دانشور مسئلے کا حل بھی بتائیں

پہلے اصول کی بات کر لی جائے۔ اصول کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کو آئین اورقانون کا تحفظ حاصل ہے، اصول کی بات یہ ہے کہ کسی شخص کو وارنٹ دکھائے بغیر گرفتار نہیں کیا جا سکتا، اصول کی بات یہ ہے کہ گرفتاری کے بعد اُس شخص کو مجازعدالت کے سامنے پیش کیا جانا ضروری ہے ،اصول کی بات یہ ہے کہ حراست کے دوران کسی پر تشدد نہیں کیا جا سکتا،اصول کی بات یہ ہے کہ ہر شہری کو منصفانہ سماعت کا حق حاصل ہے ، اصول کی بات یہ ہے کہ اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے ہر شخص پُر امن احتجاج کر سکتا ہے اور اصول کی بات یہ ہے کہ کسی کی آزادی اظہار کا حق سلب نہیں کیا جا سکتا۔یہ تمام اصول پاکستان کے آئین میں درج ہیں ۔

لیکن چند اصول اور بھی ہیں۔ مثلاً یہ بھی اصول کی بات ہے کہ تمام اصولوں کا اطلاق ہر شہری پر بلا تفریق ہوگا ، ایسا نہیں ہوگا کہ پینٹ شرٹ پہننے والے کلین شیو مردوں اور انگریزی بولنے والی عورتوں کو احتجاج کے نام پر گھیراؤ جلاؤ اور توڑ پھوڑ کی اجازت ہوگی جبکہ ٹخنوں سے اونچی شلواریں پہننے والے باریش شہریوں کو ریاست کی عملداری کو للکارنے کے الزام میں گولیاں ماری جائیں گی۔یہ بھی اصول کی بات ہے کہ تمام اصولوں کا اطلاق زمان و مکان سے بالا تر ہوکر کیاجائے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ بنیادی انسانی حقوق اور قانون کی پاسداری کی تمام باتیں آئین سے اُس وقت مٹا دی جائیں جب ہماری محبوب جماعت اقتدار میں ہو اور جونہی وہ جماعت اقتدار سے باہر ہو اُسی لمحے آئین اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ اُس جماعت کے پیروکاروں کو تحفظ دینے کیلئےوجود میں آجائے ۔یہ بھی اصول کی بات ہے کہ آزادی اظہار کے نام پر کسی کو کافر اور غدار نہ کہا جائے ، خواتین کی کردار کشی نہ کی جائےاور بے گناہ اور محب وطن لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں نہ ڈالا جائے ۔جن اصولوں کا میں نے ذکرکیا ہے وہ جمہوریت کی چھتری کے نیچے ہی کام کرسکتے ہیں ، اگر یہ چھتری ہٹا دی جائے تو پھر نہ کوئی اپنے بنیادی حقوق مانگ سکے گا اور نہ ہی کوئی عدالت اسے یہ حقوق دلوا سکے گی۔

آج کل ہمارے جمہوریت پسند دانشور عجیب مخمصے کا شکار ہیں، وہ جمہوریت کے اصولوں کے ساتھ توکھڑے ہیں مگر جن لوگوں کے بنیادی حقوق کی خاطر وہ یہ اصول لاگو کرنا چاہتے ہیں اُن لوگوںنے خود اِن اصولوں کی ایسی دھجیاں اڑائی ہیں کہ جس سے جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ٹی وی پر اشتہارات اور ترانے دیکھ کر یوں لگ رہا ہے جیسے ہم 1958 میں واپس چلے گئے ہیں اور اِس صورتحال کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے ملک میں آگ لگائی، فوجی تنصیبات پر حملے کئےاورقومی املاک کو تباہ کیا ۔جمہوریت پسند دانشور اب کس منہ سے اِن لوگوں کیلئے آئین اور قانون کی ضمانت مانگیں جنہوں نے اِس ملک میں بچی کھچی جمہوریت کا جنازہ نکال دیا اور وہ بھی کسی نظریے یا اعلیٰ و ارفع مقصد کے حصول کیلئے نہیں بلکہ فقط اِس احساس تفاخر کے تحت کہ انہیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔دراصل اِن لوگوں کی یہ غلط فہمی کچھ ایسی غلط بھی نہیں تھی، گزشتہ دس سال سے انہیں یہ استثنیٰ حاصل تھا کہ انہیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا، حوالات گئے بھی تو ایک آدھ دن کیلئے اور ایسے جیسے ریاست کا داماد جاتاہے ، باہر نکلے تو ہیرو بن گئے۔

ریاستی اداروں نے اپنی عزت پامال کروا لی تھی مگر اِن اربن مڈل کلاس جہادیوں کو گرم ہوا تک نہیں لگنے دی تھی، یہی وجہ ہےکہ اِن فائیو اسٹارانقلابیوںکا خیال تھاکہ جب وہ نکلیں گے تو پورا ملک اُن کے ساتھ ہوگا اوروہ جوکریں گے اُس پر ہمیشہ کی طرح کوئی باز پُرس نہیں ہوگی۔ مگر اِس مرتبہ اُن سے اندازے کی ایسی غلطی ہوئی جوتباہ کُن ثابت ہوئی، اپنی سُرخ لکیر بچاتے بچاتے انہوں نے ملک کی تمام لکیریں ہی مٹا ڈالیں۔آج سے ٹھیک دو سال پہلے ایک مذہبی جماعت نے بھی احتجاج کیا تھا ، ناموس رسالتﷺسے بڑا مقصد بھلا کیا ہوسکتا ہے ، یہی اُس جماعت کا نظریہ تھااورہے،گو کہ وہ احتجاج بھی پُر امن نہیں تھا مگر انہوں نے یوں قومی اور فوجی تنصیبات پر حملےنہیں کئے تھے ، اب ذرا سوچیں کہ وہ جماعت اگر اِس قسم کے حملے کرتی تو ہمارا کیا رد عمل ہوتا؟ وہ لوگ جو اِس وقت برگر کلاس کے لڑکے لڑکیوں کے بنیادی حقوق کے غم میں گھلے جا رہے ہیں کیا اُس وقت مذہبی جماعت کےباریش پیرو کاروں کیلئے بھی ایسے ہی جمہوری اصولوں کا عَلَم بلند کرتے؟

جمہوریت پسند دانشوروں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے اصولوں سے ہٹ نہیں سکتے مگر اِن کے پاس مسئلے کا حل بھی موجودنہیں ۔مثلاً،اُن سب لوگوں کی شکلیں کیمروں میں محفوظ ہیں جنہوں نے فوجی عمارتوں اور قومی املاک کوجلا کر تباہ کیا،اور اب جبکہ انہیں گرفتار کیا جا رہا ہے تو کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ آپ بلوائیوں کو گرفتار ضرور کریں مگر بے گناہ لڑکے لڑکیوں کو چھوڑ دیں اور ایسا کہتے وقت یہ دانشور جمہوری اصولوں کا حوالہ ہی دیتے ہیں جو کہ جائز بات ہے ۔مگر سوال پھر وہی ہے کہ اِس مسئلے کا حل بھی تو بتایا جائے، محض اصول کی بات سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔جو لڑکے لڑکیاں گرفتار ہورہے ہیں ، کیا انہوں نے بڑھ چڑھ کر آگ نہیں لگائی ، کیا انہوں نے وہ تمام کام نہیں کئے جو اگر کسی مذہبی جماعت کا رکن کرتا تو سیدھا دہشت گرد کہلاتا۔اور یہ بات کہنے کی تو ضرورت ہی نہیں کہ کسی بے گناہ کو گرفتار نہ کیا جائے ،یہ توظاہر سی بات ہے، مگر یہاں اِس بات کا مقصد سوائے اِس کے اور کچھ نہیں کہ اِن فساد برپا کرنے والوں سے نرمی برتی جائے۔

یہ بات سمجھنے والی ہےکہ محض کسی عمومی اصول کی آڑ میں ہم اِن بلوائیوں کیلئے نرم گوشہ نہیں رکھ سکتے جنہوں نے اپنے ہر اقدام سے اِس ملک کی کمزور جمہوریت کواتنا لاغر کردیا ہے کہ اب وہ کئی برس تک اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوسکے گی۔اِن بلوائیوں کا اصل جرم ہی یہ ہے کہ انہوں نے ملک میں جمہوریت کا جنازہ نکال دیا ہے اور ہم جیسے لوگوں کے پاس یہ آپشن بھی نہیں چھوڑا کہ وہ جمہوریت کے جنازے کو کندھا دے سکیں۔یہ ہے اِن کا اصل جرم اور یہ ہے وہ مسئلہ جس کا حل ہمارے دانشوروں کے پاس نہیں !

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے