پاکستان میں زبانی طلاق کا مسائل

’گھر میں جھگڑے تو ہوتے ہی رہتے تھے، وہ اکثر طلاق کی دھمکیاں بھی دیتے تھے لیکن اس روز تو انھوں نے باقاعدہ تین مرتبہ طلاق کے الفاظ ادا کیے، لیکن پھر انکار کر دیا، اب میرے لیے یہ ثابت کرنا مشکل ہو گیا تھا اور اس کے لیے میں چار سال سے عدالتوں کے چکر لگا رہی ہوں۔‘

صبیحہ (فرضی نام) کے مطابق انھیں ان کے شوہر نے ایک ہی وقت میں تین مرتبہ طلاق کے الفاظ کہے ہیں لیکن ان کے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے جو وہ عدالت میں پیش کر سکیں۔

یہ صرف ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ ایسے متعدد واقعات روزانہ کی بنیاد پر پیش آ رہے ہیں اور اس کی گواہی پاکستان کی فیملی کورٹس میں لگا رش دیتا ہے لیکن ایسے واقعات کے حل کے لیے اکثر متاثرہ خواتین کو ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

عدالتوں میں ویسے تو طلاق اور خلع کے متعدد مقدمات زیر سماعت ہیں لیکن ان میں ایسے بھی کیسز ہیں جن میں خواتین کو صرف یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ان کے شوہر نے انھیں زبانی تین مرتبہ طلاق کے الفاظ کہے ہیں۔

پشاور کی فیملی کورٹس میں اس وقت لگ بھگ 65 مقدمات ایسے ہیں جن میں خواتین زبانی طلاق کو ثابت کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔

پشاور میں چھ فیملی کورٹس میں یکم جنوری 2021 سے یکم اپریل 2023 تک ایک ہزار سے زیادہ کیسز طلاق اور 1600 سے زیادہ کیسز خلع کی جمع ہوئی ہیں۔

اسی طرح اسی عرصے کے دوران 60 سے زیادہ کیسز ایسے بھی ہیں جن میں خواتین کے پاس طلاق کے کوئی ثبوت نہیں ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر نے انھیں زبانی طلاق دی ہے۔

ان حالات کا سامنا کرنے والی خواتین سے بی بی سی کی جانب سے تفصیل سے بات کی گئی ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے اس صورتحال میں عدالت جانا اور وہاں یہ سب کچھ ثابت کرنا اتنا مشکل کیوں ہے۔

[pullquote]’عدالتوں کے چکر لگا کر تھک چکی ہوں، لیکن حوصلہ نہیں ہاری‘[/pullquote]

صبیحہ کے لیے اس وقت اپنے بیٹے کو حاصل کرنا سب سے اہم بات ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ گذشتہ چار برس سے عدالتوں کے چکر لگا رہی ہیں۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ آسان کام نہیں ہے لیکن میرے سامنے میری زندگی کا سب بڑا مقصد میرے بیٹے کو حاصل کرنا ہے اگرچہ میں چار سال سے عدالتوں کے چکر لگا لگا کر بہت تھک چکی ہوں، لیکن میں حوصلہ نہیں ہاری۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’پہلے تو سارے خاندان والے لاتعلق ہو گئے، رشتہ دار کہتے ہیں کہ یہ کیونکہ عدالت گئی ہے اس سے تعلق نہیں رکھتے۔ سب میرے طرف انگلیاں اٹھانے لگے ہیں کہ یہ وہ ہے جسے طلاق ہو گئی ہے۔‘

’مجھے ایسا لگا تھا کہ میں عدالت میں جاؤں گی تو مجھے انصاف ملے گا مجھے حق ملے گا اور میرا بیٹا مجھے مل جائے گا لیکن اب چار سال ہونے کو ہیں لیکن اب تک کچھ نہیں ہوا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں ہر مہینے تاریخ پر عدالت جاتی ہوں لیکن میرے شوہر نہیں آتے۔ پانچ چھ ماہ کے بعد جب وہ آجاتے ہیں تو پھر شواہد کی بات ہوتی ہے ثبوت مانگتے ہیں، گواہ مانگتے ہیں، میں گواہ کہاں سے لاؤں سب تو میرے شوہر کے رشتہ دار ہوتے ہیں یا کبھی کوئی بھی نہیں ہوتا۔ یہ ساری صورتحال بہت مشکل تھی لیکن میں اب بھی مضبوط ہوں اور لوگوں کو بتاؤں گی کہ میں اپنا حق لے کر رہوں گی۔‘

[pullquote]اخراجات کتنے ہو چکے ہیں؟[/pullquote]

اپنے والد کے ساتھ جب وہ بی بی سی سے بات کرنے آئیں تو افسردہ تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ چار سالوں میں ہرمہینے عدالت پیش ہونے آتی ہیں اور ہر مرتبہ عدالت میں حاضری پر آنے کے لیے انھیں دو سے ڈھائی ہزار روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں، جن میں فوٹو سٹیٹ اور دیگر دستاویز حاصل کرنے کے لیے خرچہ آتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اب تک میں ڈھائی لاکھ روپے خرچ کرچکی ہوں اور کچھ حاصل نہیں ہوا۔ پہلے ایک وکیل کو 80 ہزار روپے دیے لیکن وکیل نے مقدمے میں کوئی دلچسپی نہیں لی، پھر دوسرے وکیل سے بات کی تو ان کو بھی 80 ہزار روپے فیس دی ہے اور کیس ہے کہ اب تک چل رہا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’صرف یہی نہیں ہر بار سماعت پر آنے کے لیے اور کچہری میں جو اخراجات ہوتے ہیں وہ علیحدہ ہیں۔

’ان سب کے باوجود میری بچے سے صرف دو مرتبہ ملاقات ہوئی ہے۔ میں عدالت سے یہی کہتی رہی کہ میرا بیٹا تو میرے حوالے کر دیا جائے۔ عدالت جانا میرے لیے مشکل تھا میرے ساتھ کوئی نہیں تھا میں اکیلی تھی صرف میرے والد میرے ساتھ ہر جگہ پر گئے۔‘

صبیحہ نے بتایا کہ ’میری شادی اپنے ہی رشتہ داروں میں ہوئی تھی حالات بہتر تھے لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ شوہر کوئی کام نہیں کرتا اور یہ کہ بس گھر میں ہی رہتا ہے یا دوستوں کے ساتھ گھومتا رہتا ہے۔ اس کے لیے مجھے ملازمت کرنا پڑی لیکن پھر سسرال میں یہ نقطہ اٹھایا گیا کہ یہ روزانہ کام کے لیے جاتی ہے تو علاقے کے لوگ باتیں کرتے ہیں اس لیے آپ لوگ کسی اور جگہ چلے جاؤ اور یوں ہمارے حالات خراب ہوتے رہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میرا ایک بیٹا ہوا اور اس دوران ہمارے جھگڑے بھی جاری رہے اور پھر سنہ 2019 میں انھوں نے مجھے زبانی طلاق دے دی۔ میں نے اپنے والدین کو بتایا اور ماموں کو بتایا کہ اس مسئلے کا حل نکالیں میرا شوہر کبھی تسلیم کر لیتا اور کبھی انکار کر لیتا ہے۔‘

[pullquote]صبیحہ عدالت کیسے پہنچیں؟[/pullquote]

جب انھیں ثالثی کی کوششوں کے باوجود کوئی حل نہ ملا تو انھیں مجبوراً عدالت جانا پڑا اور یہ ان کے لیے انتہائی مشکل فیصلہ تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں ایک روز کچہری آئی مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میں نے کیا کرنا ہے بس مجھے اتنا کہا گیا کہ کچہری میں وکیل ہوں گے ان سے مل لو وہ سارا مسئلہ حل کر دیں گے۔

’میرا کیس چار سال سے جاری ہے اب یہ ہو رہا ہے کہ میرے سابق شوہر تو عدالت میں نہیں آتے اور مجھے ہر پیشی میں آنا پڑتا ہے۔ مجھے اپنے بیٹا چاہیے کیونکہ میں اس کی تربیت کرنا چاہتی ہوں۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’وکیل اب کہتے ہیں کہ طلاق کے بارے میں اب تک فیصلہ نہیں ہو رہا اس درخواست کو ہم خلع میں تبدیل کر دیں تو کچھ پیش رفت ہو سکتی ہے۔ میں نے یہی کہا کہ مجھے خلع نہیں مجھے طلاق کی ڈگری ہی چاہیے اور مجھے اپنا بچہ بھی چاہیے۔‘

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Google YouTube کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Google YouTube ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

[pullquote]’میں نے تو مجبوراً خلع لے لیا ہے‘[/pullquote]

اسی طرح ایک اور خاتون اسی مسئلے سے دوچار رہی ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے مجبوراً خلع لے لیا ہے۔

