اس نے کہا ! 90 دن بعد بھی نگران حکومت ہوگی

خیبرپختونخوا کے نگران وزیر اطلاعات فیروز جمال شاہ کاکاخیل صوبائی سیکرٹریٹ کے اطلاع سیل میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پرسنل سیکرٹری نے اطلاع دی کہ نگران صوبائی وزیر مسعود شاہ باچا سیکرٹریٹ کی حدود میں داخل ہوگئے ہیں۔ فیروز جمال کاکاخیل فوری طور پر اطلاع سیل سے باہر آئے اور ساتھ ہی واقعہ کابینہ ہال میں داخل ہوئے،کابینہ ہال میں پہلے سے بیشتر اراکین ، چیف سیکرٹری اور 8 کے قریب محکموں کے انتظامی سیکرٹریز کے علاوہ 10تک دیگر عملہ موجود تھا جو آپسمیں محو گفتگو تھے ،مسعود شاہ باچا ہال میں داخل ہوئے اور سب کو سلام کیا، پروٹوکول آفیسر نے کرسی درست کی اور مسعود شاہ باچا کابینہ کے اجلاس کی صدارت کےلئے بیٹھ گئے۔

یہ 10اپریل 2023ءکا دن ہے ، خیبرپختونخوا کی نگران کابینہ کے تیسرے اجلاس کی صدارت صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وزیراعلیٰ کے بجائے ایک وزیر کررہے ہیں اور وزیر بھی نگران وزیراعلیٰ اعظم کے ہم زلف ہیں۔اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا تو صدر مجلس مسعود شاہ باچا نے دھیمی آواز میں ایجنڈے کی کاپی دیکھتے ہوئے بتایاکہ وزیراعلیٰ اعظم خان کے بھتیجے کی فوتگی کے باعث اجلاس کی صدارت کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی ہے، اجلاس کے آغاز پر وزیراعلیٰ کے بھتیجے کے علاوہ کابینہ کے رکن سلمہ بیگم کی قریبی رشتہ دار کی فوتگی پر فاتحہ خوانی کی جائے، فاتحہ خوانی کے بعد مسعود شاہ باچا نے ایک مرتبہ پھر کابینہ اراکین کو بتایاکہ آج کابینہ کا اجلاس یک نکاتی ایجنڈا ” ابھرتی ہوئی قومی صورتحال او ر اس کے اثرات “ پر مبنی ہوگا۔

انہوں نے نگران صوبائی وزیراطلاعات فیروز جمال کاکا خیل کا نام لیتے ہوئے کہا کہ اس سے سلسلے میں کابینہ اراکین کو مزید آگاہی موصوف صوبائی وزیر سے مل جائےگی۔فیروز جمال کاکا خیل نے گلہ صاف کرتے ہوئے مائیک آن کیا اور کابینہ اراکین کا شکریہ ادا کیا۔فیروز جمال شاہ کاکاخیل نے کابینہ اراکین کو بتایاکہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے ،پولیس اپنی مکمل استعداد کےساتھ دہشتگردی پر قابو پانے کےلئے کوشاں ہے لیکن اس کے باوجود روزانہ ایک یا دو پولیس اہلکار اپنی جانوں کی نذر انے پیش کر رہے ہیں، اس موقع پر انہوں نے قبائلی اضلاع باالخصوص شمالی وزیرستان میںدہشتگردی کے واقعات کا ذکر کیا، ساتھ ہی انہوںنے بتایاکہ صوبے کی معاشی صورتحال بھی انتہائی خراب ہے ،مشیر برائے خزانہ حمایت اللہ صاحب اس وقت موجود نہیں ورنہ و کابینہ کو آگاہ کرتے ، کابینہ راکین نے فوراً حمایت اللہ کی کرسی کی طرف دیکھا جو خالی پڑی تھی بعد میں پتہ چلا کہ حمایت اللہ کے علاوہ نگران صوبائی وزیر عبدالحلیم قصوریہ بھی اجلاس سے غائب ہیں۔

فیرز جمال شاہ کاکا خیل نے بتایا کہ اس وقت دو صوبوں میں انتخابات کےلئے تحریک انصاف کوشش کررہی ہے، اگر پنجاب میں تحریک انصاف جیت جاتی ہے تو اس کے اثرات براہ راست آنےوالے عام انتخابات پر بھی ہونگے، اس طرح ایک شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن ہی نہیں، ماضی کی طرح ایک ہی دن میں پورے ملک میں انتخابات کا انعقاد ہونا چاہئے، میں چاہتا ہوں کہ کابینہ کے باقی اراکین بھی اپنی آراءکا اظہار کریںتاکہ اتفاق رائے سے اس متعلق فیصلہ کیا جاسکے۔ نگران صوبائی وزیر شفیع اللہ خان نے فیروز جمال کاکاخیل کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ان کے موقف سے اتفاق کیا ۔ وزراءاور مشیر باری باری حمایت میں اپنی رائے کا اظہار کرتے رہے جب نگران وزیر ٹرانسپورٹ شاہدخٹک کی باری آئی تو اپنی بھاری بھرکم آواز کے ساتھ مائیک آن کرتے ہوئے مسعود شاہ باچا کو مخاطب کیا ” باچا صاحب! آپ لوگوں کو پنجاب میں انتخابات کی پڑی ہے، یہاں پر میرا سیکرٹری میری بات نہیں مانتا“ اس بات پر کابینہ روم میں قہقہوں کی آوازیں بلند ہونی لگیں، مسعود شاہ باچا نے شاہد خٹک کو جواب دیا کہ خٹک صاحب آپ کا مسئلہ حل ہوجائےگا۔اس دوران چیف سیکرٹری نے اپنی دونوں ہاتھ سینے پر رکھتے ہوئے شاہدخٹک کو مخاطب کیا، خٹک صاحب آپ بے فکر رہے، بعد میں پتہ چلا کہ کابینہ اجلاس کے آغاز پر ہی سیکرٹری ٹرانسپورٹ کا تبادلہ کیا گیاتھا لیکن شاہد خٹک اس تبادلے سے بے خبر تھے۔

شاہد خٹک نے بتایاکہ سرکاری گاڑیوں کےلئے پٹرول نہیں ہے اور آپ لوگوں کو پنجاب میں الیکشن کی پڑی ہے لیکن ساتھ ہی بولے میں پورے ملک میں ایک ہی دن انتخابات کا حامی ہوں ۔ اس دوران نگران وزیر برائے اعلیٰ تعلیم ارشاد قیصر کی باری آئی تو انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ہم نے پہلے بتایا ہے کہ ہمارے پاس فنڈز، لرز سکیورٹی عملہ کی کمی ہے جب تک یہ کمی پوری نہیں کی جاتی شفاف انتخابات ممکن نہیں، انہوں نے مزید بتایاکہ جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے کو غور پڑھا جائے تو انہوں نے پہلے ہی چیف جسٹس کے فیصلے کو 4/3 سے مسترد کیاہے، سپریم کورٹ کے موجود فیصلے کا اب کوئی اخلاقی جواز نہیں، ارشاد قیصر صاحبہ کچھ عرصہ قبل پشاور ہائیکورٹ سے جسٹس کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوچکی ہے ۔ اس دوران ایک اور نگران وزیر نے سماجی بہبود کے زیر تحت چلنے والے دارالامان کا ذکر کیا کہ وہاں خواتین بستروں کے نہ ہونے کی وجہ سے فرش پر سوتی ہیں فوری طور پر ان کےلئے ڈیڑ ھ کروڑ روپے کی اشد ضرورت ہے، بعد میں دیگر وزراءنے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا کہ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن پر دباو ڈال رہی ہے اور ہمیں اس متعلق پیش بندی کرنی ہوگی، اس دوران دوبارہ فیروز جمال کاکاخیل نے کابینہ اراکین کو بتایاکہ 1977ءمیں ایک ہی دن انتخابات نہ کرنے باعث ملک کو گیارہ سال تک مارشل لاءبھگنا پڑا، مردم شماری مکمل ہوگئی ہے ، نئی حلقہ بندیوں کے تحت ہی انتخابات ہونے چاہئے ۔

ایک وزیر نے تجویز پیش کی الیکشن کمیشن کو ایک سرکلر جاری کرنا چاہئے جس کی بنیاد پر ہم اگلے مالی سال کےلئے بجٹ کی تیاری کا آغاز کرسکے۔ کابینہ کے ایک اہم وزیر نے اس موقع پر استفسار کیا کہ کیا اکتوبر میں ملک کی سکیورٹی اور معاشی صورتحال اچھی ہوگی؟؟ حکومت کیسے پنجاب میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت انتخابات کو روک سکتی ہے؟ خدشہ ہے کہ حالات مزید خراب نہ ہوجائے ایسے میں ایمرجنسی بھی لگائی جاسکتی ہے اور ایمرجنسی کا اختیار آئین میں صدر کے پاس ہے جو کسی بھی طور پر غیر جانبدار نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے ورکر ہیں،بتایا جاتا ہے کہ تحریک انصاف کے سابق دور میں 100 سے زائد دہشتگردوں کو جیل سے رہا کیا گیا تھا لیکن بتایا جائے کہ 90 دن کے بعد نگران حکومت قائم رہے گی؟ فیروز جمال کاکا خیل ایک مرتبہ پھر کابینہ اراکین سے مخاطب ہوئے ” سر میں بیرسٹر ہوں، 90 دن میں انتخابات ہونی چاہئے لیکن حالات اس وقت غیر معمولی ہیں، آرٹیکل 254 کے تحت مزید وقت درکار ہوگا جب تک انتخابات نہیں ہوتے نگران حکومت قائم رہے گی۔ ایک وزیر نے راقم کو بتایاکہ فیروز جمال شاہ کاکاخیل کی یقین دہانی کے بعد کابینہ اراکین کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی ، فیروز جمال کاکاخیل نے کہا کہ صوبائی حکومت چیف سیکرٹری کی وساطت سے الیکشن کمیشن کو مراسلہ بھیجے گی کہ اس وقت صوبے میں حالات انتخابات کےلئے موذوں نہیں ہیں۔ انہوں نے صدر مجلس کی جانب دیکھا ۔مسعود شاہ باچا نے سب کا شکریہ ادا کیا اور کابینہ ہال سے باہر نکل گئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے