسے جنگجو حکمراںسے اپنے خچر کے منہ مانگے دام وصول کرلئے لیکن جب امیر تیمور نے قرآن پاک کی ترتیب میں تبدیلی کا ارادہ کیا تو ابن خلدون نے خوشامد کی بجائے اس کے ساتھ بحث کی۔ امیر تیمور بھی حافظ قرآن تھا اور ابن خلدون بھی حافظ قرآن تھا۔ ابن خلدون کچھ دیگر علماء کی مدد سے اپنے وقت کے طاقتور ترین حکمراں کو قرآنی آیات کی ترتیب بدلنے سے روکنے میں کامیاب رہا ورنہ ایک بہت بڑا فتنہ جنم لےلیتا۔
اپنے انہی ذاتی تجربات کی روشنی میں ابن خلدون نے ’’مقدمہ‘‘ میں لکھا کہ قومی مسائل کو اندھی محبت اور اندھی نفرت کی بجائے عقل کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ قومی مسائل کو عقل کی روشنی میں حل کرنے کا راستہ اہل فکر دکھاتے ہیں جو ہر قوم یا معاشرے میں ہمیشہ اقلیت میں ہوتے ہیں لیکن تازہ افکار فراہم کرتے ہیں۔ دورِ جدید میں اہل صحافت بھی اہل فکر میں شمار ہوتے ہیں۔ آج کے اہل صحافت بھی مگر اندھی محبت اور اندھی نفرت کا شکار ہیں۔ اندھی محبت اور اندھی نفرت کے شکار اہل صحافت عمران خان کو قائد اعظمؒ کے مقابلے پر لا کر صرف اپنے فالوورز کی تعداد اور ریٹنگ میں اضافہ چاہتے ہیں اور یہ وہ مفاد پرستی ہے جس کی کوکھ سے ’’مورخین کی خرافات‘‘ جنم لیتی ہیں۔ 2047ء میں جب قیام پاکستان کے سو سال مکمل ہوں گے تو کوئی نہ کوئی مورخ یہ ذکر ضرور کرے گا کہ 2023ء میں فلاں شخص نے عمران خان کو قائد اعظمؒ سے زیادہ مقبول لیڈر قرار دیا۔ کوئی نہ کوئی یہ بھی ضرور لکھے گا کہ یہی وہ سال تھا جب شہباز شریف اور ان کے اتحادیوں کی حکومت الیکشن سے بھاگ گئی اور کچھ اہل صحافت اس فرار کو قومی تقاضا قرار دیتے رہے۔
یہ تمام اذکار ’’مورخین کی خرافات‘‘ میں شمار ہوں گے اور ان خرافات میں کئی جج صاحبان کے وہ فیصلے بھی شامل ہوں گے جن کو کبھی سنہرا رنگ میسر نہیں آئے گا۔ اندھی محبت اور اندھی نفرت کے شکار معاشرے میں کسی کا ہیرو جسٹس عمر عطا بندیال ہے کیونکہ ان کے فیصلے عمران خان کے حق میں جا رہے ہیں اور کسی کا ہیرو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہے کیونکہ ان کے فیصلوں سے آج کل مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی بڑی خوش ہے۔ اندھی محبت اور اندھی نفرت کے شکار اہل سیاست و صحافت کو ابن خلدون کی کتاب ’’مقدمہ‘‘ ضرور پڑھ لینی چاہئے تاکہ انہیں اندازہ ہو کہ ابن خلدون نے قوموں کے زوال کے جو اسباب لکھے ہیں وہ سب کے سب پاکستان میں ظاہر ہو رہے ہیں۔
ابن خلدون نے قوموں کے زوال کے تین بڑے اسباب بیان کئے۔ اول یہ کہ عیش و عشرت کے مشاغل میں ضرورت سے زیادہ اضافہ۔ دوم یہ کہ قوم میں باہمی محبت اور یکجہتی کی کمی۔ سوم معاشی بداعمالی۔ جب برسراقتدار گروہ پیداوار کے تمام ذرائع پر قبضہ کرلیتا ہے اور فوج سمیت تمام طاقتور اداروں کو اپنا ہم خیال بنا لیتا ہے۔ ان خامیوں سے نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ اندھی محبت اور اندھی نفرت کی بجائے قومی مسائل کا حل عقل و علم اور منطق کو سامنے رکھ کر تلاش کیا جائے۔ رمضان کے مبارک مہینے میں اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمیں انسانوں کے ساتھ اندھی محبت اور اندھی نفرت سے نجات دلائے اور 2047ء کا پاکستان آج کے پاکستان سے بہتر ہو۔ اللّٰہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو اسی وقت بدلتا ہے جب کوئی قوم اپنے آپ کو بدلتی ہے۔ ہم نے اپنے آپ کو بدل لیا تو سب کچھ بدل جائےگا اور 2047ء کے پاکستان کی نئی نسل 2023ء کے پاکستان میں ’’مورخین کی خرافات‘‘ پڑھ کر حیرت کا اظہار کرے گی۔ ان خرافات سے نجات میں آنے والی نسلوں کی نجات ہے۔
بشکریہ جنگ