بلقیس (فرضی نام) نوعمر ہیں۔ میٹرک کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران ان کی شادی ان کے کزن کے ساتھ کر دی گئی تھی لیکن شادی کے بعد ان کے جھگڑے رہتے تھے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’لیکن زندگی گزر رہی تھی کبھی ناراض ہو کر ماں کے پاس آجاتی تھی کبھی پھر شوہر کے پاس چلی جاتی تھی۔ میرے پانچ بھائی ہیں اور میں اکلوتی بہن ہوں لیکن میرا ساتھ کسی نے نہیں دیا بھائیوں نے بھی نہیں دیا میں عدالت میں گئی ہوں تو صرف میری امی میرے ساتھ تھیں۔

’میرے چار بچے ہیں اور مجھے میرے شوہر نے 2018 میں زبانی طلاق دے دی تھی لیکن میرے پاس اس کے شواہد نہیں تھے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میں عدالت میں اکیلی گئی اور کیس چلتا رہا، کتنے وکیل تبدیل کیے اور آخر میں میری درخواست کو خلع میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اب میں اپنی والدہ کے ساتھ رہتی ہوں۔ مجھے ڈرایا دھمکایا گیا اور دباؤ ڈالا کہ میں واپس اپنے شوہر کے پاس چلی جاؤں۔‘

ادھر صبیحہ کا کہنا تھا کہ جب وہ عدالت میں آئیں اور پھر مختلف خواتین سے ملاقاتیں ہوئیں تو انھیں معلوم ہوا کہ اور بھی ایسی خواتین ہیں جو اس طرح کی صورتحال سے گزر رہی ہیں۔

صبیحہ نے بتایا کہ ’ایک خاتون میرے پاس آئیں اور مجھے بتایا کہ اس کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ہے لیکن وہ کہاں جائے گی اور کوئی جگہ نہیں ہے اس لیے وہ اسی طرح زندگی گزار رہی ہے۔‘

[pullquote]وکلا بھی تشویش کا شکار[/pullquote]

عدالتوں میں جہاں طلاق اور خلع کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن ان میں اس طرح کے کیسز بھی ہیں جو غیر واضح ہیں۔ یعنی ایسے کیسز جن میں عورت کہتی ہے کہ شوہر نے زبانی طلاق دی ہے جبکہ شوہر اس سے انکار کر رہے ہیں، تو ایسے میں قانون اس بارے میں کیا کہتا ہے؟

پشاور کے سینئر وکیل میاں ولی شاہ ایڈووکیٹ زیادہ تر فیملی کورٹ کے کیسز لیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’آج سے بیس سال پہلے پشاور میں دو ہی فیملی جج ہوا کرتے تھے جس میں لگ بھگ تیس سے چالیس کیسز ہوتے اور ان میں طلاق اور خلع کے کوئی پانچ یا چھ کیسز ہوتے تھے۔

’اس کے بعد صدر پرویز مشرف کے دور میں قانون میں ترامیم کی گئیں جس میں طلاق اور خلع کے مقدمات کی اوسط میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھا کیونکہ اس قانون کے تحت خواتین کے لیے خلع لینا آسان ہو گیا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اب صرف پشاور میں سات فیملی کورٹس ہیں اور ہر کورٹ میں روزانہ ایک سو سے زیادہ مقدمات کی سماعت ہوتی ہے جن میں بڑی تعداد طلاق اور خلع کے کیسز کی ہوتی ہے۔‘

شاہ ولی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ’ایک خاتون جب اپنے گھر سے کچہری میں آتی ہے جہاں ہر طرح کے مجرم آئے ہوتے ہیں، زنجیروں سے بندھے خطرناک مجرم بھی ہوتے ہیں اس کے علاوہ پولیس اور سائل موجود ہوتے ہیں تو ان خواتین کو معلوم نہیں ہوتا انھوں نے وہاں کیا کرنا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جب خاتون کچہری میں آ جاتی ہے تو اسے ایک نئی دنیا نظر آتی ہے جہاں ان خواتین کی تلاشی لی جاتی ہے اور پھر وکیل کے پاس آ کر اپنا مسئلہ بتانا اور وہ سب کچھ بتانا پڑتا جو وہ اپنے والدین کو بھی نہیں بتا سکتی اور پھر وہی سب کچھ عدالت میں بتانا پڑتا ہے اور وہاں ان پر مختلف قسم کے سوالات بھی کیے جاتے ہیں۔‘

’ان خواتین کو عدالت کے ساتھ انتطار کرنا پڑتا ہے جہاں بہت کم خواتین کے بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے اور اکثر خواتین ڈر جاتی ہیں اور اس وجہ سے یا تو خواتین کیس ہی چھوڑ دیتی ہیں یا کیس کی شکل ہی تبدیل کر دی جاتی ہے۔‘

شاہ ولی ایڈووکیٹ کے مطابق ’عدالت میں صرف یہی نہیں بلکہ خواتین کو پھر بیلف کو شوہر کا گھر دکھانا بھی ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے کیونکہ اکثر نوٹس شوہر کو نہیں پہنچ پاتے اور اس کے لیے خاتون کو شوہر کے گھر جانا ہوتا ہے۔

’اس کے بعد اگر شوہر آ جاتا ہے تو وہ پھر تاخیری حربے استعمال ہوتے ہیں مزید تاریخیں لی جاتی ہیں کبھی وکیل نہیں آتے تو کبھی کچھ اور مسئلے ہوتے ہیں اور ایسے حالات میں خواتین کو ہی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔‘

[pullquote]خواتین کی ایسی حالت میں ترجیح کیا ہوتی ہے؟[/pullquote]

وکلا کے مطابق عام طور پر ایسے معاملات میں خواتین کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ طلاق یا خلع کے کیسز کچہری سے باہر ثالثوں یا جرگے یا خاندان کے بڑوں کی موجودگی میں حل کریں۔

شاہ ولی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ’دونوں پارٹیوں کی مرضی سے معاملہ حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کے لیے مقامی سطح پر ثالثی کی کوششیں کی جاتی ہیں اور جو بھی بہتر حل ہوتا اسی کے مطابق طلاق دے دی جاتی ہے یا دونوں اپنی مرضی سے ساتھ رہنے لگتے ہیں اور اس کے لیے آگاہی بہت ضروری ہے اور اس طرح کے جرگے ہوتے ہیں۔‘

خواتین نے بھی یہی بتایا کہ ’ابتدا میں تو انھوں نے بھی کوشش کی کہ یہ سارا مسئلہ خاندان کی سطح پر حل ہو جائے لیکن جب شوہر مسلسل انکار کر رہا ہو تو اس کے حل کے لیے انھیں عدالت جانا پڑ گیا تھا۔‘

ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ عام طورپر ایسا ہی ہوتا ہے کہ شوہر اور بیوی اپنے گھر میں اکیلے ہوتے ہیں اور اگر طلاق ہوتی ہے تو وہ اکیلے ہوتے ہیں خاتون کے پاس کوئی پاس کوئی شواہد نہیں ہوتے کیونکہ عام طورپر زبانی طور پر مرد طلاق دیتے ہیں تو ایسے میں خاتون کیسے عینی شاہد لائے گی۔

ایسے میں خاتون کے پاس عدالت میں جانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا اور اگر عدالت میں خاتون آ جاتی ہے تو ایسے کیسز میں جلدی میں فیصلہ نہیں ہوتا بلکہ اس پر بہت وقت لگ جاتا ہے اور عدالت بھی اپنی تسلی کرتی ہے۔

شاہ ولی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ’تمام فریقین کی جانب سے تاخیر ہوتی ہے اور اکثر سالوں لگ جاتے ہیں اور خلع کی صورت میں خاتون کو اپنے حق سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔

’اس لیے اکثر دیکھا گیا ہے کہ عورت قانون کے تحت سب کچھ چھوڑ دیتی ہے بس طلاق لیتی ہے۔‘

[pullquote]حکومت ایسے میں کیا کر رہی ہے؟[/pullquote]

زبانی کلامی طلاق کے بارے میں قانونی سطح پر ابہام پایا جاتا ہے۔

اگرچہ یہ امر عام طور پر شوہر اور بیوی کے درمیان ہوتا ہے اور اگر ان میں سے ایک انکار کر دے اور ایسا عام طور پر شوہر کرتے ہیں تو مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔

مذہبی اعتبار سے دیکھا جائے تو ایک مسلک ایسا ہے جہاں ایک ہی جگہ پر تین طلاقوں کو ایک طلاق سمجھتا ہے جبکہ باقی مسالک میں ایک جگہ پر تین طلاقوں کو تین طلاقیں ہی سمجھتے ہیں۔

بشکریہ بی بی سی اُردو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے