سوات دھماکہ ، پس پردہ پہلو جو میں نے دیکھے !!

سی ٹی ڈی پولیس سٹیشن کبل سوات پر نظر دوڑائیں تواندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 24 اپریل کی رات ہونےوالا دھماکہ کس قدر ہولناک تھا؟؟ چار منزلہ عمارت جس کی تین منزلیں زیر استعمال تھیں ،ایسے کھنڈر کا نظارہ پیش کرتی ہے جہاں ایک نہیں متعدددھماکے ہوئے ہیں، دھماکے محرکات جو ہیں لیکن جو سوالات سب سے پہلے ذہن میں آتے ہیں وہ درجہ ذیل ہیں۔

۔ کیا کبل سی ٹی ڈی پولیس سٹیشن کا دھماکہ دہشتگردی کی کارروائی ہے؟؟

۔ اگر بارود خود سے یا غفلت سے پھٹ گیا تھا تو کیا اس قدر تباہی مچاسکتی ہے؟؟

۔ بارود آیا کہاں سے تھا؟؟ اور اسے تلف کیوں نہیں کیا گیا؟؟

۔ کیابارود کو سی ٹی ڈی سٹیشن میں رکھتے وقت حفاظتی اقدامات اٹھائے گئے تھے؟؟

۔ سی ٹی ڈی پولیس سٹیشن کبل اور پولیس لائنز پشاور کے دھماکوں میں کیا مماثلت ہے؟؟

۔ہسپتال میں زیر علاج پولیس اہلکار کا بیان کس حد تک سچائی پر مبنی ہے؟؟

مٹہ روڈ پر واقع سوات کا سی ٹی ڈی پولیس سٹیشن اس کمپاونڈ میں واقع ہے جہاں پولیس لائن اور کبل پولیس سٹیشن کی عمارتیں بھی تعمیر کی گئی ہیں۔ 24اپریل کو دھماکے کی ابتدائی رپورٹ مرتب کرنے کے بعد راقم ایک رپورٹر کی حیثیت سے 25اپریل کی صبح کبل بازار پہنچا ، کمپاونڈ میں پولیس کے علاوہ فوجی جوان بھی بڑی تعداد میں موجودتھے جو کسی کو بھی متاثرہ عمارت میں داخلے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔

رپورٹنگ کےلئے پولیس سٹیشن کی عقب میں پہنچے جہاں سی ٹی ڈی پولیس سٹیشن واضح طورپر دکھائی دے رہا تھا۔متاثروہ عمارت کو دیکھتے ہی دھماکے کی شدت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا، سی ٹی ڈی پولیس سٹیشن کے تقریباً 250 میٹر کے احاطے میں دھماکے کے آثار واضح دکھائی دے رہے تھے، تقریباً 70سے زائد دکانوں کے شٹرز مکمل طورپر نکل چکے تھے اور جابجافائبر سے بنے سیفٹی فیوززکے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے ،جس میں بیشتر جل کر راکھ بن چکے تھے۔

مقامی دکاندار خائستہ الرحمن بتاتے ہیں کہ کام ختم کرنے کے بعد جوں ہی انہوں نے دکان کا شٹر گرایا تو آسمانی بجلی کی طرح ایک ہولناک آواز آئی اور وہ منہ کے بل گر پڑا، گرتے ہی اینٹ کا ایک ٹکڑا اس کے سر پر آلگا، لگ رہا تھا قیامت ہے، ہوا میں ایک عجیب سے بو پھیل گئی جس سے سانس لینا مشکل ہورہا تھا ،پھر اسے مزید کچھ پتہ نہیں چلا۔

بم ڈسپوزل یونٹ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ دھماکے میں 300سے کلو گرام سے زائد بارود استعمال ہوا ہے اور یہ دھماکہ نہیں بلکہ دھماکوںکا ایک کلسٹرتھا، وہ مزید بتاتے ہیں کہ سی ٹی ڈی سٹیشن کی تہہ خانے میں جو دھماکہ ہوا ہے اس میں ٹینک شکن بارودی سرنگیں، آئی ای ڈیز، خودکش جیکٹس، پریشر ککربم، خالص بارود ،ماٹرگولے، ہینڈ گرنیڈز، پرائمہ کارڈز اور دیگر اقسام کے ہتھیار پڑے ہوئے تھے۔

ابتدائی معلومات کے مطابق ایک چنگاری نے بارود کے ڈھیر کو کلسٹر بم میں تبدیل کیا ، بی ڈی یو نے اہلکار بتایا کہ تھانے کے قریب واقع 11 گھروںسے اندھے دستی بم ملے ہیں جو دھماکے کی شدت کی وجہ سے تہہ خانے سے اڑ کر قریبی گھروں میں جا گرے تھے۔۔

آئی جی پولیس اختر حیات گنڈاپورسے جب سوال کیا گیا تو انہوں نے واضح کیا کہ سی سی ٹی وی کیمروں ، گیٹ پر کھڑے اہلکاروں اور زخمیوں کے بیانات سے ابھی تک یہ واضح ہوگیاہے کہ واقعہ دہشتگردی کی کوئی کارروائی نہیں لیکن دہشتگردی کے ممکنہ خطرات کے پیش نظر ہم اس زاویے سے بھی تحقیقات کررہے ہیں۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ بارود کو پولیس سٹیشن میں نہیں رکھنا چاہئے تھا، وہی موجود ایک دوسرے پولیس اہلکار نے بتایا کہ سرکاری دفاتر کی طرح پکڑے جانیوالے بارود کےلئے بھی حفاظتی اقداماات نہیں اٹھائے گئے۔

آئی جی پولیس مزید بتاتے ہیں کہ عدالتوں میں کیسز کے زیر سماعت ہونے کی وجہ سے یہ بارود اس وقت تک تلف نہیں کیا جاسکتا جب تک مقدمے کا فیصلہ نہ ہو۔ راقم نے مختلف پولیس آفیسرز اور اہلکاروں سے اس باردو سے متعلق جانچ پڑتال کی تو ابتدائی معلومات کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ بارود صرف سوات نہیں ملاکنڈ ڈویژن کی 9اضلاع میں دہشتگردوں کے خلاف کارروائیوں کے دوران برآمد کیا گیا تھا جس میں سب سے زیادہ بارود دیر ، بونیر اور باجوڑ سے سی ٹی ڈی اہلکاروں نے برآمد کیا تھا۔

سی ٹی ڈی پولیس سٹیشن میں صرف سوات نہیں ملاکنڈ ڈویژن کی نو اضلاع سے پکڑے جانیوالے مشتبہ دہشتگردوں کو تفتیش کےلئے لایا جاتا تھا، جس وقت دھماکہ ہو اتھا اس وقت 7 مشتبہ افراد سے سی ٹی ڈی پولیس سٹیشن میں تفتیش ہورہی تھی جن میں6 افراد ان دھماکوں میں جاں بحق ہوچکے ہیں۔ بی ڈی یو کے مطابق پہلا دھماکہ 8 بجکر 20منٹ پر عشاءکی نماز سے 10منٹ پہلے ہوا جبکہ دوسرا دھماکہ 12منٹ کے وقفے سے ہوا ۔

پہلے دھماکے کے نتیجے میں بڑی تعداد میں مارٹر گولے ، دستی بم اور قریبی عمارتوں میں گرے جس سے متعددعمارتوں کو بھی نقصان پہنچا ۔۔ بارودی مواد پھٹتے وقت غفلت کہاں ہوئی ہے؟ بی ڈی یو اہلکار کے مطابق ابتدائی شواہد سے معلوم ہوتا ہے واقعہ دہشتگردی کی کارروائی یا خود کش دھماکہ نہیں، اور نہ ہی اس کا پولیس لائنز پشاور کے دھماکے سے کوئی مماثلت ہے۔

پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایاکہ کبل بم دھماکے سے متعلق ڈس انفارمیشن سب سے زیادہ سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی اور اس متعلق مراد سعید کا ویڈیو بیان ، وزیراعظم شھباز شریف ،مشتاق احمد خان اور ایمل ولی خان کے ٹویٹس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

اگر سیاستدان اپنے بیانات میں تحقیقات کا مطالبہ کرتے تو بہتر ہوتا لیکن ان رہنماﺅں نے معاملے کو سلجھانے کی بجائے مزید الجھا دیا اور تحقیقات کے مطالبے کی بجائے خود نتائج اخذ کئے، پولیس آفیسر نے مزید تبایاکہ میری ذاتی رائے ہے کہ واقعے میں پولیس اہلکاروں کی غفلت شامل ہے کیونکہ پکڑا جانیوالا بارود جس طریقے سے رکھنا چاہئے تھا اس طرح کے انتظامات نہیں کئے گئے ۔

جنوری میں جب پولیس لائنز پشاور میں خودکش دھماکہ ہوا تھا تو واقعے احتجاج کرتے ہوئے بعض پولیس اہلکاروں نے واقعے کو ڈرون حملے قرار دینے کی شبہ ظاہر کیا تھا،پولیس آفیسر نے بتایا جس طرح وہ دعویٰ جھوٹا تھا، اسی طرح اس واقعے سے متعلق ویڈیو میں زخمی اہلکار کے بیان میں بھی کوئی صداقت نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے